پاکستان کو اپنی پناہ گزینوں کی پالیسی واضح طور پر بیان کرنی چاہیے: امبیسیڈر ابرار حسین
پاکستان کو ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام افراد کو ملک بدر کرنے کا قانونی حق حاصل ہے اور اس حق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم غیر قانونی افغانوں کے مسئلے کو ایک جامع انداز میں حل کیا جانا چاہیے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنی پناہ گزینوں کی پالیسی کو واضح طور پر بیان کرے۔
یہ بات سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)نے ‘افغان مہاجرین اور غیر قانونی مہاجرین: مسائل اور آگے بڑھنے کا راستہ’ کے موضوع پر انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز (آئی آرایس)، اسلام آباد میں 29 دسمبر 2023 کو منعقدہ ایک گول میز مباحثے کے دوران کہی۔
اس گول میز کانفرنس سے پشاور یونیورسٹی کی ڈاکٹر نورین نصیر، انسانی حقوق کی ماہر صبا فاروق، افغان خواتین کے حقوق کی کارکن صفیہ ابراہیم خیل اور سفیر ندیم ریاض، صدر آئی آر ایس نے بھی خطاب کیا۔
ابرار حسین کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان نے کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ اب جب کہ ملک میں امن ہے، یہ مناسب ہے کہ کم از کم غیر دستاویزی تارکین وطن اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ مزید یہ کہ پاکستان اب بھی 27 لاکھ کے قریب افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے اور تیسرے ممالک میں افغان مہاجرین کی آباد کاری میں بھی مصروف ہے۔
اگرچہ پاکستان کے غیر قانونی اور غیر دستاویزی تارکین وطن کی وطن واپسی کے اقدام نے خاص طور پر افغانوں میں بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے ، لیکن عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان کو ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام افراد کو ملک بدر کرنے کا قانونی حق حاصل ہے اور اس حق سے کوئِ انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خدشات ان مفروضوں پر مبنی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن، خاص طور پر افغانوں کو نکالنے کا فیصلہ جلد بازی میں اور مناسب منصوبہ بندی کے بغیر کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان کی حکومت واپس آنے والے تمام افغانوں کو سہولت فراہم کرنے کے قابل نہیں ہو سکتی ہے اور اس سے انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ اگر ایسا کوئی فیصلہ لینا تھا تو اس کے لیے صحیح وقت موسم سرما کا نہیں بلکہ موسم گرما کاتھا۔
تجارتی تعلقات پر پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ دیکھا گیا کہ غیر قانونی تارکین ِوطن کو نکالنے کی پالیسی سے دو طرفہ تجارت یا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ اسمگلنگ کو روکنے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اٹھائے گئے کچھ دیگر اقدامات تجارت کے آڑ میں اسمگلنگ میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں لیکن حقیقی افغان تاجروں کے لیے پاکستان اب بھی ایک پرکشش کاروباری شراکت دار ہے۔
اس موضوع پر مزید بات چیت بھی کی گئی کہ بین الاقوامی تنظیمیں جیسے کہ یو این ایچ سی آر، انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن غیرہ افغانستان میں موجود دیگر عوامل سے فائدہ اٹھانے کے لیے تعمیری مشغولیت اور تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔اس کے لیے درکار ایک بڑا اہم عنصر یعنی امن پہلے ہی موجود ہے۔ دیگر عوامل میں رہائش کے لیے جگہ، زمین کا ایک ٹکڑا، کاروبار شروع کرنے کے لیے مالی امداد، اور سرکاری ملازمتوں میں پناہ گزینوں کے لیے کچھ کوٹے شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک جامع نقطہ نظر کے تحت دوسرے ممالک میں افغان مہاجرین کے لیے مراعات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔
جواب دیں