پاکستان کا بہتر مستقبل ایک واضح سمت متعین کرنے پر منحصر ہے: آئی پی ایس قومی مشاورتی کونسل
قومی ترقی کی حکمت عملی میں تعلیم کا مرکزی کردار ہونا چاہیے، گورننس اصلاحات بھی ضروری قرار
پاکستان کی مستقبل کی ترقی کا دارومدار ایک ایسی واضح سمت متعین کرنے پر منحصرہے جس کے ہر پالیسی ساز فیصلے میں قوم سازی کا عنصر مثبت طریقے سے مربوط ہو۔ ایسی سمت کا تعین ملک کے گورننس کے بحران کو حل کرنے، نظریاتی اتحاد کو فروغ دینے اور سیاحت اور ٹیکنالوجی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں ملک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو گزشتہ سات دہائیوں سے پیش آنے والے پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پالیسی فیصلوں اور اصلاحات میں یکجہتی اور قومی سطح پر ایک جامع نقطہ نظر اپنانے کی بھی ضرورت ہے۔
ملکی ترقی کا راستہ براہ راست اس کی نوجوان نسل کی صلاحیت اور تعلیمی نظام میں جدّت سے جڑا ہے۔ اس تبدیلی کی طاقت کو پوری طرح سے بروئے کار لانے کے لیے تعلیم کو قومی ترقی کی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت دینا ضروری ہے۔ اصلاحات اور بااختیار بنانے پر مرکوز یہ نقطہ نظر، پاکستان کو مستقبل کے رہنماوًں کو تیار کرنے، ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور خود کو ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر منوانے کا موقع فراہم کرے گا۔ تعلیم کو قومی اور بین الاقوامی حکمت عملیوں میں مرکزی حیثیت دے کر پاکستان ایک زیادہ پائیدار اور ترقی پسند مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار 14 ستمبر 2024 کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی قومی مشاورتی کونسل (این اے سی) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے ممتاز دانشوروں، ماہرینِ تعلیم، سینئر سفارت کاروں، اور فیلڈ پریکٹیشنرز کے ایک گروپ نے کیا۔ اس سالانہ اجلاس کا مقصد قومی مسائل اور آئی پی ایس کی تحقیقی سرگرمیوں کے بارے میں تجربہ کار پریکٹیشنرز سے معلومات، مشورے اور رہنمائی حاصل کرنا تھا۔
اس تقریب کی صدارت چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی اور اس کی نظامت وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین نے کی، جبکہ اس اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں سابق صدر آزاد جموں و کشمیر سفیر سردار مسعود خان، سابق سفیر مسعود خالد، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن، سابق ممبر (گورننس)، پلاننگ کمیشن آف پاکستان ڈاکٹر سید طاہر حجازی، وائس چانسلر، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (آر آئی یو) پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، سابق وفاقی سیکرٹری سید ابو احمد عاکف، سابق وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) ڈاکٹر اسد زمان، شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر جلیل عالی، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کنسلٹنٹ اور سابق وائس چانسلر ہری پور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی، جامعہ الرشید کراچی کے سربراہ اور الغزالی یونیورسٹی کے چانسلر مفتی عبدالرحیم، وائس چانسلر گوادر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے بانی ریکٹرڈاکٹر سید محمد جنید زیدی، سینئر لیکچرر کرٹن یونیورسٹی آسٹریلیا ڈاکٹر مسعود محمود خان، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ بشریات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نورین سحر، سابق وفاقی سیکرٹری اور آئی جی پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام، وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ، چیئرمین اور ڈائریکٹر ویسٹبری گروپ آف کمپنیز محمد بشیر جان محمد، عالمی بینک کے کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپروومنٹ پروجیکٹ کے انسٹیٹیوشنل ریفارمز اسٹڈیز کے ڈپٹی ٹیم لیڈ نوفِل شاہ رخ ، اور فیڈرل گورنمنٹ سروسز ہاسپٹل کے شعبہ اطفال کی سابق سربراہ ڈاکٹر نوید بٹ شامل تھے۔
مقررین نے پاکستان کی پالیسی سازی کے بحران پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بند کمروں میں بیٹھ کر بنائی گئی پالیسیاں کمزور ہم آہنگی اور غیر موثر نفاذ کا باعث بنتی ہیں۔ انہوں نے تزویراتی وضاحت کی عدم موجودگی، اور تبدیلی کے خواہاں اصلاح پسندوں اوررائج نظام کے حامیوں کے درمیان جاری اندرونی تناؤ کو ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر اجاگر کیا۔ ان کے مطابق یہ رسہ کشی پاکستان کے پالیسی سازی کے فریم ورک کے اندر ایک گہرے بحران کی عکاسی کرتی ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کی مثال پیش کی۔ اگرچہ سی پیک ترقی کا ایک نادر موقع فراہم کرتا ہے، لیکن مربوط اسٹریٹیجک پالیسیوں کی کمی اسکی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر اس معاملے پر توجہ اور تندہی سے کام نہ کیا گیا تو یہ بہترین موقع ضائع بھی ہو سکتا ہے، جو کہ وسیع سطح پر پالیسی کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جو کاروباوں، اور بالخصوص چینی سرمایہ داروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ قومی اتحاد اور تشخص کو مضبوط کرنے کے لیے قومی تعمیر کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ایک نظریاتی ریاست کے طور پر پاکستان کو اپنے بنیادی اصولوں پر اعتماد کے ساتھ عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ قیادت اور عام عوام دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے نظریاتی انتشار کے حوالے سے بھی خبردار کیا گیا۔
اقتصادی ترجیحات کی طرف رونما ہوتی عالمی تبدیلی، بالخصوص مسلم دنیا میں اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ پاکستان کو اپنی نظریاتی جڑوں سے جڑے رہتے ہوئے ان رجحانات سے سیکھنے کے لیے ایک توازن تلاش کرنا ہو گا۔ انہوں نے قومی اقدار کو بہتر طریقے سے بیان کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ادب، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں مقامی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ضرورت پرزور دیا۔
مقررین نے منفی اور معلوماتی جنگ سے لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی جو کہ ملک میں اسٹریٹجک فالج کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے ایک مثبت اور مستقبل کی طرف متوجہ قومی سمت کی ضرورت پر زور دیا ، جو پاکستان کی بنیادی نظریاتی اقدارکو بھر پور طریقے سے دوبارہ پیش کرے اور تعمیراتی قوم سازی پر زور دے۔
گفتگو میں اس بات پر زور دیا گیا کہ قوم کی ترقی ایک ایسے تعلیمی نظام سے جڑی ہوئی ہے جو جدید دور کے چیلنجز اور مواقع سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو اپنے ڈھانچوں میں اصلاحات کرنی ہوں گی تاکہ نوجوانوں کو عملی اور آگے کی سوچ رکھنے والے علم سے بہتر طور پر لیس کیا جا سکے۔ یہ اصلاح پاکستان کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے اور ترقی پذیر عالمی منظرنامے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
مقررین نے موجودہ نسل کی بڑھتی ہوئی بیداری اور عزم کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحیح تعلیمی ماحول کے ساتھ نوجوان تبدیلی کے طاقتور ایجنٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ پچھلی تعمیری کوششوں کا محدود اثر کیوں رہا۔
شرکاء کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو قومی ترقی کے لیے محرّک کے طور پر کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے نظامِ تعلیم کو انھیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو گا جہاں وہ اپنی آواز بلند کرسکیں اور قومی گفتگو میں بامعنی حصہ ڈال سکیں۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری ڈھانچے کی تشکیل اور طلبہ یونین جیسے پلیٹ فارمز کا اس طرح سے احیاء بھی شامل ہے کہ وہ نوجوانوں کی قیادت اور مشغولیت کے لیے انکیوبیٹر کا کام کریں۔ اسی طرح تعلیم غلط معلومات اور پانچویں نسل کی جنگ کے خلاف اسٹریٹجک لچک پیدا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
ڈیجیٹل دور کے مواقع کو دیکھتے ہوئے مقررین نے پاکستان کے اقتصادی اور سفارتی مستقبل کے لیے تکنیکی ترقی کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ نوٹ کیا گیا کہ عالمی سطح پر پاکستان کے پاس فری لانسرز کی تیسری بڑی ترین تعداد موجود ہے جو ترقی کے ایک اہم موقع کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ مقررین نے انٹرنیٹ آف تھنگز، ای کامرس اور جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس جیسی ٹیکنالوجیز میں بہتر پالیسیوں اور سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ، جو اقتصادی اور سفارتی کامیابی کے لیے بھرپور محرک بن سکتی ہے۔
تعلیم کے اسلامائزیشن کے عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مقررین نے تعلیمی مواد اور تدریس کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے زور دیا کہ علم کو نہ صرف حاصل کیا جائے بلکہ اس کا اطلاق عقیدے میں جڑے اخلاقی فریم ورک کے اندر بھی ہو۔ یہ ان افراد کی مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے جو فکری طور پر قابل، روحانی طور پر مستحکم، اور سماجی طور پر ذمہ دار ہیں۔
مزید برآں، مقررین نے پاکستان کے تعلیمی نظام کا پرائمری سے لے کر اعلیٰ سطح تک ایک جامع آڈٹ کرانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی تاکہ اس کی ملک کی سماجی و اقتصادی حقیقتوں سے ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نصاب کو پاکستان کی ترقیاتی ضروریات کی عکاسی کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے، طلباء کو عالمی مسابقت کے لیے درکار عملی مہارتوں سے آراستہ کرنا چاہیے۔
ان داخلی اصلاحات کے علاوہ مقررین نے سفارت کاری کے ایک آلے کے طور پر تعلیم کے وسیع تر وژن کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو ہمسایہ ممالک اور اس سے آگے موجود ہم منصبوں سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ یہ تعلیم کا استعمال کرکے مکالمے کو فروغ دینے، علاقائی مسائل حل کرنے، اور سماجی ترقی کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ شرکاء کا خیال تھا کہ تعلیمی سفارتکاری پاکستان کے عالمی تعلقات کو شکل دینے میں ایک اہم آلہِ کار بن سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ اس کی نوجوان نسل کی آوازیں بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سنی جائیں۔
مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش کٹھن چیلنجز کے باوجود ایک مشترکہ قومی چارٹر کے ذریعے اقتصادی استحکام، آئینی پابندی، اور قانون نافذ کرنے کے مضبوط نظام پر توجہ مرکوز کر کے موجودہ مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ملک کو استحکام و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ اس ویژن کو حاصل کرنے کے لیے تمام شعبوں میں جامع اور طویل مدتی گورننس اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ایک زیادہ اہل اور جوابدہ حکومت بنائی جا سکے۔ شفافیت کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ اندرونِ اور بیرونِ ملک مثبت تصویر پیش کرنے کی مشترکہ کوشش بھی اس تبدیلی کے لیے ضروری ہیں۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ بدعنوانی، انتظامی نا اہلی اور سیاسی پولرائزیشن جیسے مستقل مسائل ملکی ترقی کی راہ میں میں رکاوٹ ہیں۔ ایک جامع، طویل مدتی تبدیلی کا عمل جس میں تمام شعبوں میں گورننس اصلاحات کو شامل کیا گیا ہو، آگے بڑھنے کے راستے کے طور پر تجویز کیا گیا ۔ مزید برآں، داخلی تقسیموں پر قابو پانے اور قومی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے سچائی اور مفاہمت کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
زیر بحث اہم نکات میں سے ایک اہم نکتہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس منفی بیانیے کے اثرات تھے جس کے بیچ پاکستان گھِرا ہوا ہے۔ ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ غلط معلومات کا مقابلہ کرنا پاکستان کی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی زیادہ درست اور مثبت تصویر پیش کرنے کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف ملک کی بین الاقوامی حیثیت کو بہتر بنائے گا بلکہ قومی حوصلے کو بھی مضبوط کرے گا۔
گورننس اصلاحات میں سول سوسائٹی کا کردار بھی انتہائی اہم سمجھا گیا۔ ریاستی پالیسیوں کی مؤثر تشکیل و عمل درآمد کو یقینی بنانے پر مرکوز وکالت اور لابنگ کی کوششیں اصلاحاتی ایجنڈے کا اہم جُز قرار دی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اہم فیصلہ سازوں اور عوام سے رابطہ کرکے، اور خاص طور پر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں تحقیق کی ترسیل کرکے، سول سوسائٹی قومی گفتگو کو پُرامید اور تعمیری تبدیلی کی طرف منتقل کر سکتی ہے۔
اس کے ساتھ سول سوسائٹی، خاص طور پر ریسرچ کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ زیادہ فعال طریقے سے منسلک رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی رابطہ کاری بہتر پالیسی سازی کی رہنمائی میں مدد دے سکتی ہے، جو بالآخر ایک زیادہ مربوط اور موثر گورننس سسٹم کی طرف لے جائے گی۔
مقررین کے مطابق اصلاحاتی ایجنڈے کا ایک اور اہم عنصر حکومت کے اداروں کی صلاحیت سازی بھی ہوناچاہیے۔ وزارتوں میں کلیدی عہدوں پر فائز افراد کو پیچیدہ چیلنجز سے نمٹنے کا ہنر آنا چاہیے ، جو مؤثر حکمرانی اور پالیسی عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تربیتی پروگرامز، علم کا تبادلہ، اور ادارتی اصلاحات کی تجویز دی گئی تاکہ ایک زیادہ قابل اور جوابدہ حکومت بنائی جا سکے۔
اسپییکروں نے اقتصادی استحکام، آئینی پابندی، اور مضبوط طریقے سے قانون نافذ کرنے پر مرکوز ایک متحدہ قومی چارٹر کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے فلاحی کاموں کے جذبے کو قومی اثاثے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ چیلنجز کا سامنا باہمی تعاون سے کیا جا سکے۔ قومی ترقیاتی اہداف سے ہم آہنگ فلاحی کاموں کے اقدامات فوری سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کر سکتے ہیں اور طویل مدتی پائیدار ترقی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے خارجہ تعلقات کے حوالے سے موجودہ عالمی و علاقائی تناظر کو افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے ہمسایہ ممالک سے تعلقات دوبارہ تعمیر کرنے کا موقع سمجھا گیا۔ یہ تعلقات باہمی احترام، مشترکہ تاریخ، اور ایک ایسے آگے بڑھنے والے ایجنڈے پر مبنی ہونےچاہیے جو تمام فریقین کے مفادات کا خیال رکھے۔ علاقائی تعاون کو بہتر بنانا پاکستان کی اسٹریٹجک حیثیت کو بڑھانے اور وسیع تر علاقے میں امن و ترقی کو یقینی بنانے کا ایک کلیدی عنصر سمجھا گیا۔
گفتگو کا اختتام قومی اتحاد اور اصلاحات کے لیے مضبوط عزم کے مطالبے کے ساتھ ہوا۔ درپیش چیلنجز کے باوجود مقررین نے اس بات کا یقین دلایا کہ مسلسل کوششوں کے ساتھ پاکستان کی طویل مدتی مستحکم ترقی کے امکانات روشن رہیں گے۔
جواب دیں