پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر، بجٹ میں متعلقہ اقدامات کو شامل کرنا انتہا ئی ضروری ہے، معاشی ماہرین

پاک بھارت کشیدگی کے پیش نظر، بجٹ میں متعلقہ اقدامات کو شامل کرنا انتہا ئی ضروری ہے، معاشی ماہرین

آئی ایم ایف  پروگرام کو عارضی معاشی ریلیف کے بجائے پائیدار، طویل المدتی ترقی میں تبدیل کرنا بنیادی چیلنج ہے۔ آئی پی ایس کے زیر اہتمام سمینار سے خطاب

حالیہ پاک  بھارت کشیدگی کے پیش نظر، بجٹ کی ترجیحات میں متعلقہ اقدامات کو شامل کرنا انتہا ئی ضروری ہے، بجٹ میں پانی کے انتظام کے چیلنجز اور سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر توجہ دینا ہوگی ،آئندہ مالی  بجٹ کے اقدامات کو اڑان پاکستان کے پانچ سالہ منصوبے کے طویل المدتی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ بجٹ میں جامع اور منصفانہ اقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے جامع اقدامات انتہائی ضروری ہیں، سیاسی استحکام نہ صرف پائیدار اقتصادی ترقی بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بڑھانے اور ڈھانچی جاتی اصلاحات کے حصول کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

آئی ایم ایف کے ہر پروگرام نے وقتی اقتصادی استحکام تو فراہم کیا ہے، لیکن اس عارضی ریلیف کو پائیدار، طویل المدتی ترقی میں تبدیل کرنا بنیادی چیلنج ہے۔ جامع اصلاحات کے بغیر ملک اسی چکر میں پھنسا رہے گا۔

یہ سفارشات معاشی و اور تعلیمی ماہرین نے ادارہ برائے پالیسی مطالعات) آئی پی ایس (اسلام آباد میں۲۲ مئی ۲۰۲۵ کوس منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سمینار کا عنوان ’وفاقی بجٹ ۲۰۲۵-۲۶: اڑان پاکستان کے تحت اسٹریٹجک ترجیحات اور پاک بھارت کشیدگی کے اثرات‘  تھا۔ مقررین میں سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود ، سابق پرنسپل اکنامک ایڈوائزر ثاقب شیرانی،وزارت منصوبہ بندی کے سابق جوائنٹ چیف اکانومسٹ ظفر الحسن الماس، اور چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمان شامل تھے۔

مقررین نے کہا کہ پاکستان 1988 سے اب تک آئی ایم ایف کے چودہویں پروگرام میں ہے۔ آئی ایم ایف کے ہر پروگرام نے وقتی اقتصادی استحکام تو فراہم کیا ہے، لیکن اس عارضی ریلیف کو پائیدار، طویل المدتی ترقی میں تبدیل کرنا بنیادی چیلنج ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جامع ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر ملک اسی چکر میں پھنسا رہے گا۔

ماہرین نے زور دیا کہ سالانہ بجٹ پر ضرورت سے زیادہ توجہ اسٹریٹجک اقتصادی منصوبہ بندی کو کمزور کرتی ہے۔ 5 سے 10 سالہ وژن کے بغیر بجٹ بنانے سے ترقی کا واضح راستہ نہیں ملتا۔ موجودہ جیو پولیٹیکل تناظر میں، خاص طور پر بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر، بجٹ طویل المدتی ترجیحات کے بجائے فوری ضروریات کی طرف جھک سکتا ہے۔

ماہرین نے اقتصادی صورتحال میں حالیہ بہتری کو تسلیم کیا، جس میں کم افراط زر، مستحکم ادائیگیوں کا توازن، مضبوط کرنسی، اور اسٹاک مارکیٹ میں بحالی شامل ہے لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مثبت اشاریے عارضی اقدامات کی وجہ سے ہیں نہ کہ ساختی پالیسی تبدیلیوں کی وجہ سے۔ کلیدی اصلاحات، بشمول پنشن نظام کی تجدید، جامع اور ادارہ جاتی ہونی چاہئیں۔

مقررین کا کہنا تھا کہ بلند شرح نمو کے بجائے اقتصادی استحکام فوری ترجیح ہے۔ تاہم، موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باوجود 4-5 فیصد نمو کا ہدف حاصل کرنا ممکن اور ضروری ہے۔ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے حکومت کو برآمدات کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مخصوص مراعات اور کاروبار دوست ماحول فراہم کرنا ہوگا۔

ماہرین نے اڑان پاکستان کو کاغذ پر ایک شاندار اسٹریٹجک اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا عملی نفاذ یا حکومتی اقدامات میں کوئی واضح تاثر نظر نہیں آتا۔ آنے والا بجٹ اس منصوبے کے وژن کو عملی شکل دینے کا اہم موقع ہے۔ ماہرین نے کہا کہ بجٹ کے فیصلوں کو اڑان پاکستان کی اسٹریٹجک سمت کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے تاکہ جی ڈی پی کے تناسب میں برآمدات کو بڑھایا جا سکے، آئی ٹی سیکٹر کو مضبوط بنایا جا سکے، ماحولیاتی استحکام اور موسمیاتی لچک کو فروغ دیا جا سکے، اور سبز توانائی کی طرف منتقلی کو سپورٹ کیا جا سکے۔

اختتامی کلمات میں، خالد رحمان نے زور دیا کہ ملک کے سامنے چیلنج محض اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی معیشت کے مسائل اور پالیسی سازی میں عدم استحکام  بڑی وجوہات ہیں انہوں نے کہا کہ حکومتوں میں پالیسی تسلسل کو برقرار رکھنا مستحکم اور قابل اعتماد کاروباری ماحول کے لیے ضروری ہے۔ اقتصادی اشاریے میں حالیہ بہتری قابل تعریف ہے، لیکن قلیل المدتی اقتصادی نمو کو طویل المدتی ترقی میں تبدیل کرنا ہوگا تاکہ عوام کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ انہوں نے ملک کی معاشی اور سماجی فلاح میں نجی سماجی شعبے کے اہم کردار کو بھی اجاگر کیا۔

Share this post