ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ جتنی قانونی جنگ ہے اتنی ہی سیاسی جنگ ہے۔قانونی ماہرین
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں ایک سیمینار میں امریکہ میں ٢٠ سال سے زیادہ عرصے سے قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ ان کی رہائی کا معاملہ جتنی قانونی جنگ ہے اتنی ہی سیاسی جنگ ہے۔ قانونی راستے تلاش کرنے کے علاوہ، حکومت پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے امریکہ پر سیاسی دبائو ڈال کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم، وزارت خارجہ قوت ارادی کا مظاہرہ کرے اور عافیہ کوواپس لانے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا ئے جائیں۔ امریکی دہشت گردی کی جنگ کی نہ ختم ہونے والی اذیتیں، پاکستانی قیدی ڈاکٹر عافیہ کا مقدمہ” کے موضوع پر ایک سیمینار سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے برطانوی نژاد امریکی وکیل کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ، ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور پاکستان میں ان کے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ نے اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر مقررین نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ نائن الیون کے بعد کی امریکی خوف اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بدولت نہ ختم ہونے والے مصائب کی علامت ہیں، کلائیو نے کہا جو اس کے کیس کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اور گوانتانامو بے سے 80 سے زیادہ دیگر قیدیوں کو مفت قانونی امداد کے زریعے رہا کروانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ پر قتل کی کوشش، حملوں کے الزامات اور اس کے انتہا پسند ہونے کے بارے میں الزامات سب بے بنیاد ہیں۔ اپنی آزادی سے محروم، وہ امریکی غیر قانونی قید اور انتہائی ناانصافی کا کا شکار رہی ہے۔ انٹیلی جنس کے اعداد و شمار کے مطابق گوانتاناموبے کے 780 قیدیوں میں سے 98.5 فیصد غیر قانونی قید کا شکار ہیں جب کہ 780 قیدیوں میں سے 764 امریکا کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو قانونی طور پر واپس لانے میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز ہیں لیکن اس کے باوجود کئی ایسے قانونی راستے بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں جن میں ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کا حق، قانونی چارہ جوئی، معافی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے حصول کا ایک اور اہم ذریعہ پاکستان کی جانب سے سیاسی دبائو اور اثر و رسوخ ہے۔ اس معاملے میں، ایک بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان اس کے لیے کیا کرے گا۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی بنیادی طور پر پاکستان کی ترجیح ہونی چاہئے، لیکن انہیں پاکستان واپس لانے کی خواہش کا فقدان ہے۔ عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا اس کی رہائی کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دکھائی گئی رضامندی اور خلوص میں کمی لگتی ہے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی مستقل اور قابل ذکر سرکاری کوششیں نہیں کی گئیں اور اس کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بغیر کسی وجہ کے زیر التوا ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ایک سیاسی جنگ ہے جتنا کہ یہ ایک قانونی جنگ ہے۔ حکومت پاکستان کئی ایسے طریقے ہیں جن کا انتخاب کر سکتی ہے، بشمول وطن واپسی، اور تبادلے کے معاہدے جیسے قیدیوں کی منتقلی کے معاہدے۔
مقررین نے پاکستان کی وزارت خارجہ (MOFA) سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کی رہائی کے لیے مطلوبہ کارروائی کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ اس معاملے میں عدالت کا نگران کردار بہت اہم ہے کیونکہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو اس کی رہائی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام اور دانشور طبقے کا دبائو، میڈیا کا کردار اور غیر سرکاری سفارتی کوششیں بھی کافی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔
جواب دیں