پاکستان میں ریسرچ کا احوال
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی و معدنی وسائل سے نوازا ہے، کمزور طرز ِ حکمرانی اور تحقیقی رجحان کے فقدان کی وجہ سے ہم ان وسائل سے استفادہ کرنے میں ہنوز کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر ہمیں خود انحصاری کا حصول اورمعیشت کو مضبوط بنیاد پر کھڑا کرنے کی منزل کو پانا ہے توہمیں صحیح اور مؤثر حل تلاش کرنا ہو گا۔۔۔ اور اس کے لئے تحقیق کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔
پاکستان میں ریسرچ کا احوال
ڈاکٹر فخر الاسلام
پاکستان ایک ترقی پزیر ملک ہے جس کی معیشت کا زیادہ تر دارو مدار قرضوں یا بیرون ملک ترسیلات پر ہے۔ اس کی معیشت کو ابھی تک مضبوط بنیاد فراہم نہیں کی جاسکی۔ اسی طرح اس کی صنعت بھی زوال پذیر اور ترقی معکوس کی شکار ہے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو بے پناہ قدرتی و معدنی وسائل سے نوازا ہے، کمزور طرز ِ حکمرانی اور تحقیقی رجحان کے فقدان کی وجہ سے ہم ان وسائل سے استفادہ کرنے میں ہنوز کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر ہمیں خود انحصاری کا حصول اورمعیشت کو مضبوط بنیاد پر کھڑا کرنے کی منزل کو پانا ہے توہمیں صحیح اور مؤثر حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس کے لئے تحقیق کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔
تحقیق کے لئے موزوں حالات اور ریسرچ کلچر بہت ضروری ہیں۔ موزوں حالات سے مراد یہ ہے کہ تحقیق کے لئے آمادگی اور وسائل موجود ہوں نیز اسے معاشرے اور حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہو۔ ریسرچ کلچر سے مراد اس شعبے سے وابستہ افراد کار کی اُفتاد طبع، آمادگی، ٹیم ورک اور اخلاقی بنیادیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں تحقیق کے لئے فضا سازگار ہے؟ یعنی کیا حکومتی اور سماجی سطحوں پر اس بات کے لئے آمادگی موجود ہے کہ تحقیق کے کام کو ا ٓگے بڑھایا جائے اور اس مقصد کے لئے مطلوبہ وسائل فراہم کئے جائیں؟ بد قسمتی سے ان سوالات کے تشفی جوابات کسی کے پاس نہیں۔
تحقیق ایک وسائل طلب کام ہے۔ وافر مقدار میں مالی وسائل کی فراہمی ہی اس کام کو آگے بڑھا سکتی ہے۔ مگر حالت یہ کہ۲۳-۲۰۲۲ کے وفاقی بجٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے لئے محض ۵ ارب اور ۶۰کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس رقم کا زیادہ حصہ انتظامی اخراجات کے مد میں خرچ ہورہا ہے۔ اس میں سے سائنسی تحقیق کے لئے جورقم بچی تھی وہ بھی ملک کی یونیورسٹیوں اور تحقیق کے اداروں میں مساوی طور پر تقسیم نہیں کی گئی۔ موجودہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے بعد اکتوبر ۲۰۲۲ میں سینیٹ کی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق سٹینڈنگ کمیٹی میں بریفنگ دیتے ہوئے اسی وزارت کے سیکریٹری نے انکشاف کیا کہ وزارت نے تحقیق کے لئے مختص فنڈ کا ۸۰ فیصد صرف تین یونیورسٹیوں کو دیا۔ ان میں نسٹ، کامسیٹ اور نیوٹیک یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ بقیہ ۲۰ فیصد فنڈ ملک کے دیگر ۱۳ اِداروں کو فراہم کیا گیا جن کے نام نہیں بتائے گئے۔ فنڈز کی اس تقسیم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سرکاری اور نجی شعبوں میں قائم ملک کی ۲۱۹ یونیورسٹیاں وزارت کے ریسرچ گرانٹ سے محروم رہیں۔
ملک کی یونیورسٹیوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کمیشن فنڈ فراہم کرتا ہے۔ ایچ ای سی کو موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ۶۶ بلین روپے ملے جن میں سے بہت کم حصہ تحقیق کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ کمیشن کی سطح پر ریسرچ گرانٹ کا ایک نظام ہے مگر اس کے اندر بے شمار خامیاں موجود ہیں۔ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ تحقیق کے لئے جن موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے وہ ہماری سماجی و معاشی ضروریات کے مطابق نہیں ہوتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہےکہ کوئی سکالر اگر ایچ ای سی کا پراجیکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو خود اُس کی یونیورسٹی میں اس کو پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے مناسب ماحول نہیں ملتا جس کی وجہ سے یا تو پراجیکٹ نامکمل رہ جاتا ہے اور یا پھر نیم دلی سے تکمیل کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔ مگر اس کے وہ اثرات مرتب نہیں ہوتے جن کے لئے ایچ ای سی گرانٹ فراہم کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کا شعبہ مالی وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے۔
مالی وسائل کے علاوہ یہ بھی دیکھناضروری ہے کیا ہمارے تحقیقی اداروں کا حکومتی شعبوں، خاص طور پر صنعت، اور بحیثیت مجموعی معاشرے سے کوئی رابطہ اور تعلق بھی ہے یا نہیں۔ اگر ہم یونیورسٹیوں کو دیکھیں تو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہم ابھی تک یہ روابط استوار نہیں کر پائے۔ اسی وجہ سے ہم ابھی تک علمی معیشت (Knowledge Economy) کے فوائد سے محروم ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بیوروکریسی ترقی کے عمل میں یونیورسٹیوں کےاِشتراک کی حامی نہیں۔ وہ سب کچھ خود ہی اور بلاشرکت غیرے کرنا چاہتی ہے اور یہ بھول جاتی ہے کہ ملک کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ساٹھ ہزار افراد کو اگر ترقی کے عمل میں شامل کیا گیا تو مطلوبہ نتائج برامد ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف یونیورسٹیاں بھی تحقیق اور عمومی تعلیم کا وہ معیار حاصل کرنے میں ہنوز کامیاب نہیں ہوئیں جس کو دیکھ کر حکومت اور صنعتی شعبہ اُن کے ساتھ اشتراک کرنے پر راضی ہوں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک کی یونیورسٹیوں سے ہر سال پانچ لاکھ نوجوان تعلیم مکمل کر کے فارغ ہوتے ہیں۔ ان میں سے طلباء کی بہت بڑی تعدا د ریسرچ تھیسز یا تحقیقی مقالات بھی لکھتی ہے مگر یہ مقالات یونیورسٹیوں میں پڑے رہتے ہیں ۔حکومتی سطح پر ان سے استفادہ کرنے کا کوئی پروگرام ابھی تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ تھیسز کے علاوہ ملک بھر میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ریسرچ پیپرز بھی تحقیقی جرائد میں شائع ہوتے ہیں جن کے ذریعے لکھنے والوں کو ملازمت میں ترقی سمیت بعض فوائد تو مل جاتے ہیں مگر قومی سطح پر اُن سے کسی قسم کا استفادہ نہیں حاصل کیا جاتا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمیں سر جوڑ کر اس مسئلےکا حل تلاش کرنا چاہئیے۔ حکومت ایچ ای سی اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو ٹاسک دے کہ وہ ریسرچ کے حوالے سے اپنے موجودہ ڈھانچے کو از سرنو ترتیب دیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے بھرپور سرپرستی ہو اور اس مقصد کے لئے خطیر رقم مختص ہو نیز یونیورسٹیاں بھی اپنے تعلیمی اور تحقیقی معیار کو بہتر بنائیں تاکہ ملکی صنعت، حکومت کے متعلقہ شعبوں اور معاشرے سے ان کے روابط استوار ہوں۔
جواب دیں