وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ: پس منظر ، تعارف اور کرنے کے کام
Download PDF |
دستورِ پاکستان کی دفعہ ۳۸-ایف کے مطابق ریاستِ پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ربا یعنی سود کے خاتمے کا جلد از جلد اہتمام کرے۔ ۱۹۸۰ء میں جب وفاقی شرعی عدالت کو دستوری حکمنامے کے ذریعے تشکیل دیا گیا تو دس سال کے لیے معاشی قوانین کو اس کے دائرہ کار سے خارج رکھا گیا۔ یہ پابندی جیسے ہی ختم ہوئی تو ملک میں جاری سودی نظام کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ معزز عدالت نے سود کو اسلامی تعلیمات اور مذکورہ دستوری تقاضے کے منافی اور ممنوع قرار دیا۔[i]
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے ۱۹۹۹ء میں اس فیصلے کی توثیق کی۔ [ii] تاہم اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے ۲۰۰۲ میں اس معاملے کو وفاقی شرعی عدالت کی طرف واپس بھیجا۔[iii] ۲۸ اپریل ۲۰۲۲ بمطابق ۲۶ رمضان ۱۴۴۳ھ کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، جسے ملک کے تمام طبقات نے نہایت اہم قرار دیا۔ اس اہم فیصلے، اس کے ممکنہ اثرات اور آئندہ لائحہ عمل پر غور کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ۲۹ اپریل کو ایک مشاورت کا اہتمام کیا۔[iv] ذیل میں فیصلے کا اجمالی تعارف اور مشاورت میں پیش کردہ تجاویز کو مختصر نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
· ۲۸اپریل ۲۰۲۲ کو وفاقی شرعی عدالت نے سود [عربی: ربا۔ انگریزی: interest] کے بارے میں گزشتہ دو دہائیوں سے زیرسماعت مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔۳۱۸ صفحات پر مبنی اس دستاویز کے پہلے ۴۷ صفحات میں ان تمام ۸۶ مقدمات کی معلومات دی گئی ہیں جنہیں اس مقدمہ میں یکجا کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درخواست دہندگان اور ان کے وکلا اور عدالتی معاونین کی تفصیلات بھی اس کا حصہ ہیں۔
· صفحہ۴۸ پر عدالت میں ہونے والی سماعتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے مطابق مقدمہ کی سماعت ۵۸ مختلف تاریخوں میں ہوتی رہی۔ پہلی سماعت ۳ جون ۲۰۱۳ کو ہوئی جبکہ آخری سماعت ۱۲ اپریل ۲۰۲۲ کو ہوئی۔
· فیصلہ سنانے والے تین رکنی بینچ کے ارکان میں جسٹس نور محمد مسکان زئی [چیف جسٹس]، جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شامل تھے۔ فیصلہ جسٹس سید ڈاکٹر محمد انور نے تحریر کیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نور محمد مسکان زئی نے ایک اضافی نوٹ تحریر کیا ہے ۔
مقدمہ کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ :
· فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۴نومبر ۱۹۹۱ کو سود کے خاتمہ کے لیے فیصلہ سنایا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ کو فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کی۔
· وفاقی شرعی عدالت کے نومبر ۱۹۹۱ کے فیصلہ اور بعدازاں شریعت بنچ کے دسمبر ۱۹۹۹ کے فیصلہ میں دوٹوک طورپر کہاگیا تھا کہ ربا اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہے۔ساتھ ہی ان [۸] قوانین کی نشاندہی کی گئی تھی جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اوار حکم دیا گیا تھا کہ یہ قوانین ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ تک ختم کر دیے جائیں [حالیہ فیصلے کاپیرگراف ۲]۔
· اس کے ساتھ ہی ۱۷ ایسے قوانین کی فہرست دے کر انہیں بھی ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا جو سود سے متعلق ہیں اور جو قرآنی اصطلاح ربا کی تعریف میں آتے ہیں۔ [پیراگراف ۳]
· شریعت اپیلٹ بینچ نے اس کے ساتھ ہی اپنے ۱۹۹۹ ء کے فیصلہ میں ۳جامع نکات کی روشنی میں واضح کیا تھا کہ قرض کی کوئی بھی صورت ہو اگر کسی معاہدہ میں اصل زر سے زائد رقم لی جائے گی تو وہ ‘ربا’ کی تعریف میں شامل ہے اور یوں ممنوع ہے۔ [پیراگراف۴] نیز دستورِ پاکستان کی پاسداری میں حکومت کو وہ تمام اقدامات کرنے چاہییں جو معیشت کو بلاسود بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو اپنے معاشی نظم کو بہتر بنانے اور کچھ نئے قوانین اور اداروں کی تشکیل کی تجاویز بھی دی گئی تھیں [پیراگراف ۵اور ۶] تاکہ مالیاتی نظام [بشمول بین الحکومتی معاملات اور اسٹیٹ بنک کے ساتھ معاملات] کو شریعت کے مطا بق اپنایا جاسکے۔
· اس دوران ۲۰۰۰ میں یو بی ایل کی جانب سے فیصلہ جس پر نظرثانی کی اپیل شریعت اپیلٹ بینچ میں داخل کی گئی۔ جس پر شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۴ جون ۲۰۰۲ کو فیصلہ سنایا، جس کے ذریعے سابقہ فیصلہ کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے فیڈرل شریعت کورٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ مقدمہ پر ازسر نو غور کرے اور بعض متعین کردہ اور دیگر متعلقہ امور کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے کا ازسرِ نو جائزہ لے کر فیصلہ (redetermination)کرے [پیراگراف۸]۔
___________________________
فیصلہ کے مشتملات
· پس منظر کے بیان کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے بجاطورپراس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس فیصلہ میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔ تاہم اس تاخیر کی وجوہات کو نظرانداز کرتے ہوئے معزز عدالت نے ایک نہایت اہم اور مثبت پہلو کی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ کہ اس بیس سال کے دوران مالیاتی اور بنکنگ نظام میں ہونے والی بہت سی پیش رفت نےان بہت سے سوالات اور نکات کو غیر اہم بلکہ بڑی حدتک غیرمتعلق بنا دیا ہے جو ۱۹۹۱ کے فیصلہ اور شریعت اپیلٹ بینچ ۱۹۹۹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرتے ہوئے اٹھائے گئے تھے۔ دوسری جانب شرعی عدالت اور شرعی ایپیلٹ بنچ کے فیصلوں میں دی گئی راہنمائی سے عملی میدان میں مالیاتی نظام کی غیرسودی بنیادوں پر منتقلی میں مدد ملی ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۰ کے مقابلہ میں آج اسلامی بنکاری ایک حقیقت ہے اور پاکستان اور مسلم دنیا میں ہی نہیں غیر مسلم دنیا میں بھی اس کے تجربات عام ہیں ۔ خود اسٹیٹ بنک آف پاکستان شریعہ بورڈ کی راہنمائی میں اسلامی بنکاری کے حوالہ سے ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ [پیراگراف۹]
· اس کے ساتھ موجودہ فیصلہ میں ماضی کے دونوں فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ایک نہایت وقیع علمی اور قانونی دستاویز قرار دیا گیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ ان فیصلوں کی پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی تحسین کی گئی[اور اس کے نتیجہ میں علمی مباحث اور اطلاق کے میدان میں نئی پیش رفت کے مواقع میسر آئے۔[پیراگراف۹]
· اس مجموعی تناظر میں فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست میں جو سوالات اٹھائے گئے ان کا ایک بڑا حصہ تو ان نکات اور دلائل پر مشتمل ہے جو اس سے قبل بھی ۱۹۹۱ اور ۱۹۹۹ میں مقدمات کی سماعت کے دوران اٹھائے گئے تھے یا زبان وبیان کے بہت معمولی فرق کے ساتھ اب دوبارہ اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پر سابقہ فیصلوں میں جامع انداز میں بحث کی جاچکی ہے۔ فیصلہ میں اس نوعیت کے سوالات کی چھ مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ [پیراگراف۹]
· فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بعض انفرادی آراء سے قطع نظر مسلم امہ میں بالعموم ربا کے بارے میں قرآن وحدیث کی تعلیمات پر اتفاق رائے موجود رہا ہے۔ اور یہ اتفاق رائے کسی خاص دور یا علاقے تک محدود نہیں ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی آیت[آل عمران: ۱۳۰]کی مثال دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ صرف اس ایک نکتہ کے ضمن میں ہم نے ۱۰۰ سے زائد تفاسیر کا جائزہ لیا ہے۔ [پیراگراف۱۰] فیصلہ میں مختلف ادوار، زبانوں ، علاقوں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی ان ۱۰۰ سےزائد تفاسیروں کی فہرست بھی دی گی ہے۔
· اعتراضات اور سوالات کی دوسری نوعیت ان خدشات پر مشتمل تھی کہ مثلاً غیرسودی اسلامی بنکاری کے لیے تجویز کردہ نظام نا قابل ِعمل ہے اور اس کے اطلاق کی صورت میں بنکاری کا پورا نظام بیٹھ جائے گا وغیرہ۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی بنکا ری اور مالیاتی سیکٹر میں ہونے والی پیش رفت نے ایسے اعتراضات کو غیرمتعلق بنا دیا ہے۔ [پیراگراف۱۰]
· سوالات کی تیسری نوعیت ان اعتراضات پر مشتمل تھی جن کی بنیاد ان اسکالرز کی آراء پر مبنی تھیں جن کو امت کی مجموعی فکر کے مقابلہ میں استثناء قرار دیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب درخواست کنندگان نے [۱۹۹۱ اور ۱۹۹۹ میں] ان اسکالرز کی بھی اصل تحریریں عدالت میں پیش نہیں کی تھیں بلکہ انہیں پیش کرتے ہوئے ثانوی ماخذ سے استفادہ کیا گیا تھاجو اکثر صورتوں میں متعلقہ اسکالرز کی رائے سے زیادہ لکھنے والے کی ذاتی رائے پر مبنی ہوتی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ ہماری جانب سے کہنے کے باوجود اس بار بھی اصل تحریریں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔ [پیراگراف ۱۱]
دوسری جانب عدالت نے تبصرہ کیا کہ ان ذاتی آراء کی اہمیت بھی اب دنیا بھر میں اسلامی بنکاری کے عملی تجربات نے بہت کم یا ختم ہی کردی ہے۔
· بعض سوالات ایسے تھے جو اگرچہ شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے مقدمہ ازسرِ نو جائزے (re-determination) کے لیے بھیجتے ہوئے اٹھائے گئے تھے لیکن سماعت کے دوران خود درخواست دہندگان کی جانب سے ان پر گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ [پیراگراف ۱۱ ]
· سوالات کی پانچویں قسم وہ تھی جو پہلی بار اٹھائے گئے تھے اور عدالت نے ان پر تفصیل سے غور کیا ہے۔ جبکہ سوالات کی چھٹی قسم وہ تھی جس میں شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے نظرثانی کے لیے اپنے حکم میں کچھ اسکالرز کے ناموں کاذ کر کرتے ہوئے ان کی آراء کو سامنے رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بالعموم یہ وہی اسکالرز ہیں جن کی آراء استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ درخواست دہندگان کی جانب سے ان اسکالرز کی کوئی مخصوص تحریروں کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔ فیصلہ کے مطابق درخواست دہندگان کو ایک بار پھر موقع دیا گیا کہ وہ اس ضمن میں باقاعدہ [اصل مآخذ اور ان کے] حوالوں کے ساتھ لوازمہ فراہم کردیں۔ تاہم ایسی کوئی چیز عدالت کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس نیشنل بنک نے اپنے جواب میں اسلامی بنکاری کے حوالہ سے اپنی پیش رفت بتائی جو اس کی علامت تھی کہ خود بنک کے اپنے سابقہ موقف میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔
· البتہ اسی سوال کے جواب میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے سات مختلف اسکالرز کے حوالہ سے کچھ تفصیلات فراہم کیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر بھی اصل مآخذ پر مبنی نہیں تھیں۔ [اس سلسلہ میں بعض دلچسپ مثالیں بھی فیصلہ کے پیراگراف میں دی گئی ہیں]۔اسی ضمن میں عدالت نے اسٹیٹ بنک پر یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اپنے دلائل کے مقابلہ میں اسلامی بنکاری میں اپنے عملی کردار سے وہ خود اپنے موقف کی تردید کر رہا ہے۔ [پیراگراف ۱۴]
· فیصلہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود عدالت نے اپنے طورپر ان اسکالرز کی آراء کا جائزہ لیا ہے۔ عدالت نے انہیں ۴نکات کی صورت میں متعین کیا ہے اور اپنے فیصلہ میں ان نکات کا احاطہ کیا ہے۔ [پیراگراف ۱۲]
· پیراگراف ۱۵ میں عدالت نے ان چالیس سے زیادہ قانون دانوں، علماء، ماہرین اور پروفیشنلز کی فہرست دی ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کسی بھی شکل میں عدالتی بحث میں معاونت کی ہے۔
___________________________________
تصفیہ طلب سوالات کا تعین
· پس منظر کے تفصیلی بیان اور اس پر تبصرہ کے بعد عدالت نے ان ۱۲ سوالات کا ذکر ہے جنہیں پیشِ نظر امور کے تصفیہ کے لیے عدالت نے اپنے لیے متعین کیا تھا۔ یہ ۱۲سوالات فیصلہ کے صفحہ ۸۰تا ۸۲ [پیراگراف۱۶] میں درج ہیں۔
– پہلا سوال فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار (jurisdiction) سے متعلق ہے۔
– اگلے ۴سوالات میں ربا کی تعریف اور پھر اس تعریف کی روشنی میں بحث کی گئی ہے کہ کیا ربا کمپاونڈ انٹرسٹ ، بہت زیادہ شرح سود کے ساتھ قرض اور محض ذاتی مقاصد کے قرضوں ہی سے متعلق ہے۔
– چھٹا اور ساتواں سوال اسلامی بنکاری ماڈل کے موجودہ حالات میں قابل عمل ہونے اور دنیا بھر میں اس کے اس وقت آپریشن کے جائزہ سے متعلق ہے۔
– آٹھواں سوال تجارتی مقاصد کے قرضوں کی حیثیت اور نواں سوال افراط زر اور انڈیکسیشن کے حوالہ سے بحث کرتا ہے۔
– دسویں سوال میں بنک کے قرضوں پر سود ادا کرنے اور بنک کی جانب سے کھاتے داروں (depositors) کو سود ادا کرنے میں کسی فرق پر بحث کی گئی ہے۔
– گیارہواں سوال سود کے حوالہ سے پاکستان کی بین الاقوامی معاہدات کے تحت ذمہ داریوں سے متعلق ہے کہ فیصلہ کے بعد ان ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآ ہوا جائے۔
– بارہوں سوال اس بات سے بحث کرتا ہے کہ کیا فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے کسی وقت اور مدت کا تعین کیا جانا چاہیے۔ [پیراگراف ۱۶]
· مذکورہ بالا تمام سوالات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے جو [پیراگراف ۱۷ تا ۱۳۶ یعنی صفحہ۲ ۸ سے لے کر ۲۶۰ تک] ۱۷۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر ایک سوال پر علمی اور قانونی دونوں پہلوؤں سے اس بحث میں نہایت اہم نکات واضح ہوگئے ہیں۔
· فیصلہ کا پیراگراف ۱۵۵ مجموعی طورپر اسلام اور اس کے اقتصادی نظام کے اہداف اور اس پورے دائرہ کار کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ضروری اقدامات کے بغیر اس نظام کی برکات سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالہ سے یہ یاددہانی ہوتی ہے کہ بنکاری سے سود کاخاتمہ محض ایک قدم ہے۔ اسلامی نظم معیشت کو کلی طور پر اختیار کرنے کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے دائروں میں متعدد اقدامات ضروری ہیں۔
· آئندہ پیراگرافوں میں فیصلہ کے دیگر نکات ہیں۔ یہ پیراگراف حسب ذیل مو ضو عات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ۱۵۶ [ربا کا قرآن وسنت سے متصادم ہونا]، ۱۵۷ [حکومتی قرضوں پر سود بھی ‘ربا ‘ہے اور حرام ہے]، ۱۵۹ [تمام قوانین جن میں ‘انٹرسٹ’ کاذکر آیا ہے ان میں اسے حذف کیا جائے]، ۱۶۱ [۲۰سے زائدان قوانین پر ،جوزیر بحث درخواستوں کا حصہ تھے اور یا خصوصی طورپر زیر بحث آئے تھے ،فرداً فرداً رولنگ ۔ ان میں سے بعض کو مکمل طورپر اور چند میں جزوی طورپر تبدیلیوں کے لیے ہدایت کی گئی ہے۔
· پیراگراف ۱۶۳ میں مکمل طورپر معیشت غیرسودی بنانے کے لیے معیشت سے سود کے مکمل خاتمہ کے لیے ٹائم فریم کے طور پانچ سال کی مدت طے کی گئی اور اس کے لیے ۳۱دسمبر ۲۰۲۷ کی تاریخ کا تعین کر دیا گیا ہے۔
· پیراگراف ۱۶۴ میں دستور کے آرٹیکل [۳] ۲۹ کی روشنی میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہر سال ایک رپورٹ پیش کرے گی جس میں سود کے مکمل خاتمہ کی طرف پیش رفت بیان کی جائے گی۔
· آخری کم وبیش ۲۰ صفحات میں چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار کے حوالہ سے تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔
___________________________
آئندہ کام کے لیے ایجنڈا:
· وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو بجا طور پر تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے۔ بالخصوص دینی طبقات میں بلا تفریق ِمسلک اس کی تحسین کی گئی ہے۔ سابقہ فیصلوں کو اور آگے بڑھاتے ہوئے اس فیصلے میں ربا کی تعریف اور اس کی حیثیت کو علمی اور قانونی دلائل کے ساتھ دو ٹوک طور پر متعین کر دیا گیا ہے۔ یو ں عدالت نے اپنا کام کر دیا ہے۔ مجوّزہ نظام کی تفصیلات اور عملدرآمد کی حکمت ِ عملی کا کام اب دیگر افراد ، اداروںاور سب سے بڑھ کر حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
· مقامی اور عالمی سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ کو پیش ِنظر رکھا جا ئے تو یہ خدشہ بے جا نہِیں ہے کہ رائج مالیاتی نظام سے فوائد اٹھانے والے مفاد پرست عناصر کی جانب خاموش نہ رہیں گے۔ ان کی جانب سے مختلف حربے اختیار کرتے ہوئے طے شدہ چیزوں کو ایک بار پھر متنازعہ بنا کرعملی اقدامات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس اعتبار سے فیصلہ کی حفاظت اور اس پر عملی اقدامات بڑے چیلنجز ہیں۔
· ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت سے متنوع دائروں میں کام کی ضرورت ہے ۔ ایک اہم میدان قانون سے متعلق ہے۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فیصلے کے حوالہ سے وہ کیا قانونی نکات ہوسکتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر پورے پراسس کو التوا میں ڈا لنے یا کم از کم الجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب مو جودہ فیصلہ کے تسلسل میں کیا ایسے کسی جامع قانون کی تشکیل پر غور کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے حکومتوں کو ہمیشہ کے لیے پابند کر دیا جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک عنوان یہ بھی ہے کہ متعلقہ موضو عات پر بہت سے متفرق قوانین کو یکجا کر کے جامع قوانین میں ڈھالا جائے۔
· قانونی دائرہ میں ایک اور کام یہ ہے کہ فیصلہ کی تنقیح کرتے ہوئے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے جو فیصلہ میں موجود کسی ابہام یا کمزوری کی علامت ہو سکتے ہیں، اور اگر ایسی کوئی چیزیں ہیں تو انھیں کس طرح مو جودہ پیش رفت کو متأثر کیے بغیر قانونی طور پر بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ دوسری جانب فیصلہ پر عملدرآمد کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے مختلف موجودہ قوانین اور ریگو لیٹری میکنزم میں درکار تبدیلیوں کا تعین اور اس کے لیے کوششوں کا اہتمام ہے۔ یہ کام آگے بڑھ کر (proactively) کر نے کی ضرورت ہو گی اور اس میں قانون کے ساتھ ساتھ اقتصادی دائرہ میں سرگرم ماہرین کا اشتراک نا گزیر ہو گا۔
· یہ بات قا بل ِذکر ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران کم و بیش تمام مکا تب ِفکر کی جانب سے موقف کے اظہار میں ہم آہنگی نظر آئی۔ ضروری ہے کہ اس ہم آہنگی کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ زیر بحث مسئلہ کو بنیاد بنا کر اور بھی آگے بڑھایا جائے۔ موجودہ سیاسی تفریق (polarization) میں یہ کام اس لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ فیصلہ اور اس کے بعد حکمت عملی اور اقدامات کسی ایک سیاسی گروہ کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کا عنوان نہ بنیں۔ اس اعتبار سے ایسے طرز ِعمل سے بھی گریز کرنا چاہیے کہ یہ فیصلہ کسی ایک گروہ کی کامیابی قرار دیا جائے۔
· اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسلامی مالیاتی نظام کے حوالہ سے لٹریسی کا عمومی طور پر فقدان ہے۔ دوسری جانب اس کا بھی تعین کرنا ہو گا کہ حکومت کے کس ادارے نے کیا کام کرنا ہے۔
یہ صورتِ حال آگہی اور رائے سازی (advocacy) کی ایک ہمہ گیر مہم کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ عوام کے تمام ہی طبقات ، بالخصوص کاروباری اور تجارتی حلقے، اس حوالہ سے اہم ہیں لیکن پالیسی ساز اور رائے ساز حلقوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد اور اداروں کو ہدف بنانا ہو گا۔
· یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک چھو ٹے سے ادارے میں بھی change Management ایک بڑی ایکسرسائز کا تقاضہ کر تا ہے۔ ملک بھر میں رائج نظام کو اس مرحلہ سے گزارنا فی الواقع ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس اعتبار سے آگہی اور ایڈوکیسی سے جڑا معاملہ متعلقہ اداروں اور افراد کی orientation اور تربیت کا ہے۔ اس کے بغیر کسی چلتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے درکار استعداد حاصل نہیں کی جا سکتی۔
· آگہی اور ایڈوو کیسی کی کسی بھی مہم کا ایک ہدف حکومت پر اس فیصلے کے مطابق پیش رفت کے لیے مثبت دباؤ برقرار رکھنا اور اس کے لیے سہولت کاری ہے۔ کیونکہ آخری مرحلہ میں حکومتی سطح پر کسی بھی اقدام [کرنے یا نہ کرنے ]کے لیے مضبوط سیاسی ارادہ [political will]کی ضرورت ہو تی ہے۔ مضبوط سیاسی ارادہ عوامی دباؤ اور ماہرین کی آمادگی کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
· اسلامی بنکاری کے حوالہ سے اب تک کے تجربات میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ تاہم اس امر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس حوالہ سے بہت سے تحفظات بھی مو جود ہیں۔ ان تحفظات کے تجزیہ کے لیے ماہرین کے اشتراک کے ساتھ علمی وتحقیقی میدان میں غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ نئے نئے پراڈکٹس تیار کیے جائیں اور یہ سلسلہ محض بنکاری کے عمومی میدان تک ہی محدود نہ ہو بلکہ معیشت کے دیگر سیکٹرز – زراعت، مائکر وفنانس، صنعت و تجارت وغیرہ تک وسیع ہو۔ اس ضمن میں ملک کے اندر [اخوت وغیرہ] اور بیرون ملک [ملا ئشیا اور بعض دیگر ممالک میں] جو تجربات ہوئے ہیں ان سے استفادہ کی ضرورت ہو گی۔
· اس بات کو دہرانے اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ سود کا خاتمہ اور اس میں سے بھی بنکاری سے سود کا خاتمہ اسلامی معاشی نظام کا محض ایک چھوٹا سا جزو ہے۔ بنکاری کا معاملہ میں تو یہ پہلو بھی سامنے رہنا چائیے کہ بنیادی طور پر یہ منافع کے حصول کو ہی ہدف بناتی ہے۔ چنانچہ اسلام کے معاشی نظام سے جڑے رفاہی اور فلاحی اہداف اس کا اولین ہدف نہ ہیں اور نہ غالباً ہو سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں جہاں عدالت کے فیصلہ پر مثالی عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے وہیں اصل ہدف یعنی اسلام کے مکمل معاشی نظام کے تقاضوں اور اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہت سے دوسرے دائروں میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین کام زکوٰۃ کے نظام کو مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہے جس کے لیے قرآن مجید میں براہ راست اور متعدد بار تاکید کی گئی ہے۔
سماجی تحفظ کے لیے اس کے علاوہ بھی جو دیگر احکامات ہیں انھیں اجتماعی زندگی کا حصہ کیونکر بنایا جائے اس پر بہت سا کام علمی و تحقیقی ،قانونی اور سیاسی دائروں میں کرنا ہو گا۔ فیصلہ کا پیراگراف ۱۵۵ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
· اس سے بھی آ گے بڑھ کر یہ دہرانا ہو گا کہ اسلامی معاشی نظام کسی جزیرے میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ یہ معاشی نظام اسلام کے مجموعی نظام کا حصہ ہے جو اسلام کے قانونی و عدالتی ، اور تعلیمی ودیگر نظاموں، سیاسی پالیسیوں اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی و اخلاقی رویوں کے سا تھ جڑا ہو ہے۔ جب تک ان تمام پہلو ؤں سے اصلاح نہ ہو گی معاشی دائرہ میں بھی اقدامات کلی طور پر نتیجہ خیز نہ ہو ں گے۔
اس سے جڑا پہلو گورننس کا ہے۔ اچھے سے اچھا قانون اور پالیسی بالآخر ا پنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ تنفیذ کے نتیجہ میں بارآور ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے وطن عزیز میں اس وقت صورت حال کسی طرح بھی مثالی نہیں ہے۔ خود معاشرے کی اخلاقی حالت میں آنے والا بگاڑ اس کی ایک علامت بھی ہے اور اس کا سبب بھی۔ حکومتوں، سیاسی قیادت ، اصلاحی و دینی تنظیموں اور دانشوروں سمیت معاشرے کے ہر طبقہ کو اس میں کردار ادا کرنا ہو گا۔
· اوپر بیان کی گئی ان مشکلات سے قطع نظر شرعی عدالت کے فیصلہ نے سود کے بارے میں یکسوئی پیدا کرتے ہوے ایک نئی space اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایسی space حقیقی جذبہ کے ساتھ کیے جانے والے عملی تجربات سے خود بخود وسیع تر ہوتی جا تی ہے۔ اسی جذ بہ کے ساتھ اس پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہو گی۔
· جہاں تک فیصلہ کے مطابق بنکوں کو پانچ سال کے اندر غیر سودی نظام کی طرف منتقل کرنا ہے اس کے لیے تازہ ترین کامیاب مثال فیصل بینک کی ہے جس نے اتنے ہی عرصہ میں دنیا بھر میں پھیلے اپنے آپریشن کو غیر سودی بنایا ہے۔ اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر یہ پابندی لگا دینی چاہیے کہ آ ئندہ کسی بھی بنک کی کوئی نئی شا خ کنونشنل بنکنگ کی بنیاد پر نہیں کھولی جائے گی۔ دوسری جانب موجودہ شاخوں کو غیر سودی بنیادوں پر منتقل کرنے کے لیے سالانہ اور ششماہی اہداف مقرر کر دیے جائیں۔
· پارلیمنٹ کو دستوری طور پر یہ مو قع حاصل ہے کہ وہ مختلف مو ضوعات پر حکومتی کارکردگی پر نظر رکھے ۔ درحقیقت یہ اس کی اہم ترین ذمہ دار یوں کا حصہ ہے۔ اس پس منظر میں پارلیمنٹ اور اس کے تمام ارکان کا یہ فرض ہے کہ سود کے خاتمہ کے حوالہ سے اس فیصلہ کے مطابق حکومتی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ اور اس پر بحث کو یقینی بنائیں۔
[i] PLD 1992 FSC 1
[ii] PLD 2000 SC 225
[iii] PLD 2002 SC 801
[iv] اس مشاورت کے شرکاء میں سابق سیکرٹری خزانہ اور اقتصادی امور پر وزیراعظم کے سابق معاونِ خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود، اسلامی ترقیاتی بینک کے ڈاکٹر سلمان سید علی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد ایوب، پلاننگ کمیشن کے جوائنٹ چیف اکنامسٹ ظفر الحسن الماس، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر طاہر منصوری، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر عتیق الظفر خان، میزان بینک کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ فرحان الحق عثمانی، پاک قطر فیملی تکافل کے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عظیم پیرانی، تنظیمِ اسلامی پاکستان کے رہنما حافظ ڈاکٹر عاطف وحید، ربا کے خلاف مقدمے میں جماعتِ اسلامی کے وکلاء کی ٹیم میں شامل سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ، قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس کے ڈاکٹر انور شاہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ڈاکٹر غزالہ غالب، ماہرِ قانون امینہ سہیل، چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ قانت خلیل، مالیاتی قوانین کے ماہر عمران شفیق ایڈووکیٹ، ترکی میں اقتصادی امور سے متعلق تنظیم کے احسن شفیق، اور دیگر نے شرکت کی۔ مشاورتی نشست کی صدارت انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چئیرمین خالد رحمٰن نے کی۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ: پس منظر ، تعارف اور کرنے کے کام
دستورِ پاکستان کی دفعہ ۳۸-ایف کے مطابق ریاستِ پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ربا یعنی سود کے خاتمے کا جلد از جلد اہتمام کرے۔ ۱۹۸۰ء میں جب وفاقی شرعی عدالت کو دستوری حکمنامے کے ذریعے تشکیل دیا گیا تو دس سال کے لیے معاشی قوانین کو اس کے دائرہ کار سے خارج رکھا گیا۔ یہ پابندی جیسے ہی ختم ہوئی تو ملک میں جاری سودی نظام کے خاتمے کے لیے وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ معزز عدالت نے سود کو اسلامی تعلیمات اور مذکورہ دستوری تقاضے کے منافی اور ممنوع قرار دیا۔[i]
سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ نے ۱۹۹۹ء میں اس فیصلے کی توثیق کی۔ [ii] تاہم اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے ۲۰۰۲ میں اس معاملے کو وفاقی شرعی عدالت کی طرف واپس بھیجا۔[iii] ۲۸ اپریل ۲۰۲۲ بمطابق ۲۶ رمضان ۱۴۴۳ھ کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا، جسے ملک کے تمام طبقات نے نہایت اہم قرار دیا۔ اس اہم فیصلے، اس کے ممکنہ اثرات اور آئندہ لائحہ عمل پر غور کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ۲۹ اپریل کو ایک مشاورت کا اہتمام کیا۔[iv] ذیل میں فیصلے کا اجمالی تعارف اور مشاورت میں پیش کردہ تجاویز کو مختصر نکات کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
· ۲۸اپریل ۲۰۲۲ کو وفاقی شرعی عدالت نے سود [عربی: ربا۔ انگریزی: interest] کے بارے میں گزشتہ دو دہائیوں سے زیرسماعت مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔۳۱۸ صفحات پر مبنی اس دستاویز کے پہلے ۴۷ صفحات میں ان تمام ۸۶ مقدمات کی معلومات دی گئی ہیں جنہیں اس مقدمہ میں یکجا کر لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درخواست دہندگان اور ان کے وکلا اور عدالتی معاونین کی تفصیلات بھی اس کا حصہ ہیں۔
· صفحہ۴۸ پر عدالت میں ہونے والی سماعتوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ اس کے مطابق مقدمہ کی سماعت ۵۸ مختلف تاریخوں میں ہوتی رہی۔ پہلی سماعت ۳ جون ۲۰۱۳ کو ہوئی جبکہ آخری سماعت ۱۲ اپریل ۲۰۲۲ کو ہوئی۔
· فیصلہ سنانے والے تین رکنی بینچ کے ارکان میں جسٹس نور محمد مسکان زئی [چیف جسٹس]، جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین شامل تھے۔ فیصلہ جسٹس سید ڈاکٹر محمد انور نے تحریر کیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نور محمد مسکان زئی نے ایک اضافی نوٹ تحریر کیا ہے ۔
مقدمہ کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ :
· فیڈرل شریعت کورٹ نے ۱۴نومبر ۱۹۹۱ کو سود کے خاتمہ کے لیے فیصلہ سنایا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ کو فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کی توثیق کی۔
· وفاقی شرعی عدالت کے نومبر ۱۹۹۱ کے فیصلہ اور بعدازاں شریعت بنچ کے دسمبر ۱۹۹۹ کے فیصلہ میں دوٹوک طورپر کہاگیا تھا کہ ربا اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہے۔ساتھ ہی ان [۸] قوانین کی نشاندہی کی گئی تھی جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اوار حکم دیا گیا تھا کہ یہ قوانین ۳۱ مارچ ۲۰۰۰ تک ختم کر دیے جائیں [حالیہ فیصلے کاپیرگراف ۲]۔
· اس کے ساتھ ہی ۱۷ ایسے قوانین کی فہرست دے کر انہیں بھی ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا جو سود سے متعلق ہیں اور جو قرآنی اصطلاح ربا کی تعریف میں آتے ہیں۔ [پیراگراف ۳]
· شریعت اپیلٹ بینچ نے اس کے ساتھ ہی اپنے ۱۹۹۹ ء کے فیصلہ میں ۳جامع نکات کی روشنی میں واضح کیا تھا کہ قرض کی کوئی بھی صورت ہو اگر کسی معاہدہ میں اصل زر سے زائد رقم لی جائے گی تو وہ ‘ربا’ کی تعریف میں شامل ہے اور یوں ممنوع ہے۔ [پیراگراف۴] نیز دستورِ پاکستان کی پاسداری میں حکومت کو وہ تمام اقدامات کرنے چاہییں جو معیشت کو بلاسود بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو اپنے معاشی نظم کو بہتر بنانے اور کچھ نئے قوانین اور اداروں کی تشکیل کی تجاویز بھی دی گئی تھیں [پیراگراف ۵اور ۶] تاکہ مالیاتی نظام [بشمول بین الحکومتی معاملات اور اسٹیٹ بنک کے ساتھ معاملات] کو شریعت کے مطا بق اپنایا جاسکے۔
· اس دوران ۲۰۰۰ میں یو بی ایل کی جانب سے فیصلہ جس پر نظرثانی کی اپیل شریعت اپیلٹ بینچ میں داخل کی گئی۔ جس پر شریعت اپیلٹ بینچ نے ۲۴ جون ۲۰۰۲ کو فیصلہ سنایا، جس کے ذریعے سابقہ فیصلہ کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے فیڈرل شریعت کورٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ مقدمہ پر ازسر نو غور کرے اور بعض متعین کردہ اور دیگر متعلقہ امور کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے کا ازسرِ نو جائزہ لے کر فیصلہ (redetermination)کرے [پیراگراف۸]۔
___________________________
فیصلہ کے مشتملات
· پس منظر کے بیان کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے بجاطورپراس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس فیصلہ میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔ تاہم اس تاخیر کی وجوہات کو نظرانداز کرتے ہوئے معزز عدالت نے ایک نہایت اہم اور مثبت پہلو کی نشاندہی کی ہے اور وہ یہ کہ اس بیس سال کے دوران مالیاتی اور بنکنگ نظام میں ہونے والی بہت سی پیش رفت نےان بہت سے سوالات اور نکات کو غیر اہم بلکہ بڑی حدتک غیرمتعلق بنا دیا ہے جو ۱۹۹۱ کے فیصلہ اور شریعت اپیلٹ بینچ ۱۹۹۹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرتے ہوئے اٹھائے گئے تھے۔ دوسری جانب شرعی عدالت اور شرعی ایپیلٹ بنچ کے فیصلوں میں دی گئی راہنمائی سے عملی میدان میں مالیاتی نظام کی غیرسودی بنیادوں پر منتقلی میں مدد ملی ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۰ کے مقابلہ میں آج اسلامی بنکاری ایک حقیقت ہے اور پاکستان اور مسلم دنیا میں ہی نہیں غیر مسلم دنیا میں بھی اس کے تجربات عام ہیں ۔ خود اسٹیٹ بنک آف پاکستان شریعہ بورڈ کی راہنمائی میں اسلامی بنکاری کے حوالہ سے ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ [پیراگراف۹]
· اس کے ساتھ موجودہ فیصلہ میں ماضی کے دونوں فیصلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ایک نہایت وقیع علمی اور قانونی دستاویز قرار دیا گیا ہے اور نشاندہی کی ہے کہ ان فیصلوں کی پاکستان میں ہی نہیں پاکستان سے باہر بھی تحسین کی گئی[اور اس کے نتیجہ میں علمی مباحث اور اطلاق کے میدان میں نئی پیش رفت کے مواقع میسر آئے۔[پیراگراف۹]
· اس مجموعی تناظر میں فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نظرثانی کی درخواست میں جو سوالات اٹھائے گئے ان کا ایک بڑا حصہ تو ان نکات اور دلائل پر مشتمل ہے جو اس سے قبل بھی ۱۹۹۱ اور ۱۹۹۹ میں مقدمات کی سماعت کے دوران اٹھائے گئے تھے یا زبان وبیان کے بہت معمولی فرق کے ساتھ اب دوبارہ اٹھائے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشتر پر سابقہ فیصلوں میں جامع انداز میں بحث کی جاچکی ہے۔ فیصلہ میں اس نوعیت کے سوالات کی چھ مثالیں بھی دی گئی ہیں۔ [پیراگراف۹]
· فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ بعض انفرادی آراء سے قطع نظر مسلم امہ میں بالعموم ربا کے بارے میں قرآن وحدیث کی تعلیمات پر اتفاق رائے موجود رہا ہے۔ اور یہ اتفاق رائے کسی خاص دور یا علاقے تک محدود نہیں ہے۔ اس ضمن میں قرآن کی آیت[آل عمران: ۱۳۰]کی مثال دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ صرف اس ایک نکتہ کے ضمن میں ہم نے ۱۰۰ سے زائد تفاسیر کا جائزہ لیا ہے۔ [پیراگراف۱۰] فیصلہ میں مختلف ادوار، زبانوں ، علاقوں اور مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی ان ۱۰۰ سےزائد تفاسیروں کی فہرست بھی دی گی ہے۔
· اعتراضات اور سوالات کی دوسری نوعیت ان خدشات پر مشتمل تھی کہ مثلاً غیرسودی اسلامی بنکاری کے لیے تجویز کردہ نظام نا قابل ِعمل ہے اور اس کے اطلاق کی صورت میں بنکاری کا پورا نظام بیٹھ جائے گا وغیرہ۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی بنکا ری اور مالیاتی سیکٹر میں ہونے والی پیش رفت نے ایسے اعتراضات کو غیرمتعلق بنا دیا ہے۔ [پیراگراف۱۰]
· سوالات کی تیسری نوعیت ان اعتراضات پر مشتمل تھی جن کی بنیاد ان اسکالرز کی آراء پر مبنی تھیں جن کو امت کی مجموعی فکر کے مقابلہ میں استثناء قرار دیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب درخواست کنندگان نے [۱۹۹۱ اور ۱۹۹۹ میں] ان اسکالرز کی بھی اصل تحریریں عدالت میں پیش نہیں کی تھیں بلکہ انہیں پیش کرتے ہوئے ثانوی ماخذ سے استفادہ کیا گیا تھاجو اکثر صورتوں میں متعلقہ اسکالرز کی رائے سے زیادہ لکھنے والے کی ذاتی رائے پر مبنی ہوتی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ ہماری جانب سے کہنے کے باوجود اس بار بھی اصل تحریریں عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئیں۔ [پیراگراف ۱۱]
دوسری جانب عدالت نے تبصرہ کیا کہ ان ذاتی آراء کی اہمیت بھی اب دنیا بھر میں اسلامی بنکاری کے عملی تجربات نے بہت کم یا ختم ہی کردی ہے۔
· بعض سوالات ایسے تھے جو اگرچہ شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے مقدمہ ازسرِ نو جائزے (re-determination) کے لیے بھیجتے ہوئے اٹھائے گئے تھے لیکن سماعت کے دوران خود درخواست دہندگان کی جانب سے ان پر گفتگو کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ [پیراگراف ۱۱ ]
· سوالات کی پانچویں قسم وہ تھی جو پہلی بار اٹھائے گئے تھے اور عدالت نے ان پر تفصیل سے غور کیا ہے۔ جبکہ سوالات کی چھٹی قسم وہ تھی جس میں شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے نظرثانی کے لیے اپنے حکم میں کچھ اسکالرز کے ناموں کاذ کر کرتے ہوئے ان کی آراء کو سامنے رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ بالعموم یہ وہی اسکالرز ہیں جن کی آراء استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ درخواست دہندگان کی جانب سے ان اسکالرز کی کوئی مخصوص تحریروں کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی۔ فیصلہ کے مطابق درخواست دہندگان کو ایک بار پھر موقع دیا گیا کہ وہ اس ضمن میں باقاعدہ [اصل مآخذ اور ان کے] حوالوں کے ساتھ لوازمہ فراہم کردیں۔ تاہم ایسی کوئی چیز عدالت کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس نیشنل بنک نے اپنے جواب میں اسلامی بنکاری کے حوالہ سے اپنی پیش رفت بتائی جو اس کی علامت تھی کہ خود بنک کے اپنے سابقہ موقف میں بہت تبدیلی آچکی ہے۔
· البتہ اسی سوال کے جواب میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے سات مختلف اسکالرز کے حوالہ سے کچھ تفصیلات فراہم کیں۔ تاہم ان میں سے بیشتر بھی اصل مآخذ پر مبنی نہیں تھیں۔ [اس سلسلہ میں بعض دلچسپ مثالیں بھی فیصلہ کے پیراگراف میں دی گئی ہیں]۔اسی ضمن میں عدالت نے اسٹیٹ بنک پر یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اپنے دلائل کے مقابلہ میں اسلامی بنکاری میں اپنے عملی کردار سے وہ خود اپنے موقف کی تردید کر رہا ہے۔ [پیراگراف ۱۴]
· فیصلہ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے باوجود عدالت نے اپنے طورپر ان اسکالرز کی آراء کا جائزہ لیا ہے۔ عدالت نے انہیں ۴نکات کی صورت میں متعین کیا ہے اور اپنے فیصلہ میں ان نکات کا احاطہ کیا ہے۔ [پیراگراف ۱۲]
· پیراگراف ۱۵ میں عدالت نے ان چالیس سے زیادہ قانون دانوں، علماء، ماہرین اور پروفیشنلز کی فہرست دی ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے کسی بھی شکل میں عدالتی بحث میں معاونت کی ہے۔
___________________________________
تصفیہ طلب سوالات کا تعین
· پس منظر کے تفصیلی بیان اور اس پر تبصرہ کے بعد عدالت نے ان ۱۲ سوالات کا ذکر ہے جنہیں پیشِ نظر امور کے تصفیہ کے لیے عدالت نے اپنے لیے متعین کیا تھا۔ یہ ۱۲سوالات فیصلہ کے صفحہ ۸۰تا ۸۲ [پیراگراف۱۶] میں درج ہیں۔
– پہلا سوال فیڈرل شریعت کورٹ کے دائرہ کار (jurisdiction) سے متعلق ہے۔
– اگلے ۴سوالات میں ربا کی تعریف اور پھر اس تعریف کی روشنی میں بحث کی گئی ہے کہ کیا ربا کمپاونڈ انٹرسٹ ، بہت زیادہ شرح سود کے ساتھ قرض اور محض ذاتی مقاصد کے قرضوں ہی سے متعلق ہے۔
– چھٹا اور ساتواں سوال اسلامی بنکاری ماڈل کے موجودہ حالات میں قابل عمل ہونے اور دنیا بھر میں اس کے اس وقت آپریشن کے جائزہ سے متعلق ہے۔
– آٹھواں سوال تجارتی مقاصد کے قرضوں کی حیثیت اور نواں سوال افراط زر اور انڈیکسیشن کے حوالہ سے بحث کرتا ہے۔
– دسویں سوال میں بنک کے قرضوں پر سود ادا کرنے اور بنک کی جانب سے کھاتے داروں (depositors) کو سود ادا کرنے میں کسی فرق پر بحث کی گئی ہے۔
– گیارہواں سوال سود کے حوالہ سے پاکستان کی بین الاقوامی معاہدات کے تحت ذمہ داریوں سے متعلق ہے کہ فیصلہ کے بعد ان ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآ ہوا جائے۔
– بارہوں سوال اس بات سے بحث کرتا ہے کہ کیا فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے کسی وقت اور مدت کا تعین کیا جانا چاہیے۔ [پیراگراف ۱۶]
· مذکورہ بالا تمام سوالات پر تفصیلی بحث کی گئی ہے جو [پیراگراف ۱۷ تا ۱۳۶ یعنی صفحہ۲ ۸ سے لے کر ۲۶۰ تک] ۱۷۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ ہر ایک سوال پر علمی اور قانونی دونوں پہلوؤں سے اس بحث میں نہایت اہم نکات واضح ہوگئے ہیں۔
· فیصلہ کا پیراگراف ۱۵۵ مجموعی طورپر اسلام اور اس کے اقتصادی نظام کے اہداف اور اس پورے دائرہ کار کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ضروری اقدامات کے بغیر اس نظام کی برکات سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالہ سے یہ یاددہانی ہوتی ہے کہ بنکاری سے سود کاخاتمہ محض ایک قدم ہے۔ اسلامی نظم معیشت کو کلی طور پر اختیار کرنے کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے دائروں میں متعدد اقدامات ضروری ہیں۔
· آئندہ پیراگرافوں میں فیصلہ کے دیگر نکات ہیں۔ یہ پیراگراف حسب ذیل مو ضو عات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ۱۵۶ [ربا کا قرآن وسنت سے متصادم ہونا]، ۱۵۷ [حکومتی قرضوں پر سود بھی ‘ربا ‘ہے اور حرام ہے]، ۱۵۹ [تمام قوانین جن میں ‘انٹرسٹ’ کاذکر آیا ہے ان میں اسے حذف کیا جائے]، ۱۶۱ [۲۰سے زائدان قوانین پر ،جوزیر بحث درخواستوں کا حصہ تھے اور یا خصوصی طورپر زیر بحث آئے تھے ،فرداً فرداً رولنگ ۔ ان میں سے بعض کو مکمل طورپر اور چند میں جزوی طورپر تبدیلیوں کے لیے ہدایت کی گئی ہے۔
· پیراگراف ۱۶۳ میں مکمل طورپر معیشت غیرسودی بنانے کے لیے معیشت سے سود کے مکمل خاتمہ کے لیے ٹائم فریم کے طور پانچ سال کی مدت طے کی گئی اور اس کے لیے ۳۱دسمبر ۲۰۲۷ کی تاریخ کا تعین کر دیا گیا ہے۔
· پیراگراف ۱۶۴ میں دستور کے آرٹیکل [۳] ۲۹ کی روشنی میں اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہر سال ایک رپورٹ پیش کرے گی جس میں سود کے مکمل خاتمہ کی طرف پیش رفت بیان کی جائے گی۔
· آخری کم وبیش ۲۰ صفحات میں چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار کے حوالہ سے تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔
___________________________
آئندہ کام کے لیے ایجنڈا:
· وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کو بجا طور پر تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے۔ بالخصوص دینی طبقات میں بلا تفریق ِمسلک اس کی تحسین کی گئی ہے۔ سابقہ فیصلوں کو اور آگے بڑھاتے ہوئے اس فیصلے میں ربا کی تعریف اور اس کی حیثیت کو علمی اور قانونی دلائل کے ساتھ دو ٹوک طور پر متعین کر دیا گیا ہے۔ یو ں عدالت نے اپنا کام کر دیا ہے۔ مجوّزہ نظام کی تفصیلات اور عملدرآمد کی حکمت ِ عملی کا کام اب دیگر افراد ، اداروںاور سب سے بڑھ کر حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
· مقامی اور عالمی سیاسی اور اقتصادی منظرنامہ کو پیش ِنظر رکھا جا ئے تو یہ خدشہ بے جا نہِیں ہے کہ رائج مالیاتی نظام سے فوائد اٹھانے والے مفاد پرست عناصر کی جانب خاموش نہ رہیں گے۔ ان کی جانب سے مختلف حربے اختیار کرتے ہوئے طے شدہ چیزوں کو ایک بار پھر متنازعہ بنا کرعملی اقدامات کو التوا میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس اعتبار سے فیصلہ کی حفاظت اور اس پر عملی اقدامات بڑے چیلنجز ہیں۔
· ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بہت سے متنوع دائروں میں کام کی ضرورت ہے ۔ ایک اہم میدان قانون سے متعلق ہے۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فیصلے کے حوالہ سے وہ کیا قانونی نکات ہوسکتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر پورے پراسس کو التوا میں ڈا لنے یا کم از کم الجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب مو جودہ فیصلہ کے تسلسل میں کیا ایسے کسی جامع قانون کی تشکیل پر غور کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے حکومتوں کو ہمیشہ کے لیے پابند کر دیا جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک عنوان یہ بھی ہے کہ متعلقہ موضو عات پر بہت سے متفرق قوانین کو یکجا کر کے جامع قوانین میں ڈھالا جائے۔
· قانونی دائرہ میں ایک اور کام یہ ہے کہ فیصلہ کی تنقیح کرتے ہوئے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے جو فیصلہ میں موجود کسی ابہام یا کمزوری کی علامت ہو سکتے ہیں، اور اگر ایسی کوئی چیزیں ہیں تو انھیں کس طرح مو جودہ پیش رفت کو متأثر کیے بغیر قانونی طور پر بہتر بنایا جا سکتا ہے ۔ دوسری جانب فیصلہ پر عملدرآمد کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے مختلف موجودہ قوانین اور ریگو لیٹری میکنزم میں درکار تبدیلیوں کا تعین اور اس کے لیے کوششوں کا اہتمام ہے۔ یہ کام آگے بڑھ کر (proactively) کر نے کی ضرورت ہو گی اور اس میں قانون کے ساتھ ساتھ اقتصادی دائرہ میں سرگرم ماہرین کا اشتراک نا گزیر ہو گا۔
· یہ بات قا بل ِذکر ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران کم و بیش تمام مکا تب ِفکر کی جانب سے موقف کے اظہار میں ہم آہنگی نظر آئی۔ ضروری ہے کہ اس ہم آہنگی کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ زیر بحث مسئلہ کو بنیاد بنا کر اور بھی آگے بڑھایا جائے۔ موجودہ سیاسی تفریق (polarization) میں یہ کام اس لیے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ فیصلہ اور اس کے بعد حکمت عملی اور اقدامات کسی ایک سیاسی گروہ کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کا عنوان نہ بنیں۔ اس اعتبار سے ایسے طرز ِعمل سے بھی گریز کرنا چاہیے کہ یہ فیصلہ کسی ایک گروہ کی کامیابی قرار دیا جائے۔
· اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ اسلامی مالیاتی نظام کے حوالہ سے لٹریسی کا عمومی طور پر فقدان ہے۔ دوسری جانب اس کا بھی تعین کرنا ہو گا کہ حکومت کے کس ادارے نے کیا کام کرنا ہے۔
یہ صورتِ حال آگہی اور رائے سازی (advocacy) کی ایک ہمہ گیر مہم کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ عوام کے تمام ہی طبقات ، بالخصوص کاروباری اور تجارتی حلقے، اس حوالہ سے اہم ہیں لیکن پالیسی ساز اور رائے ساز حلقوں کی خصوصی اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مالیاتی شعبے سے وابستہ افراد اور اداروں کو ہدف بنانا ہو گا۔
· یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک چھو ٹے سے ادارے میں بھی change Management ایک بڑی ایکسرسائز کا تقاضہ کر تا ہے۔ ملک بھر میں رائج نظام کو اس مرحلہ سے گزارنا فی الواقع ایک بہت بڑا کام ہے۔ اس اعتبار سے آگہی اور ایڈوکیسی سے جڑا معاملہ متعلقہ اداروں اور افراد کی orientation اور تربیت کا ہے۔ اس کے بغیر کسی چلتے ہوئے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے درکار استعداد حاصل نہیں کی جا سکتی۔
· آگہی اور ایڈوو کیسی کی کسی بھی مہم کا ایک ہدف حکومت پر اس فیصلے کے مطابق پیش رفت کے لیے مثبت دباؤ برقرار رکھنا اور اس کے لیے سہولت کاری ہے۔ کیونکہ آخری مرحلہ میں حکومتی سطح پر کسی بھی اقدام [کرنے یا نہ کرنے ]کے لیے مضبوط سیاسی ارادہ [political will]کی ضرورت ہو تی ہے۔ مضبوط سیاسی ارادہ عوامی دباؤ اور ماہرین کی آمادگی کے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔
· اسلامی بنکاری کے حوالہ سے اب تک کے تجربات میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ تاہم اس امر کو تسلیم کرنا چاہیے کہ اس حوالہ سے بہت سے تحفظات بھی مو جود ہیں۔ ان تحفظات کے تجزیہ کے لیے ماہرین کے اشتراک کے ساتھ علمی وتحقیقی میدان میں غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہو گی۔ نئے نئے پراڈکٹس تیار کیے جائیں اور یہ سلسلہ محض بنکاری کے عمومی میدان تک ہی محدود نہ ہو بلکہ معیشت کے دیگر سیکٹرز – زراعت، مائکر وفنانس، صنعت و تجارت وغیرہ تک وسیع ہو۔ اس ضمن میں ملک کے اندر [اخوت وغیرہ] اور بیرون ملک [ملا ئشیا اور بعض دیگر ممالک میں] جو تجربات ہوئے ہیں ان سے استفادہ کی ضرورت ہو گی۔
· اس بات کو دہرانے اور بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ سود کا خاتمہ اور اس میں سے بھی بنکاری سے سود کا خاتمہ اسلامی معاشی نظام کا محض ایک چھوٹا سا جزو ہے۔ بنکاری کا معاملہ میں تو یہ پہلو بھی سامنے رہنا چائیے کہ بنیادی طور پر یہ منافع کے حصول کو ہی ہدف بناتی ہے۔ چنانچہ اسلام کے معاشی نظام سے جڑے رفاہی اور فلاحی اہداف اس کا اولین ہدف نہ ہیں اور نہ غالباً ہو سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں جہاں عدالت کے فیصلہ پر مثالی عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے وہیں اصل ہدف یعنی اسلام کے مکمل معاشی نظام کے تقاضوں اور اہداف کو پورا کرنے کے لیے بہت سے دوسرے دائروں میں اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین کام زکوٰۃ کے نظام کو مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہے جس کے لیے قرآن مجید میں براہ راست اور متعدد بار تاکید کی گئی ہے۔
سماجی تحفظ کے لیے اس کے علاوہ بھی جو دیگر احکامات ہیں انھیں اجتماعی زندگی کا حصہ کیونکر بنایا جائے اس پر بہت سا کام علمی و تحقیقی ،قانونی اور سیاسی دائروں میں کرنا ہو گا۔ فیصلہ کا پیراگراف ۱۵۵ اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
· اس سے بھی آ گے بڑھ کر یہ دہرانا ہو گا کہ اسلامی معاشی نظام کسی جزیرے میں نافذ نہیں ہو سکتا۔ یہ معاشی نظام اسلام کے مجموعی نظام کا حصہ ہے جو اسلام کے قانونی و عدالتی ، اور تعلیمی ودیگر نظاموں، سیاسی پالیسیوں اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی و اخلاقی رویوں کے سا تھ جڑا ہو ہے۔ جب تک ان تمام پہلو ؤں سے اصلاح نہ ہو گی معاشی دائرہ میں بھی اقدامات کلی طور پر نتیجہ خیز نہ ہو ں گے۔
اس سے جڑا پہلو گورننس کا ہے۔ اچھے سے اچھا قانون اور پالیسی بالآخر ا پنی صحیح اسپرٹ کے ساتھ تنفیذ کے نتیجہ میں بارآور ہوتی ہے۔ اس حوالہ سے وطن عزیز میں اس وقت صورت حال کسی طرح بھی مثالی نہیں ہے۔ خود معاشرے کی اخلاقی حالت میں آنے والا بگاڑ اس کی ایک علامت بھی ہے اور اس کا سبب بھی۔ حکومتوں، سیاسی قیادت ، اصلاحی و دینی تنظیموں اور دانشوروں سمیت معاشرے کے ہر طبقہ کو اس میں کردار ادا کرنا ہو گا۔
· اوپر بیان کی گئی ان مشکلات سے قطع نظر شرعی عدالت کے فیصلہ نے سود کے بارے میں یکسوئی پیدا کرتے ہوے ایک نئی space اور موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایسی space حقیقی جذبہ کے ساتھ کیے جانے والے عملی تجربات سے خود بخود وسیع تر ہوتی جا تی ہے۔ اسی جذ بہ کے ساتھ اس پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہو گی۔
· جہاں تک فیصلہ کے مطابق بنکوں کو پانچ سال کے اندر غیر سودی نظام کی طرف منتقل کرنا ہے اس کے لیے تازہ ترین کامیاب مثال فیصل بینک کی ہے جس نے اتنے ہی عرصہ میں دنیا بھر میں پھیلے اپنے آپریشن کو غیر سودی بنایا ہے۔ اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر یہ پابندی لگا دینی چاہیے کہ آ ئندہ کسی بھی بنک کی کوئی نئی شا خ کنونشنل بنکنگ کی بنیاد پر نہیں کھولی جائے گی۔ دوسری جانب موجودہ شاخوں کو غیر سودی بنیادوں پر منتقل کرنے کے لیے سالانہ اور ششماہی اہداف مقرر کر دیے جائیں۔
· پارلیمنٹ کو دستوری طور پر یہ مو قع حاصل ہے کہ وہ مختلف مو ضوعات پر حکومتی کارکردگی پر نظر رکھے ۔ درحقیقت یہ اس کی اہم ترین ذمہ دار یوں کا حصہ ہے۔ اس پس منظر میں پارلیمنٹ اور اس کے تمام ارکان کا یہ فرض ہے کہ سود کے خاتمہ کے حوالہ سے اس فیصلہ کے مطابق حکومتی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ اور اس پر بحث کو یقینی بنائیں۔
[i] PLD 1992 FSC 1
[ii] PLD 2000 SC 225
[iii] PLD 2002 SC 801
[iv] اس مشاورت کے شرکاء میں سابق سیکرٹری خزانہ اور اقتصادی امور پر وزیراعظم کے سابق معاونِ خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود، اسلامی ترقیاتی بینک کے ڈاکٹر سلمان سید علی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد ایوب، پلاننگ کمیشن کے جوائنٹ چیف اکنامسٹ ظفر الحسن الماس، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر طاہر منصوری، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر عتیق الظفر خان، میزان بینک کے ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ فرحان الحق عثمانی، پاک قطر فیملی تکافل کے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عظیم پیرانی، تنظیمِ اسلامی پاکستان کے رہنما حافظ ڈاکٹر عاطف وحید، ربا کے خلاف مقدمے میں جماعتِ اسلامی کے وکلاء کی ٹیم میں شامل سیف اللہ گوندل ایڈووکیٹ، قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس کے ڈاکٹر انور شاہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی ڈاکٹر غزالہ غالب، ماہرِ قانون امینہ سہیل، چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ قانت خلیل، مالیاتی قوانین کے ماہر عمران شفیق ایڈووکیٹ، ترکی میں اقتصادی امور سے متعلق تنظیم کے احسن شفیق، اور دیگر نے شرکت کی۔ مشاورتی نشست کی صدارت انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چئیرمین خالد رحمٰن نے کی۔
جواب دیں