پاکستان کو کثیرالجہتی دنیا میں اپنی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا: ماہرین

پاکستان کو کثیرالجہتی دنیا میں اپنی جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا: ماہرین

بین الاقوامی و دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ تنازعہ تہذیبی تصادم ہے جس کی جڑیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات میں ہیں، پاکستان کو اپنی فوجی و معاشی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، پاکستان کو اپنی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک متحد اور واضح قومی نقطہ نظر اپنانا ہوگا۔ ضروری ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات استوار کرے، معاشی اور فوجی مضبوطی کو یقینی بنائے، اور داخلی یکجہتی کو فروغ دے۔  ایک جامع قومی بیانیہ تشکیل دینا، نظریاتی تقسیم اور انفارمیشن کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا بھی اہم ہیں۔

ان خیالات کا اظہار دفاعی و بین الاقوامی امور کے ماہرین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس ) میں ۹ مئی ۲۰۲۵ کو منعقدہ سمینار سے خطاب میں کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر انیلا شہزاد کی تصنیف "جیو پولیٹکس: کثیرالجہتی دنیا میں فریم ورکس اور ڈائنامکس” کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ یہ کتاب اقوام کے درمیان متوازن تعلقات کو فروغ دینے کے چیلنجز اور مواقع پر روشنی ڈالتی ہے۔

تقریب میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کلیدی خطاب کیا، جبکہ دیگر مقررین میں سابق سفیر نغمانہ ہاشمی، یونیورسٹی آف واہ کے سوشل سائنسز کے سابق ڈین ڈاکٹر نذیر حسین ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خرم اقبال، بحریہ یونیورسٹی کے ہیومینٹیز اینڈ سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر آدم سعود ، دفاعی ماہربریگیڈیئر (ر) سید نذیر ، آئی پی ایس ایسوسی ایٹ ڈاکٹر طغرل یامین ، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس اور سابق سفیر سید ابرار حسین اور انیلا شہزاد شامل تھے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر مسعود خان نے کہا کہ پاکستان تاریخی طور پر امریکہ پر سلامتی کے لیے انحصار کرتا رہا ہے، لیکن اب چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کے ساتھ متناسب تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بغیر اس کے حقیقی توازن ممکن نہیں۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ تنازع کو تہذیبی تصادم قرار دیا، جس کی جڑیں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات میں ہیں، اور پاکستان کو اپنی فوجی و معاشی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے پر زور دیا۔

سابق سفیر  نغمانہ ہاشمی نے چین کے ساتھ مضبوط اور مخلصانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ بھی کثیرالجہتی تعلقات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ گہرے تعلقات پر دباؤ بڑھے گا، اس لیے ان تعلقات کو احتیاط سے سنبھالنا ہوگا۔

ڈاکٹر خرم اقبال نے کہا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو کثیرالجہتی حقیقت کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ عالمی سطح پر نئے اتحاد بن رہے ہیں، جنہیں پاکستان کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

انیلا شہزاد نے افغانستان، پاکستان، کشمیر کے ذیلی خطے کے تصور پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس خطے کی ترقی جنوبی ایشیا کے مستقبل کو تشکیل دے گی۔ انہوں نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو خطے کی معاشی تبدیلی کا اہم محرک قرار دیا۔

ڈاکٹر نذیر حسین نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں مغربی نظریات کی بالادستی ہے، اس لیے علم کے نظاموں کو نوآبادیاتی اثرات سے پاک کرنا ہوگا اور مقامی نظریات کو اپنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی سیاسی اہمیت مستقل ہے، اسی لیے عالمی طاقتیں بین الاقوامی اداروں کے ذریعے اس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔

ڈاکٹر آدم سعود نے غیر ریاستی عناصر، عوامی رجحانات، معلوماتی جنگ، اور معاشی پابندیوں جیسے نئے عالمی رجحانات کی طرف اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تبدیلیاں نئے تجزیاتی فریم ورکس کا تقاضا کرتی ہیں۔

بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے کہا کہ جغرافیائی سیاسیات کی گہری سمجھ بوجھ ضروری ہے، کیونکہ یہ ایک اسٹریٹجک طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ انہوں نے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کو خطے میں عدم استحکام کا سبب قرار دیا۔

ڈاکٹر طغرل یامین نے کہا کہ مغرب کا کثیرالجہتی نظام سے پیچھے ہٹنا اور جارحانہ پالیسیاں اپنانا، درحقیقت کثیرالجہتی دنیا میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے مقامی تجربات پر مبنی متبادل بیانیوں اور اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

سابق سفیر ابرار حسین نے کہا کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بین الاقوامی رابطے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کو سنبھالنا پاکستان کی طویل المدتی اسٹریٹجک اہمیت کے لیے ضروری ہے۔

خالد رحمن نے اختتامی کلمات میں کہا کہ جیو پولیٹکس کے اصول تو یکساں ہیں، لیکن متغیرات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ انہوں نے تنگ نظری سے پاک ہو کر عوامی جذبات اور اشرافیہ کی پالیسیوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔

شرکاء نے انیلا شہزاد کی کتاب کو اس کی فکری گہرائی، واضح بیان، اور مغربی بالادستی کے نظریات کو چیلنج کرنے کی جرأت پرسراہا۔

Share this post