کتاب کی تقریبِ رونمائی | ’اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان:سیاست اور سماج کے آئینے میں ‘

کتاب کی تقریبِ رونمائی | ’اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان:سیاست اور سماج کے آئینے میں ‘

 افتخار گیلانی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی  ، ہندوستان کے سماجی سیاسی منظر نامے اور مسلمانوں کی حالت زار پر مکالمے کا آغاز

"ہندوستان شناسی”، یعنی بھارت کے سماجی سیاسی اور ثقافتی منظر نامے کی ایک گہری اور زیادہ منظم تفہیم، موثر پالیسیوں کی تشکیل  کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جانب سے  بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں موجود مسلمانوں جیسی مجبور کمیونیٹیز کے لیے  ایڈووکیسی کی کوششوں کے لیے پیشگی شرط ہے۔

اس کے دائرے کو سنجیدہ علمی مطالعے اور نصاب میں انضمام تک بڑھا کر، اور پاکستان اور کشمیر کے گرد موجود نظریات کی تجدید کر کے، علاقائی مسائل کے لیے ایک زیادہ جامع نقطہ نظر سامنے آ سکتا ہے۔ یہ توسیع شدہ تفہیم میڈیا، انٹر ٹینمنٹ اور بڑے شہری مراکز سے آگے بڑھنی چاہیے، تاکہ اس کے ذریعے آنے والی نسلوں کے لیے امید اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔

اس بات کا مشاہدہ معروف صحافی افتخار گیلانی کی تازہ ترین کتاب ’اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان:سیاست اور سماج کے آئینے میں ‘ کی تقریبِ رونمائی کے دوران کیا گیا، جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد میں 24 اکتوبر 2024  کو منعقد ہوئی۔

یہ کتاب، جو آئی پی ایس کےاشاعتی بازو آئی پی ایس پریس نے شائع کی ہے، بھارت کی مسلم اقلیت اور ریاست کے درمیان بڑھتی ہوئی حرکیات کا گہرائی سے جائزہ اور ریکارڈ فراہم کرتی ہے، اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ان پالیسیوں کے اثرات کی تفصیلات پیش کرتی ہے جو بھارت کی سیاسی اور ثقافتی شناخت کو دوبارہ تشکیل دے رہی ہیں، اور جن کے مُسلم اور دیگر اقلیتوں پر نمایاں اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سابق سیکرٹری خارجہ اور بھارت میں سابقہ ہائی کمشنر ایمبیسیڈر سہیل محمود کی زیر صدارت ہونے والی اس تقریب میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین نے اظہارِ خیال کیا ، جبکہ اس موقع پر ممتاز اسکالر اور آئی پی ایس کے سرپرست اعلیٰ  پروفیسر خورشید احمد، سابق سینیٹر اور معتمر العالم الاسلامی کے سیکریٹری جنرل راجہ محمد ظفر الحق، اور  ہندوستان میں پاکستان کے سابقہ ہائ کمیشنر سابق سفیر عبدالباسط کے تبصرے بھی پیش کیے گئے۔

پروفیسر خورشید احمد نے اپنے جائزے میں بھارت میں مسلمانوں کے سماجی و سیاسی مسائل اور سیکولر اقدار کی زوال کی جانب توجہ دلائی، اور کتاب کو کمیونٹی  کو درپیش سخت حقائق کا ایک اہم انکشاف قرار دیا۔

راجہ ظفر الحق نے ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اقلیتوں کی منظم طور پر پسماندگی پر زور دیتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی شناخت اور حقوق کا دفاع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سفیر عبدالباسط نے کتاب کے تین دہائیوں کے دوران پالیسی کے اثرات کے مکمل تجزیے کی تعریف کی اور اسے ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے جاری جدوجہد کو سمجھنے کے لیے ضروری قرار دیا۔

سفیر سہیل محمود نے اس بات پر زور دیا کہ "ہندوستان شناسی”  محض علمی تجسس سے بالاتر ہے۔ یہ پاکستان میں موثر پالیسی سازی کے لیے بہت ضروری ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ ہندوستان کی داخلی حرکیات کا ایک منظم اور گہرا مطالعہ کرتے ہوئے فرقہ واریت، آمریت اور سماجی اقتصادی عدم مساوات جیسے مسائل کو زیرِ غور لانا ، زیادہ باخبر فیصلہ سازی کی رہنمائی کر سکتا ہے۔

مقررین نے کہا کہ بھارت کے سماجی سیاسی منظرنامے کو سمجھنا پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے، خاص طور پر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر کشمیریوں اور مسلمانوں کے حقوق کی وکالت کرنے کے حوالے سے۔

پینل نے "پاکستان کے نظریے” کی تجدید اور اس کی تشہیر کی اہمیت پر زور دیا، اور کشمیر کی تحریک کو ایک مربوط بیانیے کے ذریعے پیش کرنے کی ضرورت پر اصرار کیا  تاکہ کشمیر اور مسلمانوں کے حقوق کے لیے ہر بین الاقوامی فورم پر ایسی وکالت کی جا سکے جو خطے کے نظریے، تاریخ اور جدوجہد کے اچھی طرح سے تیار کردہ دستاویزی بیانیے پر مبنی ہو۔

اس حوالے سے، دستاویزی معلومات کو وکالت کی پائیداری اور اعتبار کو مضبوط کرنے کے لیے ایک اہم ٹول قرار دیا گیا۔ پینل نے بھارت میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز، کشمیر کی جدوجہد، اور پاکستان کی اپنی شناخت کے ارتقاء کے حوالے سے معنی خیز اور تنقیدی ریکارڈ مرتب کرنے کی اہمیت پر زور دیا، جو پالیسی سازی اور بین الاقوامی نظریات پر اثرانداز ہونے کے لیے بہت ضروری ہے۔

اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ کتاب ‘اکیسوی صدی کا بھارت اور مسلمان’ محض مضامین کی تالیف نہیں ہے ، بلکہ ہندوستانی ریاست اور مسلم اقلیت کے درمیان ابھرتے ہوئے تعلقات کا ایک بامعنی ریکارڈ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت پر موجودہ مباحث کا زیادہ تر دائرہ کار میڈیا کی تصویر کشی اور بڑے شہری مراکز تک محدود ہے، جو بھارت کی جمہوریت، سماجی ڈھانچوں اور بدلتی ہوئی نظریات کی ان پیچیدگیوں کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جو کہ بھارت کی حکمرانی، اقتصادی عدم مساوات اور اقلیتی کمیونیٹیز کو درپیش چیلنجز کو تشکیل دیتی ہیں۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے