چوتھے صنعتی انقلاب کے عملی پہلو: پاکستان کے لیے امکانات

4th Ind-Rev Op for Pak thumb

چوتھے صنعتی انقلاب کے عملی پہلو: پاکستان کے لیے امکانات

The-Dynamics-of-the-Fourth-Industrial-Revolutions 

چوتھے صنعتی انقلاب سے فوائد سمیٹنے کے لیے ضروری ہے کہ باخبر اور ہوشمند دماغ رکھنے والے افراد کی تعداد بڑھائی جائے۔ کثیر تعداد میں افراد کی دماغی صلاحیتوں کو آشکار کرنا اور ان کی تربیت کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ چوتھے صنعتی انقلاب کے عہد میں مواقع تراشنے اور ان سے فوائد سمیٹنے کے لیے وسعتِ سوچ کے حامل باصلاحیت دماغوں کی دستیابی ضروری ہے۔

ان خیالات کا اظہارانسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں 16فروری 2018ء کو منعقد ایک سیمینار میں کیا گیا جس کا موضوع تھا ”چوتھے صنعتی انقلاب کے عملی پہلو: پاکستان کے لیے امکانات“۔ یہ سیمینار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ”چوتھے صنعتی انقلاب“ پر ہونے والے پروگراموں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

سیمینار کی صدارت سابق سیکرٹری وزارت پانی و توانائی، آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن اور توانائی، پانی اور ماحولیاتی تبدیلی پر آئی پی ایس کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین مرزا حامد حسن نے کی۔ مقررین میں سابق وفاقی سیکرٹری وزارتِ پٹرولیم ڈاکٹر گل فراز احمد اور ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن شامل تھے۔

چوتھے صنعتی انقلاب کے دہانے پر کھڑے پاکستان میں موجود مواقع کے امکانات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گل فراز نے کہا کہ دنیا ایک ایسے انقلاب کی دستک سن رہی ہے جو ہمارے طرزِ زندگی کو یکسر تبدیل کر دے گا اور یہ ایک ایسی تبدیلی ہو گی جس کا بنی نوع انسان نے اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں کیا۔اگرچہ ہمیں خبر نہیں کہ یہ انقلاب بالآخر کس طرح اپنا رخ متعین کرے گا تاہم کسی حد تک یہ بات واضح ہے کہ ہمارا ردِّعمل بھرپور توجہ کا حامل اور جامع ہونا چاہیے اور اس میں تمام فریقین کو شامل کیا جانا چاہیے۔

صنعتی انقلاب کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے مقرر نے کہا کہ پہلے صنعتی انقلاب نے پانی اور بھاپ کی طاقت کو پیداواری صلاحیت کے لیے روبہ عمل کیا۔ دوسرے میں بجلی کی توانائی کو بڑے پیمانے پر پیداوار کا حصول جانا گیا اور تیسرے صنعتی انقلاب نے ہمیں ڈیجیٹل دنیا میں لاکھڑا کیا۔ چوتھا صنعتی انقلاب ایک نئی دنیا آشکار کرنے جا رہا ہے جو ابھی تجرباتی مراحل سے گزرتے ہوئے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ یہ ڈیجیٹل، مادی اور حیاتیاتی دائروں کو سمیٹے ایک نئی دنیا سامنے لا رہا ہے جو بہت جلد اس جدید دنیا کی ہر صفت پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہو گی۔

مقرر نے اس چوتھے صنعتی انقلاب کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ایسے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعے روبہ عمل ہو گا جو موجودہ سوپر کمپیوٹرز سے لاکھ گنا تیزرفتار ہوں گے۔ مشینیں نہ صرف ہمیں درپیش پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو انتہائی باریک بینی سے حل کر رہی ہوں گی بلکہ ساتھ ہی ساتھ مصنوعی ذہانت، انسان کے نعم البدل اور خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھنے والی مشینوں کے لیے راستہ بنا رہی ہوں۔ اگر یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ مشینیں کبھی مرتی نہیں ہیں، کبھی تھکتی نہیں ہیں، کبھی بیمار نہیں پڑتیں اور ان میں سیکھنے کی صلاحیت بھی ہر نئ چیز سیکھنے اور ہر نیا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اس سارے منظرنامے میں یہ تصور میں لانا قطعی مشکل نہیں کہ سیکھنے کی صلاحیت میں یہ بالآخر انسان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیں گی۔

گلفراز نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ زرعی انقلاب کے دوران آج کی دنیا بیج بونے سے زرعی اجناس کی فروخت تک ترقی کرتے پہنچی ہے۔ پھر صنعتی انقلاب نے صنعتی پیداوار کے بنانے اور فروخت کے مراحل تک پہنچا دیا اور اب یہ دور خیالات کی تخلیق اور فروخت کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ یہ وہ جہان ہے کہ جس میں مستقبل کی ایجادات، سائنسی تحقیق، ترقی اور پیداوار کا تصور پنہاں ہے اور صرف وہ قومیں اس کے فوائد سمیٹ سکیں گی جو اس حقیقت کا بروقت ادراک کر لیں گی کہ انہیں اپنی طویل حکمتِ عملی کو ان بنیادی نکات پر استوار کرنا ہے جن کے ذریعے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر قیمتی وسائل کا حصول ممکن ہو اور نئے دور کے تقاضوں میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم ہوں۔

اس صورتِ حال میں پاکستان کے لیے لازمی اقدامات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر ایسے افراد کی تعیناتی پر زور دیا جنہیں مالی لحاظ سے بہت بڑی ترغیب دی گئی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے اردگرد موجود مواقع کو تصور میں نہیں لا سکتا یا انہیں سمجھ نہیں پاتا جب تک اسے کھلی اور باخبر سوچ کے مواقع فراہم نہ کیے گئے ہوں۔

مقرر نے ملک میں علمی معیشت کی دستگیری پر بھرپور زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق اور ترقیاتی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری پر سرکاری اور نجی شراکت داری کا مؤثر کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی نظر میں اس اقدام سے دانشورانہ دماغ پیدا ہوں گے جن کا کام بالآخر تجارتی مصنوعات کی تیاری کی شکل میں سامنے آئے گا۔

انہوں نے اپنی گفتگو کا لب لباب ایک جملے میں ادا کیا کہ ”ذہنوں پر سرمایہ کاری آپ کو سب سے زیادہ تیزرفتار اور پائیدار دولت فراہم کرے گی“۔

حامد حسن نے گلفراز کی آراء کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اب علم پر مبنی ہوتی جارہی ہے اور علم کا حصول ہی آنے والے وقت میں کامیابی کی کلید ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی میں نوجوان 60 فی صد سے زیادہ ہیں۔ پھر بھی حیرت انگیز بات ہے کہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں تعلیم ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ ملک کو سوچ رکھنے والے دماغوں کی ضرورت ہے جو مصنوعی ذہانت کے دورِ انقلاب میں آنے والی تبدیلیوں کو اپنا سکیں۔

آخر میں ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس نے مقررین کی گفتگو کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے انقلابی دور میں درپیش چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے تخلیقی سوچ، لچک اور تخیلاتی صلاحیتوں کے مالک ذہن درکار ہیں جو اُس وقت کے مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھ سکیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے