‘پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق، ہندو مندرکے حالیہ تنازعے کے تناظر میں’
اسلام آباد میں ہندو مندر کا تنازعہ عوام میں اقلیتوں سے متعلق شعور پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ آئی پی ایس راونڈ ٹیبل
اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر جیسے نازک معاملات اور اس سے متعلقہ فیصلے باقاعدہ ہوم ورک، اس ضرورت کی تشخیص اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جانے چاہیے۔ چونکہ یہ معاملہ اب اسلامی نظریاتی کونسل کے سپرد کیا جا چکا ہے، اس لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی چاہیے کہ اس کا فیصلہ اعداد و شمار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زمینی حقائق کی بنیادوں پر کرے، اور اس کے ساتھ یہ بھی یقینی بنائے کہ یہ فیصلہ اس قسم کے معاملات میں عوام میں اقلیتوں سے متعلق شعور بیدار کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں 19 جولائ 2020کو ہونے والی راونڈ ٹیبل ‘پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق، ہندو مندرکے حالیہ تنازعے کے تناظر میں’ میں کیا گیا۔ اس اجلاس کی صدارت انسٹیٹیوٹ کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن نے کی، جن کا کہنا تھا کہ اگر باقاعدہ مناسب ہوم ورک کے ساتھ اس معاملے پر پیش رفت کی جاتی تو اسے حال کی نسبت کافی کم تنقید کا سامنا کرنا پڑتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کسی قسم کے شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت یقینی بنانا چاہیے۔ البتہ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ مغربی جمہوریتوں میں بھی مذہبی اقیتوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے مخصوص قواعد و صوابط کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اجلاس میں شامل شرکاء نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اسلام آباد میں ہندو برادری کی اتنی تعداد موجود ہے کہ اسکے مندر کے لیے شہر کے بیچ و بیچ ایک مرکزی مقام پر جگہ مختص کر دی جائے۔
شرکاء نے اس معاملے کو معاشی، آئینی، انسانی حقوق اور بین الاقوامی پس منظر میں بھی دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ جہاں یہ اقدام دنیا بھر میں پاکستان کا نرم مزاج اور خوش ائیند چہرہ ہیش کرنے میں مدد دے گا، وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور راولپںڈی کے جڑواں شہروں میں موجود تین ہزار سے کم تعداد پر مشتمل ہندو برادری کے لیے اپنی مذہبی رسومات پوری کرنے اور مذہبی تہوار منانے کے لیے خاطر خواہ جگہ موجود ہے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئ کہ اس وقت پورے پاکستان میں کل 428 مندر موجود ہیں جن میں سے 11 سندھ میں، 4 پنجاب میں، 3 بلوچستان میں، اور 2 خیبر پختونخواہ میں واقع ہیں، جبکہ ان میں سے صرف 20 زیرِ استعمال ہیں جبکہ باقی سارے غیر آباد ہیں۔ اجلاس میں آئین کے ارٹیکل 20، 36 اور 37 پر غور کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا جن میں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کاتذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے پر کوئ فیصلہ کرنے سے پہلے بین الاقوامی قوانین اور اس سے متعلقہ قواعد و ضوابظ کو دیکھنے کا بھی مشورہ دیا گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئ کی ہندو دلِت ذات – جن کی تعداد ملک میں موجود ہندو برادری کی 4 ملین آبادی میں 90 فیصد سے زیادہ ہے اور جن کو اونچی ذات کے ہاتھوں چلائے جانے والے مندروں میں جانے کی اجازت تک نہیں ہے – کی تںظیم اور اس کے رہنماوں نے اپنے آپ کو اس مندر کی تعمیر سے علیحدہٰ رکھا ہے اور اس کے بجائے حکومت سے نگر پارکر سندھ میں ایک یونیورسٹی کے قیام کی درخواست کی ہے۔
اجلاس کے اختتام پر تقریر کرتے ہوئے خالد رحمٰن کا کہنا تھا کہ اب جبکہ یہ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اندر زیرِ بحث ہے تو اس کو چاہیے کہ کوئ بھی فیصلہ کرنے کے لیے اعداد و شمار اور زمینی حقائق کو مدِ نظر رکھے، اس مسئلے سے متعلقہ تمام افراد کو ایک پلیٹ فارمم پر جمع کر کے ان سے رائے لے، جڑواں شہروں میں موجود ہندو برادری کی تعداد کے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرے، اور یہ بھی جاننے کی کوشش کرے کہ ان میں سے کتنی آبادی اس مندر کی تعمیر کو اپنی ضرورت سمجھتی ہے خاص طور پر جب ملحقہ راولپنڈی میں پہلے ہی کچھ مندر موجود ہیں۔ اور اس سب کے بعد اگر اسلام اباد میں ہندو برادری کے ںئے مندر کی تعمیر اُن کی ایک ضرورت بن کر سامنے آتی ہے، تو پھر اِن ٹھوس دلائل کے بنیاد پر نہ صرف یہ فیصلہ سنایا جائے بلکہ اس فیصلے کے ذریعے عوام میں بھی اقلیتوں سے متعلق ایسے معاملات پر تعلیم ، تفہیم اور شعور پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
جواب دیں