چوتھا صنعتی انقلاب: پاکستان کے لیے مواقع اور چیلنجز
چوتھے صنعتی انقلاب سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان کو ہمہ جہت عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے: آئ پی ایس سیمینار
چوتھے صنعتی انقلاب سے مستفید ہونے کے لیے پاکستان کو ہمہ جہت عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے: آئ پی ایس سیمینار
آج کی ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار آنے والے وقت میں طرزِ زندگی کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے گی اور اس کے اثرات ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اربوں افراد پر مرتب ہوں گے۔ تاریخ کے اس اہم مرحلےپر ضرورت اس امر کی ہے پاکستان اس چوتھے صنعتی انقلاب سے مستفید ہونے کے لیے قومی سطح پر ہمہ جہتی اقدامات کرے اور خصوصا تعلیم و ہنر کے میدانوں میں وقت کی مطابقت سے قابلیت اور استعدادِ کار میں اضافے کے ایسے فوری اقدامات کرے جن سے اس نادر موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان میں روبوٹ میا کے چئیرمین شمس فیض نے ‘چوتھے صنعتی انقلاب: پاکستان کے لیے مواقع اور چیلنجز’ کے عنوان سے کیے جانے والے ایک سیمینار میں کیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد نے 20 دسمبر 2019 کو کیا۔ اس نشست کی صدارت ایشین انسٹیٹوٹ آف انڈسٹریل آئیر کے سی ای او ڈاکٹر ارشد علی کر ہے تھے جبکہ مقررین میں آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ خالد رحمٰن بھی شامل تھے۔
چوتھے صنعتی انقلاب کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے فیص شمس نے خبردار کیا کہ ایک اندازے کے مطابق سال 2022 تک دنیا کی تقریبا 75 ملین آبادی کی پیشہ ورانہ خدمات روبوٹ انجام دینا شروع کر دیں گے جبکہ ساتھ ہی اس ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے تقریبا 130 میلن نئ طرح کی نوکریاں بھی وجود میں آئیں گی۔ اس حوالے سے پاکستان کو ایسے عملی اقدامات کی شدید ضرورت ہے کہ جن کی مدد سے وہ اپنے تعلیمی اسٹینڈرڈ کو باقی دنیا کے مقابلے پر لا کر ان آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے کے لییے پاکستان کو اسٹیم [سائینس، ٹیکنالوجی، انجینیرنگ، اور میتھس] کے میدان میں مہارت حاصل کرنا ہو گی۔ اسٹیم کی تعلیم اور مہارت آج کے دور کی ضرورت ہے اور اسے ابتدائ سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک لازمی قرار دینا چاہیے بلکہ اس کی پر الگ سے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں چین اور بھارت جیسے ممالک ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گئے ہیں اور کئ میدانوں میں یہ امریکہ پر بھی سبقت لے جا رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ اپنی اور دوسری ممالک کی غلطیوں سے سبق سیکھے اور معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی تعلیم و تربیت پر بھی بھرپور توجہ دے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے اب علم کو گھر گھر اور ہر دروازے تک پہنچا دیا ہے اور ہر ایک کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نِت نئے علوم سیکھنے اور مہارتیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے ۔ اب یہ پاکستان اور اس کی نو جوان نسل پر منحصر ہے کہ وہ کیسے نئے دور کہ ان آنے والے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور کس طرح اس کے چیلنجز کا سامنا کر سکتے ہیں۔
فیض نے اس مقصد کے لیے اسکول اور کالجز کی تعلیم اور نصاب کا دورِ حاضر کی ضروریات کو مدِ نظر ریکھتے ہوئے از سرِ نو تجزیہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔
ڈاکٹر ارشد نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن اس ٹیلنٹ کو نکھارنے اور اس سے مستفید ہونے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کے لیے دور رس ویژن کے ساتھ ایک جامع حکمتِ عملی مرتب کرنا ہو گی۔
جواب دیں