‘پاکستان میں غربت کا خاتمہ: بی آئی ایس پی کا تصور اور کارکردگی پر تجزیہ’
مسلسل 8 فیصد شرحِ نمو اور اسٹریٹیجیک اصلاحات غربت کے خاتمے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں: ماہرین
پاکستان کو غربت اور بے روزگاری کے مسائل سے نمٹنے کے لیے سماجی تحفظ کی پالیسیوں میں ایک اسٹریٹجک تبدیلی اپنانا ہو گی، جس کے لیے 8-10 سال مسلسل 8 فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح ضروری ہے تاکہ ملازمت کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ اس کے حصول کے لیے ترقی کو شمولیتی، اور ڈیٹا پر مبنی نقطہ نظر اپنانا ہوگا، ساتھ ہی جامع ساختی اصلاحات بھی کرنی ہوں گی۔ کلیدی اقدامات میں انتظامی ڈھانچے کو غیر مرکزی بنانا اور انسانی وسائل کی ترقی کو ترجیح دینا شامل ہے تاکہ سماجی حفاظتی کوششوں کو پائیدار اقتصادی ترقی میں تبدیل کیا جا سکے۔
یہ بات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں 22 اکتوبر 2024 کومنعقدہ ‘پاکستان میں غربت کا خاتمہ: بی آئی ایس پی کا تصور اور کارکردگی پر تجزیہ’کے موضوع پر ایک انٹرایکٹو سیشن کے دوران کی گئی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے سابق ڈین ڈاکٹر غلام محمد عارف کی صدارت میں منعقدہ اس تقریب میں پاٗیڈ کے چیف آف ریسرچ ڈاکٹر شجاعت فاروق، چئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن اور دیگر ماہرین نے شرکت کی۔
اجلاس میں پاکستان میں غربت کم کرنے کی موجودہ کاوشوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا، خاص طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) اور اس کی مؤثریت پر توجہ دی گئ ، نیز ملک کے سماجی تحفظ کے پروگراموں کو درپیش بڑے چیلنجز پر بھی گفتگو ہوئی۔
ڈاکٹر شجاعت فاروق نے وضاحت کی کہ بی آئی ایس پی ، جو کہ ایک اہم سماجی حفاظتی نیٹ ہے ، بڑی حد تک بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے زیر اثر ہے، اور آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کی طرف سے شرائط کی بنا پر اس کی تبدیلی یا معطلی مشکل ہو گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی آئ ایس پی کا موجودہ بجٹ، جو کہ 600 ارب روپے ہے ، اگرچہ بڑا ہے، مگر طویل المدتی اقتصادی مواقع پیدا کیے بغیر یہ غربت کا مستقل حل کرنے کی بجائے صرف عارضی امداد کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے۔
انہوں نے بی آئی ایس پی کے اندر ڈیٹا مینجمنٹ کے اہم مسائل کی نشاندہی کی ، جہاں موثر ٹریکنگ یا ڈیٹا کے یکساں استعمال کے بغیر اربوں کے فنڈز خرچ کیے جا رہے ہیں۔ مزید برآں، قومی سطح کے اعداد و شمار اور زمینی حقائق کے درمیان کافی تضاد موجود ہے، جس کی وجہ سے سب سے زیادہ خطرے میں مبتلا آبادیوں کی شناخت اور ان کو ہدف بنانے میں غلطیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس بحث میں تھرڈ پارٹی ایویلیوٹرز اور این جی اوز کے ذریعے ڈیٹا کی ہیرا پھیری کا بھی ذکر ہوا ، جس کی وجہ سے پروگرام کی تشخیص پر بھروسے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مزید برآں، وقت کے ساتھ، تقسیم کی سطح پر غبن اور بڑھتے ہوئے آپریشنل اخراجات نے پروگرام کو اور بھی غیر موثر کر دیا ہے۔
پینل نے اتفاق کیا کہ ملک میں سماجی تحفظ کی مستقل حکمت عملی کا فقدان ہے۔ اگرچہ بی آئی ایس پی جیسے پروگرام ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن یہ خود لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لیے کافی نہیں۔ بنیادی تعلیم میں بہتری نہ ہونے ، زچگی کی بڑھتی ہوی شرح، اور طبی سہولیات تک کم رسائی غربت کے چیلنجوں کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے تعلیم اور صحت کی خدمات میں موجود خلا کو پورا کرنا ضروری ہے۔
اس بحث میں ماضی کے اقدامات اور حالیہ مائیکرو فنانس پروگراموں کی نا اہلیوں پر بھی بات کی گئی جو پائیدار طریقے سے غربت کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مزید یہ کہ غربت کے خاتمے میں بین الاقوامی ڈونر ایجنسیوں کے کردار بھی کافی مشکوک ہے۔
ماہرین نے آسان گرانٹس یا نرم قرضوں کے حصول کے اوپر حقیقی نتائج کو ترجیح دیتے ہوئے ان پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے ایک مربوط فریم ورک بنانے کے لیے حکومتی پروگراموں کو یکجا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جو غربت سے نکلنے کے لیے ایک واضح راستہ فراہم کر سکے ، اور "غربت سے نکلنے” کے تصور کو بہتر طور پر واضح اور قابل عمل بنایا جا سکے۔
اس بحث میں تین بڑے ساختی مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی جو غربت کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں: قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ کا فارمولا جو بغیر نمو کو فروغ دیے غربت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ، ایسے پروگراموں کی مرکزی انتظامیہ جن میں صوبائی ملکیت ہونی چاہیے، اور سیکرٹریوں کی قلیل المدتی تقرری جو پروگرام کے نتائج کی ملکیت نہیں رکھتے۔ انتظامی ڈھانچے کو غیر مرکزی بنانا، واضح شمولیت کے معیارات قائم کرنے، اور انسانی سرمایہ کو فروغ دینے کی حکمت عملی تیار کرنے کی تجویز دی گئی۔
ماہرین نے ایک جامع منصوبہ کی سفارش کی جو دائمی، عارضی، اور شہری غربت کا احاطہ کرے، اور ہر ایک کے لیے مخصوص اقدامات فراہم کرے۔ مواقعوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے ماہرین نے انسانی سرمائے اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر زور دیا ، خاص طور پر ایسے خطوں میں جہاں امکانات بہت زیادہ ہیں لیکن وسائل محدود ہیں۔
تربیتی پروگراموں اور افرادی قوت کے تقاضوں کے درمیان مماثلت کو دور کرتے ہوئے ہنر پیدا کرنے اور بہتر بنانے کے پروگراموں کو حقیقی طور پر نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ان کی ملازمت کو بڑھانے کے لیے ڈیزائن کیا جانا چاہیے۔
خالد رحمٰن نے زور دیا کہ بی آئ ایس پی کا انحصار اندرونی حکمت عملی پر خارجی شرائط سے زیادہ ہونا چاہیے ، نیز انہوں نے مؤثر سماجی تحفظ کی پالیسیوں کی تشکیل کے لیے شواہد پر مبنی مباحثوں کی وکالت کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ بی آئی ایس پی ایک اہم سماجی حفاظتی نیٹ ہے ، لیکن اس کا تسلسل ایک مضبوط داخلی حکمت عملی کے بجائے زیادہ تر بیرونی شرائط سے متاثر ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز کو ترقی پر مبنی، شمولیتی سماجی تحفظ کی پالیسیوں سے حل کیا جا سکتا ہے جو پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دیتی ہوں ، غربت کم کرتی ہوں، اور پاکستان بھر میں دیرپا ملازمتیں پیدا کرسکیں۔
جواب دیں