پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کی کہانیاں اور اس کی حقیقت
پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے معاملے ، اس کی نوعیت ، اس کے پیمانے اور سماجی و ثقافتی مضمرات کے بارے میں جاری بحث کے پس منظر میں ، آئی پی ایس نے 28 ستمبر 2021 کو’پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے قصے کہانیاں اور اس کی حقیقت‘ کے عنوان سے ایک بریفنگ منعقد کی۔
پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے معاملے ، اس کی نوعیت ، اس کے پیمانے اور سماجی و ثقافتی مضمرات کے بارے میں جاری بحث کے پس منظر میں ، آئی پی ایس نے 28 ستمبر 2021 کو’پاکستان میں جبری مذہبی تبدیلی کے قصے کہانیاں اور اس کی حقیقت‘ کے عنوان سے ایک بریفنگ منعقد کی۔
سیشن سے آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسر صوفی غلام حسین نے کلیدی اسپیکر کی حیثیت سے خطاب کیاجبکہ چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، جنرل مینیجر آئی پی ایس نوفل شاہ رخ ، سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ آئی پی ایس ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف ، ایسوسی ایٹ ڈین سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ سٹیبلٹی ۔نسٹ اور آئی پی ایس کے نان ریزیڈینٹ فیلو ڈاکٹر طغرل یامین ، آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت ، اور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ماس کمیونیکیشن کراچی یونیورسٹی ثمینہ قریشی کے علاوہ یگر افراد نے شرکت کی۔
حسین نے اپنی تحقیق کے اہم نتائج شرکاء کے سامنے پیش کیے اور انہیں اس تناظر میں موجودہ بحث کے بارے میں آگاہ کیا۔
پاکستان میں ہر سال 1000 ہندو لڑکیوں کے جبری مذہب تبدیل کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے صوفی نے بتایا کہ کس طرح نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں ڈیٹا کو گھڑتی ہیں اورپھر اسے ایک دوسرے کو ایک مستند ذریعہ کے طور پر حوالہ بنادیتی ہیں تاکہ ان کے جھوٹے دعووں کی تصدیق کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ شادی اس طرح کے تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ اسلام مسلمانوں کو اپنے مذہب سے باہر شادی کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یوں مذہب کی تبدیلی ایک رسمی ضرورت بن جاتی ہے۔
حسین کی پیش کی گئی تحقیق کے بعد ہونے والی بحث میں دیکھا گیا کہ وفاقی حکومت پاکستان میں عقیدے کی تبدیلی کو باقاعدہ بنانے کے لیے قانونی اقدامات شروع ہوگئی-بشمول ’جبری تبدیلیٔ مذہب کی روک تھام کا مجوزہ بل‘ – جو کہ غیر ملکی مسلط کردہ ایجنڈے کے ایک حصے کے طور پرپیش ہوا جس میں زور دیا گیا کہ ریاست غیر مسلموں پر دباؤ کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے کا راستہ روکے۔
جواب دیں