پاکستان کو سندھ طاس معاہدے پر فعال حکمت عملی اور قانونی کارروائی اپنانا ہوگی: ماہرین
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے (Indus Water Treaty) کو ‘معطل’ قرار دینے کے حالیہ دعوے کے بعد، پاکستان کے لیے ایک تزویراتی موقع پیدا ہوا ہے کہ وہ معاہدے پر اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے، اپنے آبی حقوق کو مؤثر انداز میں اجاگر کرے، اور بین الاقوامی قانونی و ماحولیاتی فورمز پر اس معاہدے کی ساختی خامیوں کو سامنے لائے۔
یہ اتفاق رائے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز)آئی پی ایس(، اسلام آباد میں۲مئی ۲۰۲۵ کو منعقدہ سیمینار "سندھ طاس معاہدہ ‘معطل’: پاکستان کے لیے مضمرات اور تزویراتی راستے” میں سامنے آیا۔ مقررین میں ممتاز ماہر آبیات ڈاکٹر حسن عباس، سابق وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی مرزا حمید حسن، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان، کمانڈر (ر) اظہر احمد اور پبلک پالیسی کی ماہر و وکیل آمنہ سہیل شامل تھے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کو پاکستان کے لیے تحفظ فراہم کرنے والا سمجھا جاتا ہے، لیکن درحقیقت یہ کئی ساختی خامیوں کا حامل ہے جو بھارت کو غیر متناسب فائدہ دیتے ہیں۔ ان میں پانی کی غیر مساوی تقسیم، رخ موڑنے کی گنجائش، آلودگی کی اجازت، اور پاکستان کے بطور زیریں ریاست محدود حقوق شامل ہیں۔
ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ آبی تنازعہ آزادی کے فوری بعد شروع ہوا، اور بھارت نے معاہدے پر دستخط سے قبل ہی بڑے آبی منصوبوں کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ انفراسٹرکچر، سفارت کاری اور چالاک معاہدوں سے لڑی جاتی ہیں۔
انہوں نے معاہدے کو ایک "قبضہ معاہدہ” قرار دیا اور زور دیا کہ پاکستان کو ردعمل کی بجائے ایک فعال، طویل المدتی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی انصاف اور پائیدار آبی استعمال کے عالمی رجحانات پاکستان کو ایک بہتر پوزیشن میں لا سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ ادارہ جاتی صلاحیت، سائنسی ڈیٹا اور سیاسی عزم پیدا کرے۔
ڈاکٹر عباس نے تجویز دی کہ پاکستان کو اپنے دریاؤں کو صرف سلامتی کے مسئلے کے بجائے علاقائی اقتصادی ترقی کا ذریعہ بھی سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے عرب سمندر سے جلال آباد (افغانستان) تک ممکنہ تجارتی راہداری کا تصور پیش کیا جو وسطی ایشیائی ریاستوں سے روابط کو فروغ دے سکتی ہے۔
سیمینار میں بھارت کے اس دعوے پر بھی بات کی گئی کہ معاہدہ "معطل” ہے۔ شرکا نے وضاحت کی کہ IWT میں نہ معطلی اور نہ ہی ‘ابے اینس’ کی کوئی گنجائش موجود ہے، لہٰذا ایسے یکطرفہ دعوے قانونی طور پر بے بنیاد ہیں۔ تاہم، یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک سیاسی اور قانونی موقع ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف کو مؤثر انداز میں پیش کرے۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی اصولوں جیسے ‘پہلے استعمال’ (Prior Use) اور ‘پہلے قبضہ’ (Prior Appropriation) کو بنیاد بنا کر اپنا مقدمہ پیش کرے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزیوں اور غیر مجاز پانی کے استعمال کے خلاف عالمی بینک، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی قانونی فورمز پر آواز اٹھائے۔
خالد رحمان نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی تاریخی طور پر دفاعی رہی ہے۔ انہوں نے فعال سفارتی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جو نہ صرف پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی معاہدوں پر عمل درآمد کی ساکھ کو بھی چیلنج کریں۔
مرزا حمید حسن نے خبردار کیا کہ IWT کی دوبارہ مذاکرات میں سیاسی، قانونی اور مالیاتی خطرات شامل ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو موجودہ معاہدے پر عملدرآمد کے نفاذ، خاص طور پر ڈیٹا شیئرنگ کے معاملے پر توجہ دینی چاہیے اور اس کی خلاف ورزیوں کو عالمی اداروں تک لے جانا چاہیے۔
اظہر احمد نے کہا کہ پاکستان کو اپنے آبی وسائل کے تحفظ کے لیے تکنیکی اور قانونی مہارت میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ علم اور نیت ہی تبدیلی کے لیے سب سے اہم عناصر ہیں، اور طویل المدتی ادارہ جاتی صلاحیت کی تعمیر ناگزیر ہے۔