’پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول: آئندہ کا لائحہ عمل ‘
ماہرین اقتصادیات موجودہ معاشی پریشانیوں کی بنیادی وجہ نااہلی کو قرار دیتے ہیں۔ پبلک سیکٹر کے اداروں کی نجکاری کا مطالبہ
ملک کو اس وقت جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کی ایک اہم وجہ نااہلی ہے ،اور موجودہ حالات میں پاکستان میں کاروبار کرنا جہاد سے کم نہیں۔ سرمایہ کاروں کو ہینڈ ہولڈنگ اور یقین دہانیوں کی ضرورت ہے، جبکہ ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول میں سہولت اور مستقل مزاجی دونوں کا فقدان ہے۔
یہ بات محمد اظفر احسن، سابق وزیر مملکت اور چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ (بی او آئی) نے 19 جنوری 2023 کو آئی پی ایس میں منعقدہ ایک گول میز کانفرنس میں کلیدی مقرر کے طور پر کی، جس کا عنوان تھا ’پاکستانز انوسٹمنٹ کلائیمیٹ؛ دا وے فارورڈ‘
اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی جبکہ ایمبیسیڈر(ر) سید ابرار حسین، وائس چیئرمین آئی پی ایس؛ سید طاہر حجازی سابق ممبر (گورننس) پلاننگ کمیشن؛ صفدر سہیل، ڈین، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی؛ ظفر الحسن الماس ، جوائنٹ چیف اکانومسٹ ، پلاننگ کمیشن؛ اور ڈاکٹر شہزاد اقبال شام، سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ، آئی پی ایس نے بھی اپنے خیالات پیش کیے۔
سیشن کا مقصد مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو درپیش موجودہ چیلنجز اور بحرانوں پر قابو پانے کے لیے مطلوبہ معاشی حکمت عملیوں کا جائزہ لینا تھا۔
احسن نے اپنی گفتگو کا آغاز تین اہم مسائل کی نشاندہی سے کیا: وژن کی کمی، سیاسی عزم کی کمی، اور تعاون کی ضرورت۔ انہوں نے کہا کہ”اگرچہ میں بدعنوانی کے لیے صفر رواداری رکھتا ہوں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں درپیش معاشی بحران کی ایک اہم وجہ نااہلی ہے۔“ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں کاروبار کرنا جہاد سے کم نہیں۔
سرمایہ کاری کے مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے، سپیکر نے کہا کہ سرمایہ کاروں کو ہینڈ ہولڈنگ اور یقین دہانیوں کی ضرورت ہے، کیونکہ ان کا منافع پاکستان میں انفراسٹرکچر کی ترقی میں واپس جاتا ہے، اور ایک کامیابی کی کہانی دوسروں کے لیے پیروی کرنے کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز )کی بھی نجکاری ہونی چاہیے۔ پی ایس ایز قومی وسائل کو نچوڑنے کا سبب بن چکے ہیں اوردوسری طرف نجکاری کمیشن کی کارکردگی مسائل سے نبٹنے میں ناکامی اور ان کی درست نشاندہی نہ کر سکنےکے باعث مایوس کن ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ماہر اقتصادیات نے کہا کہ ایف ڈی آئی پورٹ فولیو 3 بلین امریکی ڈالر سے کم ہے جو کہ 230 ملین سے زیادہ آبادی والے ملک کے لیےمناسب نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ”ہماراسرمایہ کاری کا ماحول مستقل مزاجی اور سہولت کے فقدان کی وجہ سے چیلنجنگ ہے“۔
ٹرن اوور اور تسلسل کے فقدان پر تبصرہ کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ وہ بی او آئی کے چوتھے چیئرمین تھے اور انہوں نے اپنے دور میں ایف بی آر کے چھٹے چیئرمین اور پانچویں فنانس سیکرٹری کی تقرری دیکھی۔
انہوں نے اصرار کیا کہ سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے پاکستان کو بہترین کیس اسٹڈیز کے طور پر چھ سے آٹھ ممالک پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ازبکستان اور قازقستان کی سرمایہ کاری کی حکمت عملی پاکستان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ان معیشتوں نے مختصر عرصے میں غیرمعمولی ترقی کی ہے۔ ”ہمیں پاکستان میں جی ۲جی، جی ۲ بی اور بی ۲بی ، پر بیک وقت توجہ دینے کے ساتھ ایک ایسا ہی ماحولیاتی نظام بنانے کی ضرورت ہے۔“
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر توجہ دلاتے ہوئے، انہوں نے سی پیک کو ایف ڈی آئی کی ایک بہترین مثال کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اس موقع کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ چینی حکومت پہلے ہی 22 ممالک میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز)قائم کر چکی ہے۔ بی او آئی نے سفارش کی تھی کہ چین کے صدر زی کے ساتھ ہماری ملاقات میں یہ سب سے اوپر کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔
سعودی حکومت کے پاس آٹھ ترجیحی شعبوں کے لیے فنڈنگ دستیاب ہے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی پارٹنر کے طور پر شامل کرنا ہے۔ وہ بلوچستان میں آئل ریفائنری کے علاوہ پاکستان میں ایگری زون قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے، تاخیر ہماری طرف سےہو رہی ہے، کیونکہ ہم طے شدہ منصوبوں کو مکمل کرنےمیں ناکام رہے ہیں۔ اس دوران، کے ایس اے دوسرے ممالک میں بھرپور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سپیکر نے مزید کہا کہ کے ایس اے کے سرمایہ کاری کے وزیر کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران، انہوں دونوں ممالک کے لیےسالانہ چند بلین ڈالر کے مواقع پر مبنی سرمایہ کاری کی حکمت عملی تیار کی۔ اس کے بعد سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور ریاست صرف بیل آؤٹ حاصل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔
احسن کا خیال تھا کہ سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے کسی سیاسی حکومت، بیوروکریسی یا فوج کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ یہ مشترکہ ذمہ داری اور مشترکہ ناکامی ہے۔ ”ابھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کی مجبوری ہے، لیکن اگر ہم اس کا موازنہ سرمایہ کاری کی صلاحیت سے کریں تو 1.1 بلین امریکی ڈالر اہمیت نہیں رکھتے ۔ ہم تین سے پانچ سالوں میں 6 سے 8 بلین امریکی ڈالر اور 8 سے 10 سالوں میں 15 بلین امریکی ڈالر کے قریب ایف ڈی آئی لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں صرف پالیسیوں کا ایک مستحکم فریم ورک بنا نا ہو گا جو کسی بھی سیاسی تبدیلی سے بالاتر ہو“۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک اور بڑی تشویش ایف بی آر کا طریقہ کار اور پالیسیاں ہیں۔ وہ اپنی فزیبلٹی رپورٹ بنانے سے زیادہ بڑا بوجھ اسے سمجھتے ہیں۔ یہ استحصال کی سطح پر پہنچ چکا ہے اور اسے فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ان پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے، قومی سطح پر بین الاقوامی تناظر میں ہمیں مضبوط قیادت کی ضرورت ہے اور یہ صرف وزیراعظم کا دفتر ہے۔ بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنے کا ذمہ دار وزیراعظم ہے۔ ماضی کے وزیراعظموں میں سے کوئی بھی ایسا کرنے کے قابل نہیں تھا۔
اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے روشنی ڈالی کہ اس بحالی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، تاہم، مختلف شعبوں میں بے شمار مواقع ہیں جن سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا تبھی ممکن ہےجب گورننس میں اصلاحات لائی جائیں۔
جیسا کہ گورننس کی ابتدا سیاسی حکومت سے ہوتی ہے، یہ حکومت کے سربراہ کا قانونی فرض ہے کہ وہ ملک کو منفی حالات سے نکالے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے ارکان، قومی ایجنڈے اور مفاد عامہ کے حوالہ سے اپنا کردار مؤثر انداز میں ادا کریں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ذمہ داری کی حقیقی ادائیگی ایسے منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی یقینی بنائی جا سکتی ہے جوعوامی ووٹ کی متناسب نمائندگی پر مبنی ہوں۔ ان اصلاحات کی وجہ سے جو تبدیلیاں لائی جائیں گی وہ آخرکار مستقل پالیسیوں، قومی اعتماد، سرمایہ کاروں کے اعتماد، مفادات کے حصول اور گڈ گورننس کے ذریعے بہتر تجارتی تعلقات کا باعث بنیں گی۔
جواب دیں