’پاکستان کے لیے کوپ27کے بعد کی حکمتِ عملی: موسمیاتی فنانسنگ اور ڈی کاربنائزیشن‘
ماہرین کی طرف سے کلائمیٹ چینج اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ
پاکستان کے اپنا ماحولیاتی نظم و نسق کا ڈھانچہجامع طور پر فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی موسمیاتی فننانسنگ کےتحت ’نقصان اورضرر‘ فنڈ کے ضمن میں مدد حاصل کی جا سکے۔کلائمیٹ چینج اتھارٹی کو مزید تاخیر کے بغیر تشکیل دیا جانا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی آفات کو کم کرنے اور عالمی برادری سے موسمیاتی فنانسنگ اور معاوضے کے حصول کے لیے ریاست کی طرف سے تمام سطحوں پر جامع پالیسی، قانون سازی اور گورننس کے میکانزمز کی ضرورت ہے۔
یہ مطالبہ ’پوسٹ کوپ 27 اسٹریٹیجی فار پاکستان: کلائمیٹ فنانسنگ اینڈ ڈی کاربونائزیشن‘ کے عنوان سےہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا جو 16 دسمبر 2022 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)کے زیر اہتمام منعقد ہوا ۔ اس مقالمے کامقصدیہ تھا کہ مصر میں منعقد ہونے والی اقوام متحدہ کی 27ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ضروری تخفیف اور موافقت کے اقدامات پر غور کیا جا سکے۔
اجلاس کی صدارت آئی پی ایس سٹیئرنگ کمیٹی برائے توانائی، پانی اور موسمیاتی تبدیلی کے چیئرپرسن اور سابق وفاقی سیکرٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن نے کی۔ اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں خالد رحمن، چیئرمین آئی پی ایس؛ ڈاکٹر محمد عرفان خان ، ڈین انوائرمینٹل سائنسز، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد؛ سیدہ حدیقہ جمشید،ماہر موسمیاتی پالیسی ، وزارت موسمیاتی تبدیلی؛ سید عقیل حسین جعفری، ڈائریکٹر، پالیسی اینڈ انٹرنیشنل کوآپریشن، متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ؛ ڈاکٹر شفقت منیر احمد، ڈائریکٹر، ریزیلی اینٹ ڈویلپمنٹ پروگرام، ایس ڈی پی آئی؛ ڈاکٹر کنور محمدجاوید اقبال، جنرل سیکرٹری، پاکستان پینل فار کلائمیٹ چینج (پی پی سی سی )اور لبنیٰ ریاض، تحقیق کار آئی پی ایس شامل تھے۔
ماہرین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 کی منظوری کے باوجود کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور کلائمیٹ چینج کونسل کی تشکیل ابھی تک ایک مشکل کام ہی بنا رکھا گیا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس نازک قومی مسئلے کو ترجیح دینی چاہیے۔
موسمیاتی فنانسنگ کے بارے میں بصیرت افروز تبادلہ خیال کرتے ہوئے مقررین نے کوپ27میں پاکستان کے مؤقف اور کردار کو تسلیم کیاجس میں یہ کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص ترقی یافتہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن نتائج اور کمزور ممالک کو ہونے والےاس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے لیےمالی امداد کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا جائے۔یہ احساس مقصد کی طرف فعال پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم، مقررین نے کہا کہ پاکستان کو قومی سطح پر بھی حتمی اقدامات کرنے چاہییں کیونکہ آب و ہوا کا معاوضہ جو بھی ہو، اس سے موسمیاتی اثرات کے خلاف مستقبل کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جا سکےگا۔ غربت کی بڑھتی ہوئی شرح اور ناقص انسانی ترقی کے ساتھ، یہ تو بہت حد تک نظر آتا ہے کہ پاکستان مستقبل میں کمزورہی رہے گا۔
مقررین نے مشورہ دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے بحرانوں کی پیش بندی کے طور پریہ ضروری ہے کہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ کارپوریٹ سیکٹر کے اندر بھی ملک کو سرسبز بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں،مقامی میکانزم کو مضبوط کیا جائے اور اس کے لیے درکارقانون سازی کی جائے۔
مزید برآں، جیسا کہ ماہرین نے مشاہدہ کیا ہے، تعمیر نو اور سماجی ترقی سمیت سیلاب سے بحالی کے لیے 16 بلین ڈالر کی ضرورت کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ طبی دیکھ بھال اور خوراک کی فراہمی سمیت ثانوی بحالی کے اخراجات اس اعداد و شمار سے تجاوز کر جائیں گے۔ لہذا، صرف موسمیاتی فنانسنگ سے چیزیں بہتر نہیں ہو سکتیں۔
مقررین نے ڈی کاربنائزیشن کی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلے ہی قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے پاور سیکٹر کو ڈی کاربنائز کرنے کا عزم ظاہر کر کے خود کو ایک ذمہ دار قوم کے طور پر پیش کر چکا ہے اور نان فوسل فیول پر مبنی بجلی کی پیداوارکا 60فیصد حصہ اس دہائی کے آخر تک حاصل کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اس طرح کے موافقت کے اقدامات وقت کی بنیادی ضرورت ہیں۔ تاہم، مستقبل کی تیاری کے لیے، تخفیف کے اقدامات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔
مقررین نے بہتر ماحولیاتی نظم و نسق کے لیے پالیسی، قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا، جو کہ ملک میں موسمیاتی فنانسنگ کی موثر تقسیم کے لیے بھی لازمی ضرورت ہے۔ چونکہ پاکستان مستقبل میں غیر محفوظ ہی نظر آتا ہے، اس لیے اسٹیک ہولڈرز کواس مقصد کے لیے بین الاقوامی سطح پر ہر ممکن بات چیت اور لابنگ جاری رکھنی چاہیے۔
ماہرین نے زور دیا کہ اس سلسلے میں، صحیح حکمتِ عملی کے ذریعے فنڈز کے مناسب انتظام کو یقینی بنانے کے لیے ایک موسمیاتی اتھارٹی کا قیام ضروری ہے۔ ان حکمت عملیوں کو آفات سے بحالی کے لیے مختصر، درمیانی اور طویل مدتی اقدامات قرار دیا جا سکتا ہے۔
مزید برآں، فنڈز کی تقسیم کے لیے آب و ہوا کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا تجزیہ جانی نقصانات، مالیاتی نقصان، خوراک کی کمی، اور آفت زدہ علاقوں میں ادویات کی ضروریات کے درست اعداد و شمار پر مبنی ہونا چاہیے۔
سیشن کے اختتام پر، خالد رحمٰن نے کہا کہ ہر اسٹیک ہولڈر کوچاہیے کہ وہ آب و ہوا سے پیدا ہونے والے خطرات کو دیکھے اوران کے نتیجے میں آنے والی آفات کو کم کرنے کی کوششوںمیں تیزی لانےکی ضرورت کو سمجھے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ،آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے خلاف کوششوں کے کامیاب نتائج کو آگے بڑھانے کے لیے، موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے کے لیے طرزِ حکمرانی بہتر بنانے اور موسمیاتی خطرات کے خلاف ردعمل کواستحکام دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی ترقی کے نمونے کو ایک مخمصے کے ساتھ نشان زد کیا گیا ہے، جس میں ریاستیں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتائج کو حل کرنا چاہتی ہیں جبکہ ترقی کی قیادت والی پیداوار کا بھی مقصد رکھتی ہیں، جو کہ فطری طور پر موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہے۔
بین الاقوامی ترقی کا پیمانہ ایسے عوامل سے جڑا ہے کہ ریاستیں موسمیاتی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنا اور ان کے نتائج کو حل کرنا چاہتی ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ ترقی میں پیداواری ہدف بھی سامنے رکھتی ہیں جو کہ فطری طور پر موسمیاتی تبدیلی کا سبب بنتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پرترقی کےاس پیمانے میں چھپے مخمصوں کو چیلنج کیا جانا چاہیے اور اسے مباحثوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف کوششوں میں ایک ایجنڈہ کے طور پر رکھا جانا چاہیے۔
جواب دیں