’پوسٹ ٹروتھ ایرا: ٹرینڈز ان میڈیا‘
جعلی خبروں کو صریح جھوٹ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے: ڈاکٹر نیکو کارپینٹیئر
جعلی خبروں کو صریح جھوٹ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے: ڈاکٹر نیکو کارپینٹیئر
وہ’خبر‘ نہیں ہے جو سچائی پر مبنی نہ ہو کیونکہ وہ خبر کے بنیادی مقصد کو پورا نہیں کرتی ہے جوکہ ’معاشرے کی بھلائی ‘ ہوتا ہے۔
اس پہلو پر گفتگو 15-16 فروری 2022 کو جامعہ کراچی میں منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی میڈیا کانفرنس کے پہلے اجلاس میں قومی اور بین الاقوامی مقررین کے پینل نے کی جس کا عنوان تھا ’پوسٹ ٹروتھ ایرا: ٹرینڈز ان میڈیا ‘۔ یہ کانفرنس یونیورسٹی آف کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ، سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن، گرین وچ یونیورسٹی، اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)، اسلام آباد کے مشترکہ تعاون سے منعقد ہوئی۔
کانفرنس کی صدارت وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کی اور اس کی مہمان خصوصی گرین وچ یونیورسٹی کی وائس چانسلر سیما مغل تھیں۔ افتتاحی سیشن کے مہمان خصوصی سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین تھے، جبکہ سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ آف پاکستان سلیم مانڈوی والا نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔
کانفرنس کے پہلے سیشن میں چارلس یونیورسٹی، پراگ، کےپروفیسر نیکو کارپینٹیر؛ اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل ماسٹرز ان کمیونیکیشن پروگرام، یونیورسٹی آف گوتھنبرگ، سویڈن کے ڈاکٹر ایلس سرگیس نے کلیدی مقررین کے طور پر خطاب کیا۔ سیشن میں سہولت کار کے فرائض ثمینہ قریشی، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی نےادا کیے جبکہ سیشن کے دیگر پینلسٹ میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، پنجاب یونیورسٹی میں اسکول آف کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم، کراچی میں امریکی قونصلیٹ میں سیاسی امور کے سابق مشیر ڈاکٹر معظم علی ہاشمی اور ڈیلی ڈان کے صحافی مبارک زیب خان شامل تھے ۔
جدید جمہوریتوں کے لیے ایک چیلنج کے طور پر غلط معلومات اور جعلی خبروں کے اثرات پر بحث کرتے ہوئے، کلیدی مقرر پروفیسر ڈاکٹر نیکو کارپینٹیئر نے سابق امریکی صدر کی طرف سے الیکشن مہم کے دوران اور صدر بننے کے بعددیے گئےمختلف گمراہ کن بیانات کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ ”یہ مشکل امر ہے کہ اس کا آغاز سابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ سے نہ کیا جائے“۔
سپیکر نے دنیا بھر میں جعلی خبروں کے ذریعے غلط معلومات کو وسیع پیمانے پر پھیلائے جانے پر شدیدتنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ جعلی خبروں کو پرکھ کر انہیں جھوٹ قرار دیا جانا چاہیے اور اسی کے مطابق ان پر کارروائی کی جانی چاہیے۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ”جھوٹی خبر یا غلط معلومات کے پھیلاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے، جعلی خبروں کو کھلا جھوٹ قرار دیا جانا چاہیے۔“ اور یہ کہ’’سیاسی جھوٹ کی بھی تمیز ہونی چاہیے‘‘۔
ڈاکٹر ایلس سرگیس نے بحرانی دور کی ابلاغ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے وضاحت کی کہ بحران کے مواصلاتی عمل میں متعدد آوازیں شامل ہوتی ہیں جو بھیجنے والے اور وصول کرنے والے دونوں ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ، اس کے خلاف، اس کے بارے میں، بات چیت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ایلس کے مطابق، مواصلات کے ’حاکمانہ‘ قبضے سے بچنے کے لیے [جو غلط معلومات اور جعلی خبروں کا باعث بنتا ہے]، ہمیں بحران سے متاثر لوگوں کے لیےابلاغ میں ہمدردی کو مضبوط کرنے، قربانی کا بکرا بنانے اور خاموشی اختیار کرنے سے گریز کرنے اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کو سننے اور ان سے بات کرنے کے لیے مناسب وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
خالدرحمٰن نے نشاندہی کی کہ کانفرنس کا پہلا دن 15 فروری،’پوسٹ ٹروتھ ایرا‘ کے عنوان سے ایک یادگار دن ہے کیونکہ اسی دن 2003 میں، امریکہ نے عراق پر حملہ کرنے کا فیصلہ اس بہانے کیا تھا کہ عراقی حکومت کے پاس ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ ہیں، جو بعد میں رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے ایک گھڑی ہوئی گمراہ کن اطلاع ثابت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ” جب جعلی خبر ایک فرد سے دوسرے تک پہنچتی ہے تو نقصان محدود ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ ادارہ جاتی ہو جاتی ہےتو اس سے بھی بدتر ہو جاتی ہے اور جب اسے حکومتیں ترتیب دیتی ہیں تو اس کا اثر تباہ کن ہو جاتا ہے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” جدید ٹیکنالوجی کے اضافہ نے اس کی ترسیل کی رفتار، پھیلاؤ اور دائرہ کار کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اس پیش رفت نے نہ صرف انسانی معاشروں کو مزید نقصان پہنچانے کے امکانات کو بڑھا دیا ہے، بلکہ جمہوری اور تہذیبی نظام کی روح پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے“۔
پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم نے بھی سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کے ذریعے ’جعلی خبروں‘ کے پھیلاؤ کے مسئلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ جدید دور میں سوشل میڈیا ایپلی کیشنز جعلی خبروں اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کوپہیہ لگا دیتی ہیں۔
ڈاکٹر معظم نے بھی پوسٹ ٹروتھ کے رجحان پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج صحافی جن مسائل کو اٹھا رہے ہیں، جن پربحث کر رہے ہیں یا ان کا احاطہ کر رہے ہیں، ان کے پس منظر سے پوری واقفیت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے۔
دو روزہ کانفرنس کے دیگرسیشنز سے خطاب کرنے والے مقررین میں پروفیسر لی آرٹز، ڈائریکٹر، سنٹر فار گلوبل اسٹڈیز، پرڈیو یونیورسٹی نارتھ ویسٹ، امریکہ؛ پروفیسر چیرین جارج، ایسوسی ایٹ ڈین، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، سکول آف کمیونیکیشن، بیپٹسٹ یونیورسٹی، ہانگ کانگ ؛ ، ڈاکٹر عشرت معین سیما، سینئر صحافی اور شاعر، پاکستان جرمن پریس کلب، برلن، جرمنی؛ پروفیسر ییہنگ ڈینگ، شنگھائی انٹرنیشنل اسٹڈیز یونیورسٹی، شنگھائی، چین؛ ڈاکٹر محمد نور علادوان، اسسٹنٹ پروفیسر، کمیونیکیشن اینڈ میڈیا ڈیپارٹمنٹ، العین یونیورسٹی، متحدہ عرب امارات ؛ ڈاکٹر فوزیہ ناز، چیئرمین شعبہ ابلاغ عامہ، جامعہ کراچی؛ پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس، ڈین،فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز، جامعہ کراچی؛ ضرار کھوڑو، سینئر صحافی اور میزبان ڈان نیوز، کراچی؛ نگہت داد ، بانی ڈائریکٹر، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، لاہور؛ ڈاکٹر عرشی سلیم ہاشمی، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، پیس اینڈ کانفلکٹ اسٹڈیز، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) اسلام آباد؛ ڈاکٹر فیض اللہ جان، ایسوسی ایٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف پشاور؛ ڈاکٹر عابدہ اشرف، پروفیسر، اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی، لاہور؛ ڈاکٹر ذوالفقار قریشی، ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف سندھ؛ ظہور علی شریف، سی ای او ایشیاٹک پبلک ریلیشنز نیٹ ورک؛ ڈاکٹر سلمیٰ امبر، اسسٹنٹ پروفیسر، ماس کمیونیکیشن، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد؛ ڈاکٹر سید عبدالسراج، ڈین، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی(اے آئی یو)، اسلام آباد؛ ڈاکٹر ایاز احمد صدیقی، گرین وچ یونیورسٹی ؛ اور شعبہ ابلاغ عامہ، کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر رانا افضل، ڈاکٹر سعدیہ محمود، ثمینہ قریشی، ڈاکٹر سید اظفر علی، ڈاکٹر نوید اقبال، ڈاکٹر عظمیٰ قاضی، ہما ظفر راؤ اور سید محمد عباس رضوی شامل تھے۔
جواب دیں