پاکستان اور چوتھا صنعتی انقلاب : ایک ابتدائ منظر نامہ
چوتھےصنعتی انقلاب کے اثرات عالمی سطح پر تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ یہ اثرات ترقی یافتہ معیشتوں میں زیادہ شدید ہیں مگرترقی پذیر دنیا میں بھی تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بلاگ پاکستان میں ٹیکنالوجی کی ترقی کا جائزہ لیتا ہے اور چوتھے انقلاب کے ممکنہ چیلنجوں اور مواقع کی نشاندہی کرتا ہے۔
چوتھا صنعتی انقلاب اور پاکستان
ابتدائی جائزہ
فصیح الدین
گزشتہ اڑھائی صدیوں میں دنیا نے صنعت کے میدان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اِس صنعتی انقلاب کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسط سے ہوا اوربتدریج بڑھتا رہا۔ بیسویں صدی کے اختتام تک دوسرے اور تیسرے دور سے گزرا اور اب یہ اپنے چوتھے دو ر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ چاروں ادوار پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے صنعتی انقلاب کہلائے جاتے ہیں۔ موجودہ چوتھے صنعتی انقلاب کو محض تیسرے انقلاب کی توسیع ہی نہیں بلکہ بذاتِ خود ایک علیحدہ صنعتی انقلاب تصور کیا جا رہا ہے۔دیگر انقلابوں کی طرح اس انقلاب کے اثرات بھی دنیا بھر پر غالب ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ اور ترقی پذیر ممالک میں نسبتا ًکم۔ اس تحریر کا مقصد پاکستان میں صنعت و ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان اور چوتھے صنعتی انقلاب کے تعلق پر روشنی ڈالناہے۔
پسِ منظر
انسانی تہذیب کے ابتدائی دور سے معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر رہا ہے۔ صنعتی پیداوار افرادی قوت اور ہنر پر منحصر چھوٹی اور گھریلو صنعتوں اور دستکاری تک محدود رہی جب کہ بیل اور گھوڑا گاڑیاں، اُونٹ، گھوڑے، گدھے اور باد بانی کَشتیاں نقل و حمل کا کام سر انجام دیتی رہیں۔ ۱۷۶۰ء میں بھاپ کے انجن کی ایجاد کے بعد یہ منظر بدلنے لگااور یہی پہلے صنعتی انقلاب کی ابتداء تھی۔ اسے کوئلے کی کانوں کی دریافت اور رسد سے سہارا ملا۔ ٹیکسٹائل اور سٹیل کی صنعتوں میں اضافہ ہوا ۔ ریلوے اور بھاپ سے چلنے والے بحری جہازوں نے افراد و اشیاءکی نقل و حرکت میں خاصی سہولت پیدا کردی ۔ پیداوار ی صلاحیتوں کے مراکز انگلستان اور یورپ رہےاور مصنوعات کا بڑا حصہ برآمد کیا جانے لگا۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ صدی (۱۹۰۰-۱۷۶۰) تک جاری رہا۔ پھر دوسرے صنعتی انقلاب (۱۹۰۰ -۰ ۱۹۶) کا آغاز ہوا جس میں تیل اور بجلی کی دریافت اور اِن سے چلنے والے انجن کی ایجاد نے کلیدی کردار اداکیا۔چھوٹے کارخانوں نے بڑی ملوں کی صورت اختیار کرلی اور اسٹیم شپ اور ٹینکر کا دور شروع ہوا۔ بڑے پیمانے پر اشیاء کی پیداوار اور نقل و حمل سے لاگت اور قیمتوں میں کمی آئی اور عالمی تجارت کو فروغ ملا۔ نئی صنعتوں جیسے دھات کاری، موٹرگاڑی اور مشین سازی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد تیسرا صنعتی انقلاب آیا جو تقریبا اگلے چالیس برس (۱۹۶۰-۲۰۰۰) تک جاری رہا۔ اس میں نیوکلیئرتوانائی اور قدرتی گیس طاقت کے اہم ذرائع رہے ۔ نیز کیمیائی مواد، برقی آلات، گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کی صنعتوں نے تیزی سےترقی کی اور کمپیوٹر اور روبوٹکس کی ایجاد ہوئی۔
مختصر یہ کہ پہلے صنعتی انقلاب میں اشیاء کی پیداوار اور نقل و حمل کے لیے کوئلہ/،پانی/ اور اسٹیم انجن کا استعمال کیاگیا۔ دوسرے انقلاب کے دوران بجلی اور تیل کا استعمال شروع ہوا اور تیسرے انقلاب میں برقی آلات اور ٹیلی مواصلات معیشت کے اہم عناصر بن گئے ۔ یوں معاشی اور معاشرتی اساس ، خصوصاً روزگار اور طرزِ زندگی میں نمایاں تبدیلی آئی۔
چوتھا صنعتی انقلاب:
چوتھے انقلاب کو نہ صرف پہلے تین انقلابوں کی توسیع سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ کئی اعتبار سے ان سےممتاز اور منفرد ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے سر براہ کلاز شواب(Klaus Schwab) نے اس حوالے سے درج ذیل نکات پیش کیے ہیں:
- موجودہ انقلاب میں ہونے والی پیش رفت کی رفتار بے مثال ہے؛
- یہ ہر ملک میں تقریباً ہر صنعت کو متاثر کر رہا ہے؛
- ان تبدیلیوں کی وسعت اور گہرائی پیداوار، نظم و نسق اور حکمرانی کے پورے نظام کی تبدیلی کی نوید دیتی ہے۔
انقلاب کی دیگر خصوصیات درج ذیل ہیں :
- اس نےڈیجیٹل اور حیاتیاتی نظام جیسے مختلف شعبوں کو ہم آہنگ کیا ہے؛
- موبائل اور اس سے منسلک آلات کی ایجادات نے عالمی روابط کو آسان کر دیا ہے۔ لوگ اب بآسانی ایک دوسرے سے نجی اور کاروباری، علمی اور معلوماتی رابطے کر سکتے ہیں۔
- اس کے علاوہ یہ انقلاب جدید، منفرد اور اُبھرتے ہوئے علوم اور ٹیکنالوجیز میں کامیابی کا باعث بھی ہے جن میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، آلات کا باہم تعلق (Internet of Things) ، خودکار گاڑیاں، تھری ڈی، نینو ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی، سائنس اور انجینئرنگ کے ملاپ سے اشیاء سازی، توانائی ذخیرہ کرنےکے انتظامات ، اور کوانٹم کمپیوٹنگ کے شعبے شامل ہیں۔
تاہم چوتھا صنعتی انقلاب کچھ مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس کی رفتار، وسعت اور زندگی کے ہر شعبے میں مداخلت،لوگوں کے رہن سہن، کاروبار اور معاملات کو خاصا متاثر کر رہی ہےاور معاشی، سماجی اور اخلاقی تناؤ اور تنازعات کا باعث بھی بن رہا ہے۔ یہ نہ صرف عدم مساوات اور آمدنی میں تفاوت کا باعث ہے بلکہ سماجی تناؤ کو بھی ہوا دے رہا ہے۔ نیز مشین اور کمپیوٹر کے عام استعمال سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا (فیس بک، ٹویٹر وغیرہ) کی سہولت پیغام رسانی، اظہارِ خیال اور روابط کو بہتر بنا رہی ہے مگر اس سے متشدد اور متصادم خیالات اور نظریات کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ دیگر چیلنجز میں سائبر سیکیورٹی، ڈیجیٹل جرائم ، بد کلامی، افوا ہ سازی، فحاشی ا ور غیر اخلاقی اقدار کا بڑھتا ہوا رجحان شامل ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے قومی سطح پر موثر ریگولیٹری فریم ورک اور عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔
پاکستان اورصنعتی انقلاب
صنعتی انقلابات کی ایک قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اگرچہ ان کا آغاز مغرب سے ہوا، لیکن ان کی مصنوعات اور خدمات نے برصغیر پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں تیزی سے رسائی حاصل کر لی۔ مثال کے طور پر بھاپ سے چلنے والی پہلی ریل گاڑی ۱۸۳۰ میں انگلینڈ میں چلی، ایک ابتدائی منصوبے کے طور پرکراچی تا کوٹری ریلوے لائن کی تکمیل ۱۸۵۳ میں ہوئی اور انیسویں صدی کے آخر تک ریلوے کا یہ منصوبہ پورے ہندوستان میں پھیل گیا۔ اسی طرح دوسری ایجادات مثلاً ٹیلی گراف، ٹیلی فون، ریڈیو، بجلی، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر نے بھی ترقی حاصل کی۔یوں ہر انقلاب کے بعد جدید مصنوعات اور خدمات بیک وقت پوری دنیا میں دستیاب ہوتی گئیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ جیسی مصنوعات/سروسز کی اپ گریڈیشن اس قدر تیز ہے کہ پیرس کی اس خاتون کی مثال ذہن میں آتی ہے جو سٹور سے نیا ڈریس خرید کر دوڑتی ہوئی نکلی۔کسی نے جلدی کی وجہ پوچھی تو بولی ”اِس ڈریس کو فوراًپہن لوں ورنہ فیشن بدل جائےگا! “
پاکستان بھی ایسے ہی دور سے گزر رہا ہے۔ تخلیق شدہ مصنوعات/سروسز پاکستانی مارکیٹ میں تیزی سے داخل ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلا سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن ۶۰ کی دہائی کے وسط میں قائم کیا گیا اور پانچ سے چھ سالوں میں اس میں چار ٹیلی ویژن چینلز مزید شامل ہو گئے۔ ۹۰ کی دہائی کے اواخر میں نجی کاروباری مہم اور ڈیجیٹل اور کمیونیکیشنل ترقی کے ساتھ ٹی وی چینلز کی تعدادبھی کئی گنا بڑھ گئی۔
اسی طرح ۶۰کی دہائی میں ڈیٹاپراسیسننگ کے لئے دو کمپیوٹر متعارف کروائے گئے ۔ اب ہزاروں لیپ ٹاپ اور منی کمپیوٹرز کا استعمال عام ہےاور ہر نئے آنے والے کمپیوٹر میں پہلے والےکی نسبت کئی گنا زیادہ فیچرز شامل ہوتے ہیں۔
۹۰ کی دہائی میں ٹیلی کمیونیکیشنز سیکٹر کو کارپوریٹائزکر دیا گیا جس کےبعد غیر ملکی سرمایہ کاری اور تکنیکی ترقی کی مدد سے یہ سروس ملک کے تمام حصوں تک پہنچ گئی۔ مثال کے طور پر ۲۰۲۲ میں موبائل استعمال کرنے والوں کی تعداد ۸۸ فیصد جب کہ انٹرنیٹ کی دستیابی ۵۴ فیصد آبادی تک تھی۔ سمارٹ ڈیوائسز کی دستیابی اور استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موبائل کا کثیر المقصد استعمال لوگوں کے کام کاج، رہن سہن اور بات چیت کے انداز پر گہرا اثر ڈال رہا ہے۔یہ بآسانی رسائی اور کثیر المقصد استعمال کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں تک کہ بچے اور بزرگ شہری بھی اس کےعادی ہو رہے ہیں۔ اعداد و شمار، معلومات اور علم تک آسان رسائی کے لیے انٹرنیٹ سسٹم کی تیسری اور چوتھی جنریشن کو عنقریبپانچویں اور مستقبل قریب میں چھٹی جنریشن میں اپ گریڈ کیا جائے گا۔
سافٹ ویئر کی تیاری، خدمات کی فراہمی اور برآمد میں بے تحاشا گنجائش موجود ہے جس کے لیے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (P@SHA) بنائی گئی۔ یہ ادارہ پاکستان میں سافٹ ویئر کمپنیوں کی ترقی میں معاون ہے۔ اس کے رکن سافٹ ویئر ہاوسز کی تعداد ۳۵۰ سے زیادہ ہےجو بینکنگ، مارکیٹنگ، صحت اور تعلیم جیسے مختلف شعبوں کے لیے سافٹ ویئر بناتے ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنے سافٹ ویئر دوسرے ممالک کو بھی برآمد کرتی ہیں۔ ان سافٹ ویئرز اور صنعتوں کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس وقت پاکستان کے جی ڈی پی کا ۴ء۸ فیصد انہی کا مرہونِ منت ہے۔
اس انقلاب کے جہاں مثبت عناصر ہیں وہیں کچھ مشکلات اور چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے:
- یہ ساری پیش رفت اور ترقی بنیادی طور پر غیر ملکی کمپنیوں کی مارکیٹنگ اور کوششوں کی بدولت ہے۔ ہماری مقامی کمپنیاں محض اشیاء بیچنے، بنیادی خدمات فراہم کرنے اور معمولی مرمت کرنے تک محدود ہیں۔ جس میں ہارڈ ویئر کی اصل پیداوار ابھی شروع ہونا باقی ہے؛
- ۱۹۵۰اور ۱۹۶۰ کی دہائی کے آخر میں تیزی سے ہونے والی صنعتی ترقی برقرار نہ رہ سکی اور ایک اہم تکنیکی خلا کا سبب بنی۔ ہماری صنعتوں کی زیادہ تر توجہ بنیادی پراسیسنگ اور اشیائے خوردونوش جیسے فوڈ پراسیسنگ، پیکیجنگ، ٹیکسٹائل، چینی اور سیمنٹ پر مرکوز رہی ہے ۔ سٹیل، الیکٹریکل انجینئرنگ، بھاری مشینری، دھات کاری، کیمیکلز اور پیٹرو کیمیکل جیسی صنعتیں نظر انداز ہوتی رہی ہیں؛
- ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہےجس میں ابھی تک کاشت کے وہی پرانے طریقے زیرِ استعمال ہیں ۔نیز پیداواری صلاحیت اور تکنیکی معلومات کی بھی کمی ہے ؛
- زراعت اور صنعت کی موجودہ حالت میں خدمات کا شعبہ( جس میں تھوک ، خوردہ تجارت اور ٹرانسپورٹ شامل ہے) پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ ڈالنے کے لحاظ سے سب سے اہم شعبہ بنتا جا رہا ہے۔ ملکی جی ڈی پی ۶۰ فیصد سے زیادہ زراعت پر منحصر ہے۔ مزید برآں وہ کام جن کے لیے مہارت اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے ، فی الحال ملکی معیشت میں بہت کم کردار ادا کررہے ہیں لیکن گزرتےوقت کے ساتھ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔
- سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو تعلیم اور صحت کی اچھی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ صرف ۶۰ فیصد لوگ پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔اس کے باوجود انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے ۔ اسی طرح طریقۂ تدریس میں کئی مسائل ہیں۔ خاص طور پر ریاضی، سائنس اور تکنیکی مضامین کو بہتر طریقے سے نہیں پڑھایا جاتا۔یہی حال صحت کی دیکھ بھال اور سماجی خدمات کا بھی ہے۔
ان مسائل اور تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کے باوجود بڑھتے ہوئے تکنیکی چیلنجز سے بچنا مشکل ہے۔ ہمارے پاس دو صورتیں ہیں۔ یا تو ان تبدیلیوں کو غیر فعال طور پر قبول کر لیں یا ان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں۔ مؤخر الذکر صورت مفید معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں ایک مؤثر حکمت عملی تیار کرنے کے لیے حکومت، تعلیمی اور تحقیقی اداروں، کاروباری اداروں اور صارفین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس حکمت عملی میں درج ذیل اقدامات شامل ہونے چاہئیں:
آگاہی اور ترغیب
پاکستان میں بہت سے لوگ اس وقت ہونے والی تکنیکی تبدیلی سے شعوری طور پر واقف نہیں ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں اس سے متعلق شعور آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے اور وہ اپنے نصاب اور تحقیقی پروگراموں کو اپ گریڈ کر رہے ہیں ۔نیز روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت جیسے نئے شعبے متعارف کروا رہے ہیں۔ آئی ٹی کے میدان میں چند پاکستانی کاروباری ادارے مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ آف تھنگز کے منصوبوں پر معروف غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان شعبوں میں مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تکنیکی تبدیلیوں سے متعلق بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کرنے اور لوگوں کو اس بارے میں مثبت رویہ اپنانے کی ترغیب دینے کے لیے ایک جامع مہم چلائی جائے۔
درست مواقع کا ادراک اور حصول
تکنیکی ترقی تقریباً تمام شعبوں میں ہو رہی ہے اور اس کے فیوژن اور انٹر پلے کے نتیجے میں نئی اور جدید مصنوعات تیزی سے سامنے آ رہی ہیں۔ ماہرین نے ان نمایاں شعبوں کی نشاندہی کی ہے جن پر مستقبل کی کامیابی اور ترقی کا دارومدار ہے۔ جیسا کہ حصہ اول میں ذکر ہوا،ان میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، آلات کا باہم ربط اور تھری ڈی وغیرشامل ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک ادارہ جاتی میکانزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جہاں تمام متعلقہ شعبوں اور اداروں، خواہ اُن کا تعلق تعلیمی دنیا سے ہو یا تحقیقی، نجی ہوں یا سرکاری، کو چاہیے کہ پاکستان کے مفاد کو ملحوظ رکھیں اور وطنِ عزیز کی ترقی کے لیے کوشاں رہیں۔
تعلیم و تربیت اور سکل ڈیویلپمنٹ
یہ اہم ترین شعبوں میں سے ایک ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے متعلق ایک لائف سائیکل اپروچ اپنائی جا سکتی ہے۔ پہلے دو سال (پری اسکول پیریڈ) بچے کی صحت، غذائیت، صفائی ستھرائی اور بنیادی چیزیں سیکھنے کے لیے مختص کیے جانے چاہئیں۔ بعد کے سالوں میں بچے کو ICT (انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) کے ساتھ ساتھ ریاضی اور سائنس کے مضامین پڑھائے جانے چاہئیں۔ یوںسیکنڈری کے بعد طالب علم کے پاس اتنی تعلیم اور مہارت ہو گی کہ وہ بآسانی کسی بھی شعبے کا انتخاب یا اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے گا۔ ملکی تعلیم کے نظام اورمعیار کو بہتر بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں اور عالمی تکنیکی ترقی کے مطابق وقتاً فوقتاً نصاب کا جائزہ لینے اور اپ ڈیٹ کرنے کا باقاعدہ نظام متعارف کروایا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ و ہ افرادی قوت پہلے مواقعوں سے محروم رہ گئی یا تکنیکی تبدیلیوں یا ایجادات کی وجہ سے بے روزگاری کا سامنا کر رہی ہے، اُن کی انفرادی ضروریات اور صلاحیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہیں مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔
کمپیوٹر سائنس اور دیگر تکنیکی مضامین کے لیے مسلسل تعلیمی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ملک میں کل ۱۸۶ سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ہیں جن میں ۱ء۶ ملین طلبہ ( بشمول ۴۴٪ خواتین) زیرِ تعلیم ہیں۔ کمپیوٹر سائنس میں گریجویٹس کا سالانہ ٹرن آؤٹ کا تخمینہ ۲۵,۰۰۰ ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے عالمی بینک کی مدد (۴۰۰ ملین ڈالر) سے پانچ سالہ ہیومن ڈیویلپمنٹ پروگرام کا انعقاد کیا ہے جس کا بنیادی مقصد یونیورسٹیوں کی تدریس، تحقیق اور نظام کو بہتر بنانا ہے۔
قانونی اور تنظیمی ڈھانچے کی تقویت اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی تعمیر
ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ اسکے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے بعض شعبوں میں نئے قوانین اور ضوابط بنانے یا موجودہ قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ پھران کے مؤثر نفاذکو یقینی بنانے کے لیے ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ۲۰۲۲ میں سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراعی پالیسی کا اعلان کر کے اس سمت پہلا قدم اٹھایا ۔ یہ پالیسی مستقبل کے اقدامات کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ان مقامات کی بھی نشاندہی کی جانی چاہیے جہاں تکنیکی ترقی کو فروغ دینے اور اس سے جنم لینےوالے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی تعاون (بشمول بیرونی سرمایہ کاری اور تکنیکی معاونت)
مختلف تکنیکی شعبوں میں تعاون کے فروغ کے لیے کچھ عالمی فریم ورک موجود ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم نے سنٹر فار فورتھ انڈسٹریل ریوولوشن کی تشکیل کی ہے جس کا بنیادی مقصد عوام کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جس کے ذریعے وہ جدید ٹیکنالوجی کے متعلق ایک دوسرے کے ساتھ بحث اور تعاون کر سکیں۔ اسی طرح WTO سے منسلک General Agreement on Trade in Services عالمی تکنیکی بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ ورلڈ بینک نے ساؤتھ ایشیا ڈیویلپمنٹ فورم جیسے اقدامات کیے ہیں ۔ اس فورم نے حال ہی میں کنورجنگ ٹیکنالوجی ریوولوشن اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ (جنوبی ایشیا کے لیے امکانات اور مضمرات) پر ایک تحقیق شائع کی ہے۔ اس کے علاوہ یونائیٹڈ نیشنز انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن ((UNIDO، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار اسٹینڈرڈائزیشن ((ISO، اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ABD) سمیت کئی اداروں نے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ اُن کے ساتھ تعاون کو فروغ دے۔
ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی کی منتقلی کی مختلف سطحوں پر غیر ملکی سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون کا کردار اہم ہے۔ حالیہ اقدامات سے پاکستان کے ”کاروبار میں سہولت کے انڈیکس“ میں بہتری آئی ہے جو سرمایہ کاری، تکنیکی تعاون اور وینڈر کے انتظامات (سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ میں) کو آسان بنا رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ یہ پالیسیاں جاری رکھے اور اس جیسے مزید اقدامات کے لیے کوشاں رہے۔
حکومت پاکستان نے کچھ عرصہ قبل ”ڈیجیٹل پاکستان“کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد عالمی تکنیکی ترقی سے ہم آہنگی ہے۔ یہ فریم ورک پانچ ستونوں پر مشتمل ہے:
۱۔رسائی اور کنیکٹیویٹی؛
ب۔ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر؛
ج۔ڈیجیٹل مہارت اور خواندگی؛
د۔ ای -گورنمنٹ؛ اور
ھ۔جدت اور کاروبار۔
ڈیجیٹل پاکستان گزشتہ پیراگراف میں بیان کی گئی کثیر جہتی اپروچ کے لیے بھی ایک محرک کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
خلاصہ
چوتھا صنعتی انقلاب جہاں ترقی کے بیشتر مواقع فراہم کر رہا ہے وہیں بہت سارے مسائل کا باعث بھی ہے۔ اس میں پیداواری صلاحیت بڑھانے اور انسانی بہبود کو بلندیوں تک پہنچانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ ہمیں اشیا ءاور خدمات کی پیداوار اور مارکیٹنگ کے نئے اور جدید طریقے فراہم کر رہا ہے جو لاگت کو کم کرنے، معیار کو بہتر بنانے اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں معاون ہیں ۔ یہ انسانی زندگی کو زیادہ آرام دہ، خوشگوار اور پائیدار بنا رہا ہے۔
اس کے برعکس اس سے انسانی زندگی کو کچھ خطرات بھی لاحق ہیں۔ کچھ لوگ فکر مند ہیں کہ ضرورت سے زیادہ تکنیکی ترقی ہماری اخلاقی اقدار کو کمزور کر سکتی ہے۔ ان کی یہ تشویش بجاہے۔ اس سلسلے میں باہم تعاون اور قومی و عالمی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوششیں کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اس انقلاب کا رخ ایسی سمت موڑنا چاہیےجو ہمارے مشترکہ مقاصد اور اقدار کے عین مطابق ہو۔
جیسا کہ شواب نے کہا ہے: ’’ہمیں ایک جامع اور عالمی نظریہ تیار کرنا چاہیے کہ کس طرح ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے اور ہمارے معاشی، سماجی، ثقافتی اور انسانی ماحول کو نیا رخ دے رہی ہے‘‘۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مرکز برائے چوتھے صنعتی انقلاب کو جدید ٹیکنالوجیز کے پیش کردہ چیلنجز اور مواقع پر فریقین کے مابین مکالمے اور تعاون کے لیے بین الاقوامی فوکل پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جواب دیں