پاکستان میں مذہب کی کوئی ایسی تبدیلی نہیں جو جبری ہو: ڈاکٹر غلام حسین
دعووں کے برعکس، پاکستان میں مذہب کی تبدیلی نہ تو کم عمر ی میں کی گئی ہے اور نہ ہی ان میں سے کسی کو کسی بھی طرح سے مجبور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر مذہبی تبدیلیو ں کی وجہ شادی سے متعلقہ ہیں جن میں جبری شادیوں سے آزاد ہونے، یا اقلیتوں کی برادری کے اندر موجود گھریلو بوجھ سے چھٹکارا پانا ایک سبب ہوتا ہے۔
اس موضوع پر ڈاکٹر غلام حسین صوفی نے31 جنوری 2023 کو ایک سیمینار میں جبری تبدیلی پر آئی پی ایس میں کی گئی اپنی تحقیق کے کلیدی نتائج پیش کیے۔ یہ سیمیناروزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ”مذہبی تبدیلی، مسائل، تنازعات، اور حقیقت“۔
سیمینار کی صدارت وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی مفتی عبدالشکور نے کی جس میں سفارت کاروں، سفیروں، قومی اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے نمائندوں اور بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق امور پر کام کرنے والے طلباء نے شرکت کی۔
’جبری تبدیلی یا عقیدے کی تبدیلی: بیان بازی اور حقیقت‘ کے عنوان سے آئی پی ایس کےپلیٹ فارم پر کیے گئے اپنےمطالعہ کے نتائج پیش کرتے ہوئے، ڈاکٹر حسین نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ اس تحقیق کے تحت عقیدہ کی تبدیلی کے 6055 کیسز کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس میں 74 فیصد سے زیادہ یعنی 4494 کیسز، بڑے پیمانے پر تبدیلی کے ہیں، یہ خاندانی تبدیلی ہے۔ جبکہ ایسےاعداد و شمارکی نشاندہی بہت کم فیصد کی ہےجنہوں نے کم عمر ی میں مذہب تبدیل کیا،اور جن کے ساتھ کسی بھی لحاظ سےزور زبردستی کا طریقہ نہیں کیا گیا۔ ان کے اس فعل کی بنیادی وجہ شادی تھی۔
مقرر نے سامعین کو مزید بتایا کہ کم عمر افراد کی جبری تبدیلی کی پوری داستان معروضیت اور سائنسی صداقت کی کمی پر مبنی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مذہب کی تبدیلی کے آزادانہ انتخاب کو جبری تبدیلی نہیں کہا جانا چاہیے اور اس کا مقابلہ عوام میں اس مسئلے کے پس پردہ حقیقت کے بارے میں بیداری پھیلا کر کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اس سلسلے میں سپریم قانون یعنی قرآن اور شریعت کے تحت درست قانون سازی کی ضرورت اور اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
جواب دیں