میاواکی تکنیک کے ذریعے شہروں میں جنگلات کے لیے شجر کاری
پاکستان میں جنگلات کے لیے ناکافی جگہ اور سبزے کی کمی شدید تشویش کا باعث ہے کیونکہ ان کی کمی نہ صرف ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے لیے خطرناک ہے بلکہ انسانوں اور جنگلی حیات کی بقا کے لیے بھی خطرات پیدا کرتی ہے۔
پاکستان میں جنگلات کے لیے ناکافی جگہ اور سبزے کی کمی شدید تشویش کا باعث ہے کیونکہ ان کی کمی نہ صرف ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے لیے خطرناک ہے بلکہ انسانوں اور جنگلی حیات کی بقا کے لیے بھی خطرات پیدا کرتی ہے۔
7فروری 2022 کو آئی پی ایسمیں منعقدہ ایک نشست کے دوران اس خطرے کا اشارہ شہری جنگلات کے بانی شہزاد قریشی نے کیا، جو شہری علاقوں میں جاپانی میاواکی طریقہ استعمال کرتے ہوئے چھوٹے جنگلات بنانے کےمنصوبہ ساز ہیں۔
قریشی نے اپنی پریزنٹیشن میں انکشاف کیا کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سےعالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا بھر میں درختوں کی تعداد 6 ٹریلین سے کم ہو کر 3 ٹریلین رہ گئی ہے۔ انہوں نےاس بات کی نشاندہی کی کہ ہسکوارنا اربن گرین اسپیس انڈیکس (ایچ یو جی ایس آئی) اور کروتھرز لیبکے مطابق کراچی میں سبزہ 1فیصدسے بھی کم ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس شہر نے 2015 میں شدید گرمی کی لہر کی صورت میں اس کا تباہ کن نتیجہ دیکھا جس کے نتیجے میں متعدد اموات اور مادی نقصان ہوا۔
مقرر نے بتایا کہ 2015 کے واقعات کے بعدانہوں نے درختوں اور پودوں کی افزائش کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ایک جاپانی ماہر نباتات اکیرا میاواکی کے جنگلات اگانے کے طریقہ کار کو سمجھا جس کے ذریعے قدرتی مقامی پودوں کی 10 گنا تیز اور 30 گنا زیادہ گھنی نشوونما ہو سکتی ہے، جو 30 گنا زیادہ آکسیجن اور 30 گنا کم کاربن ڈائی آکسائیڈکی پیداوار کا باعث بنتے ہیں۔
قریشی نے بتایا کہ اس احساس نے انہیں نومبر 2015 میں میاواکی طریقہ کارکے ماہر کی مدد سے کلفٹن میں کچرے کے ڈمپنگ گراؤنڈ میں ایک چھوٹا سا جنگل بنانے کے پائلٹ پروجیکٹ کے ساتھ شہری شجر کاری شروع کرنے پر قائل کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس چھوٹے سے جنگل کی تخلیق کے نتیجے میں وہ اب تک کلفٹن کے پبلک پارک میں 9000 سے زائد پودے لگا چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں اب تک کراچی میں 8 اور لاہور میں 2 مزید چھوٹے جنگلات بنائے جا چکے ہیں۔
جواب دیں