’ پیٹرنز اینڈ پراسیسز آف رجیم آسیلیشنز اِن ساؤتھ اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیا‘
اشرافیہ کے درمیان متفقہ اتحاد جمہوریت کو مضبوط کرنے کا واحد راستہ سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کو ایک پائیدار، پرامن، اور جامع سیاسی تصفیہ یا سماجی معاہدے کی ضرورت ہے، اور یہ سیاسی، عسکری اور اقتصادی اشرافیہ کے درمیان اتفاق رائےپیدا کر کےممکن بنایاجاسکتا ہے۔ یہ ایک جمہوری مضبوط حکومت کی تشکیل کے لیے ضروری ہے جو سماجی و اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کو جنم دے سکے۔
یہ خیالات ریسرچ سکالر اور ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں’انسٹی ٹیوٹ فر پولیٹیشے وِسنس شافٹ‘ کی فیکلٹی آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کے امیدوار انیش مشرا نے پیش کیے، جنہوں نے 16 جنوری 2023 کو آئی پی ایس میں ’پیٹرنز اینڈ پراسیسز آف رجیم آسیلیشنز ان ساؤتھ اینڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیا‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کیا۔ ریسرچ انیشیٹو (ٹی ڈی آئی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نذیر احمد مہر کی زیر صدارت اس اجلاس میں ایمبیسیڈر (ر) نصر اللہ خان نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
مشرا نے کہا کہ چونکہ پاکستان میں آزادی کے بعد سے متعدد حکومتی تبدیلیوں کا مشاہدہ ہوتا رہا ہے، اس لیےسیاسی نظام ،ضوابطکے مجموعے ، اقتدار کی منتقلی کے طریقہ کار اور پالیسی فریم ورکس کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی مسلسل کوششوں کےباعث حکومتوں کی تبدیلی ایک رجحان کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ حکومت کی تبدیلی استحکام لانے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے ایک صحت مندبات ہے، لیکن نظامِ حکومت کی تبدیلی ایک مخالف ماحول پیدا کرتی ہے، اور پاکستان میں حکومتی تبدیلیوں سے زیادہ نظامِ حکومت تبدیل ہوتے رہے ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں نظام حکومت کے لڑکھڑاتے رہنے کے اس طرزِعمل کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے، لیکن اس میں اہم کردار ادا کرنے والا ایک اہم عنصر منقسم اشرافیہ یا اس میں اتفاق رائے کا فقدان ہے، جو، بدلے میں، جمہوری سیاسی تبدیلیوں اور جمہوری ٹوٹ پھوٹ کے ذریعے سیاسی حکومتوں میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک اشرافیہ کی تشکیل کا عمل تقسیم کی بجائے اتحاد کی طرف نہیں لایا جاتا، ملک میں جمہوریت کا استحکام ممکن نہیں اور نہ ہی اقتدار کی منتقلی کا عمل پرامن بنایا جا سکتا ہے۔
پائیدار اور جامع سیاسی تصفیہ کا فقدان ایک اور عنصر ہے جو غیر مستحکم نظام حکومت میں حصہ ڈالتا ہےاور پھر یہ آنے والے عدم استحکام کا حصہ بن کر مزید تباہی لاتا ہے۔ یہ خارجی نوعیت کا سماجی معاہدہ پاکستان میں حکومتوں کے لڑکھڑاتے رہنے میں ایک کارگر طریقہ کار کے طور پر کام کر رہا ہے۔
پاکستان کی اشرافیہ کے متفقہ اتحاد اور سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے طریقہ کار کی ناپختگی سےاس طرز کو مزید تقویت ملتی ہے۔ دیگر عوامل کے علاوہ اس سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہوتی ہے بلکہ ملک کو سیاسی بحران کی طرف بھی دھکیل دیا جاتا ہے۔
نذیر مہر نے اپنے اختتامی کلمات میں تاریخی سیاسی عمل، نوآبادیاتی پیش رفت اور 1947 کے موروثی عدم توازن کو ایک اور اہم عنصر قرار دیا جس کا نتیجہ لڑکھڑاتی حکومتیں اور منتشر اشرافیہ ہے۔
اس بات پر مزید زور دیا گیا کہ مذکورہ بالا عوامل پاکستان میں جمہوریت کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور ملک کو اشرافیہ میں اتحاد کی کیفیت کو پروان چڑھا کر ، سیاسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے نظام کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اسی طرح انسانی ترقی کے اشاریے ، جی ڈی پی کی فی کس شرح فیصد، خواندگی کی شرح اور سیاسی اور اقتصادی اداروں کی شمولیت وہ ترقیاتی عوامل ہیں جن کے ذریعے ایک قابل بھروسہ مضبوط نظام تشکیل پا سکتا ہے ۔
جواب دیں