پاکستان میں آئی ٹی پالیسی لینڈ اسکیپ: چیلنجز اور آگے کا راستہ
آئی ٹی پالیسیاں بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کے لیے مستقل بورڈ کی تشکیل ضروری ہے: آئی پی ایس سیمینار
مناسب پالیسیز اور فریم ورک کے ذریعے ڈیجیٹل اعتماد سازی اور آئ سی ٹی (انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) اور اس کے انفراسٹرکچر پر لوگوں کے بھروسے کوبہتر بنا کر پہلے سے طے شدہ آئ ٹی مقاصد کو حاصل کرنے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ کارکردگی کو بہتر بنانے اور پالیسی کے نفاذ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے ایک مستقل ادارے کی سربراہی میں قائم شدہ پالیسی مینیجمنٹ اور نظرثانی کے طریقہ کار کی بھی اشد ضرورت ہے۔
یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ’پاکستان میں آئی ٹی پالیسی لینڈ اسکیپ: چیلنجز اینڈ دی وے فارورڈ‘ کے موضوع پر 31 اگست 2023 کو منعقدہ ایک سیمینار کے دوران سامنے آئے۔
اس نشست کے مہمان مقرر آئی سی ٹی ماہر ہمایوں ظفر تھے، جبکہ خالد رحمٰن، چیئرمین، آئی پی ایس، اور دیگر ماہرین نے بھی اِس سیشن میں اپنے خیالات پیش کیے، جس کی نظامت آئ پی ایس کےجی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ نے کی۔
پاکستان میں آئی ٹی پالیسی کے منظر نامے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمایوں ظفر نے کہا کہ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ پالیسیوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو اس شعبے کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے اسے محدود کر دے۔ عمومی طور پر ایسا پالیسی کی تشکیل کے پیچھے ویژن، ایک واضح روڈ میپ، اور پہلے سے طے شدہ ہدف کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مشکلات اور رکاوٹوں کو پیدا کرنے کے بجائے جدت اور تنازعات کے حل کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے کے لیے پالیسیاں تیار کی جانی ،چاہئیں۔
انہوں نے 10 بلین ڈالر کے سالانہ آئی ٹی برآمدی ہدف کو پورا کرنے کے لیے پاکستان میں موجودہ آئی ٹی قیادت کی تعریف کی۔انہوں نے ناکامی کے خطرات کی وجہ سے لوگوں کی واضح عدم اعتمادی کو اہداف کے حصول کے حوالے سے آئ ٹی پالیسی کے نفاذ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا، جس کے نتیجے میں لوگ ڈیجیٹل تبدیلی کے بارے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آئی سی ٹی اور ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے پر اعتماد بڑھانے کے لیے ریگولیٹری فریم ورک اور پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
اس وقت ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو اپنانا اور ان کے بارے میں جاننا اور اس کے مطابق صلاحیتیں حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ پالیسیاں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) اور انٹرنیٹ آف تھنگز پر توجہ نہیں دیتیں۔ ان شعبوں کو ایک فعال اور مستقبل کی سوچ کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، آئی ٹی پالیسی کے ذریعے ڈیجیٹل فراڈ اور انفارمیشن سیکیورٹی جیسے خدشات کو بھی دور کرنا چاہیے۔ چونکہ آئ ٹی ایک متحرک، ابھرتی ہوئی اور متحرک صنعت ہے، لہٰذا اس کے لیے ایک مستقل ادارہ قائم کرنے کی تجویز پیش کی جو سال میں کم از کم دو بار پالیسی کے نتائج کا تجزیہ کرے اور وسیع پیمانے پر پالیسیوں کا جائزہ لے۔
خالد رحمٰن نے کہا کہ گورننس کی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام اس ڈیجیٹل خلا کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی توثیق کی کہ موثر پالیسی کے جائزوں کے لیے ایک متحرک ڈھانچہ یا طریقہ کار جو سال میں دو بار عبوری جائزوں کو انجام دے ، ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے کہا کہ یہ تشخیص دیگر پالیسیوں اور شعبوں کے ساتھ مطابقت میں ہونا چاہیے تاکہ زیادہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
مزید برآں، وسائل کو ترجیح دینا اور ای گورننس پر زور دینا بہت ضروری ہے تاکہ اس سے عوام میں آگہی کو بڑھا کر اس سے کثیر اثرات حاصل کیے جا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ای گورننس کے ذریعے بہت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، لیکن طویل مدت میں نیّت،، صلاحیت اور مفادات کے سوالات کو حل کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر فخر الاسلام نے زور دیا کہ پاکستان کی ترقی کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرنے اور پریشان ہونے کے بجائے ہمیں سیکھنے کا انداز اپنانا ہوگا۔ ملک کے آئی ٹی سیکٹر میں زبردست صلاحیت موجود ہے.
جواب دیں