مغرب میں مسلمانوں کا المیہ
اسلامی اصولوں اوررویّوں سےمتعلقہ سائینسز کا انضمام مغرب کی ذہنی صحت کے نظام کو بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
اسلامی اصولوں اوررویّوں سےمتعلقہ سائینسز کا انضمام مغرب کی ذہنی صحت کے نظام کو بہتر بنانے میں فعال کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
عالمی نظریات پر مبنی جدید اورآزاد نفسیاتی سوچ نے مغرب کی ذہنی صحت کی بنیادیں کمزور بنائی ہیں۔ طبی ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور عصری نفسیات کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے، اسلامی اصولوں اور کرداری رویے کے علوم کا انضمام ضروری ہے کیونکہ اسلامی الہٰیات نفسیاتی علاج کے لیے بہترین ذریعہ ہے ۔
ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر فہد خان – جو کہ امریکہ میں اسلامک تھیولوجی کی بنیاد پر کام کرنے والے ایک نفسیاتی فلاح و بہبود کے مرکز ’خلیل سنٹر‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں – نے 21 جون 2022 کوانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں منعقدہ ایک ہائبرڈ سیمینار میں کیا جس کا عنوان تھا ”ڈائیلیمہ آف مسلمز ان دی ویسٹ“۔ اجلاس میں خالد رحمٰن، چیئرمین آئی پی ایس ، اور ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس نے بھی شرکت کی۔
ڈاکٹر فہد نے مغرب میں مسلمانوں میں پیدا ہونے والی ذہنی خرابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں خودکشی کے خیالات کی شرح غیرمسلموں سے تقریباً دوگنی ہے۔ مجموعی طور پر صورت حال اتنی خراب ہے کہ خودکشی امریکہ میں موت کی سب سے بڑی وجہ بن چکی ہے، جہاں 50 فیصد بالغوں کا کسی قسم کا علاج نہیں ہواہے۔ اس نے دیگر عوامل کے علاوہ مغرب کو وسوسوں کا شکار کر دیا ہے جہاں کمزور بنیادوں کی وجہ سے دماغی صحت کا نظام ناکام ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر فہد نے اس ضمن میں کہا کہ اس کمزور بنیاد کے کچھ بنیادی اسباب میں ناقص علم کی پیداوار اور علم کی تقسیم شامل ہیں۔ ان کے مطابق، نفسیات کے میدان میں علم کی جہتوں اوروقت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس کی اقدار امن پر مبنی نہیں بلکہ طاقت کے ذریعے طے کی گئی ہیں۔ طاقت اور اثر و رسوخ کے حامل افراد نے عالمی نظریات پیدا کیے، جن کی بنیاد پر جدید نفسیاتی نظریات وضع کیے گئے اور ان کی تدریج ہوئی۔ نتیجتاً، زیادہ تر جدید مغربی نفسیات غیر تربیت یافتہ تھیوریسٹوں کے انقلابی افکار پر مبنی ہے، جنہوں نے رد عمل اور عالمی جائزے پر نظریات مرتب کیے ہیں۔
علم کی تقسیم اور سیکولر علم میں سے نکلے ہوئے مقدس علم کی موجودہ شکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام میں مقدس اور سیکولر علم کا تصادم کبھی بھی موجود نہیں تھا اور یہ صرف استعمار کے مضمرات کے طور پر ابھرا۔ ان مسائل میں گھر جانے کی وجہ مروجہ خارجیت پسندانہ بیان بازی، علم نفسیات میں اسلام کے فکری ورثے کا فقدان اور 1700 سال کے ریکارڈ میں سے اسلامی نفسیاتی علم اور اس میدان میں کیے گئے کام کی عدم موجودگی ہے۔
اسلامی الہیات سے جڑی پیشہ ورانہ نفسیات کی عملی شکل – جیسی کہ خلیل سینٹر اسے لے کر چل رہا ہے – مغربی نفسیات کے مقابلہ کے طور پر نہیں ہے۔ یہ اسلامی اصولوں کے فلٹر کے ذریعے جدید نفسیات کو چھلنی کیا گیا عمل ہے جسے بعد ازاں عصری کرداری رویے کی سائنس کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ یہ امریکہ میں مسلمانوں کے مسائل اورذہنی انتشار کا علاج کرنے کے لیے ٹریڈیشنلی اسلامیکلی انٹیگریٹڈ سائیکو تھراپی (ٹی آئی آئی پی) کے ذریعے علاج کے فریم ورک کی بنیاد بناتا ہے۔
ٹی آئی آئی پی کا یہ نقطۂ نظر – ایک اسلامی نظریہ علم اور علم الوجود کے فریم ورک کے اندر – وقت کے ساتھ ساتھ کثیر شعبہ جاتی تحقیق کے ذریعے ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے،جو کہ جدید نفسیات اور طبی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کے انضمام کا ایسا ماحول فراہم کررہا ہے جس کی جڑیں اسلامی الہٰیات اور روایات میں ہیں۔ اس انضمام کے حوالہ سے، ڈاکٹر فہد نے کچھ اعداد و شمار پیش کیے جن کے مطابق امریکہ میں رابطہ کیے گئے 96 فیصدمسلمانوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ ان کے معالج کو ان کی مذہبی اقدار کا اشتراک کرنا چاہیے، جبکہ 97 فیصدنے کہا کہ ان کے علاج کے طریقہ کار کو اسلامی الہٰیات سےمربوط کرنا چاہیے۔
ٹی آئی آئی پی کے مطابق، مسلمانوں کے علاج کو انسانی نفسیات کے علم الوجود عناصر کے تحت ممکن بنایاجاتا ہے؛ عقل یا کگنیشن، نفس یا بیحیوئر انکلینیشن، روح یا سپرٹ، اور احساس یا ایموشنز۔ مزید برآں، انہوں نے اس نفسیاتی علاج سے بیماری کامقابلہ کرنے کے مقاصد، سائیکو تھراپی کی طرف اسلامی رجحان کے لیے موجودعلم کے ذرائع، اور تضادات کے حل پربھی روشنی ڈالی۔
خلیل سینٹر میں زیر علاج 107 مریضوں پرٹی آئی آئی پی کےایک سالہ عمل کے نتائج کا مطالعہ گراف کی شکل میں شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی آئی آئی پی نے مریضوں میں سائیکلو جیکل میئرز آف اسلامک ریلیجسنیس (پی ایم آئی آر) کے باعث شفایابی کی صلاحیت میں اضافہ ہواہے ، اور ان کی نفسیاتی کیفیت اور تکلیف کی سطح میں بھی کمی آئی ہے۔ آخر میں، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مغرب کے مسلمانوں میں نفسیاتی مسائل اور عوارض کے بارے میں بیداری بڑھ رہی ہے کیونکہ وہ اپنے مخمصوں اور ذہنی صحت کے مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے بہتر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اختتامی کلمات میں، خالد رحمٰن نے اس موضوع پر علمی بحث کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیا اور ایسے سکالرز کو دعوت فکر دی جن کے پاس اسلام کا مضبوط حوالہ اور اسلامی فریم ورک کے ذریعے عالمی علم کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہبی تعلیمات پر مبنی اس ماڈل کو آزاد نفسیاتی ماڈلوں سے الگ رکھنے کی قیمت معاشروں نے روایات اور اقدار کی ساکھ کو نقصان پہنچا کر ادا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، نئے چیلنجز سامنے آئے ہیں جن کا حل ایسےماڈلز کے اندر ہونا چاہیے۔
جواب دیں