‘کشمیری شناخت پر حملہ اور اس کے ممکنہ مضمرات’
مسئلہ کشمیر در حقیقت 75 سال سے جاری ایک جنگِ آزادی ہے، صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ نہیں: ماہرین
مسئلہ کشمیر بنیادی طور پر آزادی کی ایک حقیقی جنگ ہے جو کشمیری عوام گزشتہ 75 سالوں سے پاکستان کی حمایت سے لڑ رہے ہیں جو کہ اس تنازع کا ایک بنیادی فریق ہے ۔ یہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے، اور اسے اسی طرح اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ بھارتی قابض حکومتوں اور ریاستی اداروں کے غاصبانہ اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرائم کے طور پر دیکھا جا سکے، اور اس کے لیے مضبوط حکمت عملیوں کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ بیانیہ اور ایک متحدہ سمت کا تعین بہت ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ورکنگ گروپ براِئے کشمیر کی بیسویں میٹنگ میں کیا گیا جو کہ کشمیر کے امور پر ماہرین پر مشتمل ہے جو 5 اگست 2019 کو بی جے پی کی قیادت میں دہلی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی غیر قانونی منسوخی کے بعد سے باقاعدگی سے ملاقات کرتی ہے۔
آئ پی ایس کے ورکنگ گروپ برائے کشمیر کا یہ بیسواں اجلاس ‘کشمیری شناخت پر حملہ اور اس کے ممکنہ مضمرات’ کے عنوان سے کشمیری مسلمانوں کو بے اختیار کرنے کے بھارتی اقدامات اور ان کے نتائج پر تبادلہ خیال کرنے کی غرض سے منعقد ہوا۔ اس نشست کی صدارت آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی، جبکہ دیگر مقررین میں غلام محمد صفی، سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سید ابرار حسین، ڈاکٹر ادریس عباسی، ایڈوکیٹ ناصر قادری، اور راجہ سجاد خان شامل تھے۔
ماہرین نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح جموں و کشمیر کے لوگوں کو بے اختیاری کی طرف دھکیل دیا گیا ہے، جکہ یہ کوشش صرف سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے۔ بھارت منظم طریقے سے مسلم اکثریت، اس کی ثقافت اور اس کی سیاسی نمائندگی کو بے اختیار، کمزور اور پسماندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت نے بیوروکریسی اور انتخابی حلقوں میں مسلمانوں کی تعداد کو کم کرنے کے علاوہ اردو اور کشمیری زبانوں، ادب اور یہاں تک کہ کشمیری کھانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
نشست میں حد بندی کمیشن کی حتمی رپورٹ میں تضادات کی بھی نشاندہی کی گئی۔ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ اگرچہ رپورٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ 2011 کی مردم شماری پر مبنی ہے، لیکن اس نے انتخابی حلقوں کی حد بندی کے لیے نہ تو جغرافیہ اور نہ ہی آبادی کو معیار کے طور پر سمجھا ہے۔ یہ جمہوریت کے اصولوں کی نفی کرتا ہے اور امتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔ اس بات پر مزید روشنی ڈالی گئی کہ حلقہ بندیوں کی حد بندی جیسے بھارتی اقدامات جموں (ہندو اکثریت) ڈویژن کے لیے چھ نشستیں اور کشمیر (مسلم اکثریت) ڈویژن کے لیے ایک نشست بڑھا کر نہ صرف مسلم سیاسی عدم استحکام کا باعث بنے ہیں بلکہ اس نے علاقے میں تقسیم بھی پیدا کی ہے، جیسا کہ 16 سیٹیں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کمیونٹیز کے لیے مختص کی گئی ہیں۔
آرٹیکل 370 اور 35 اے کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوِئَے ، جنہیں اب بی جے پی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے منسوخ کر دیا ہے، اس بات کا ذکر کیا گیا کہ کشمیری مسلمانوں کو پسماندہ اور بے اختیار کرنا بھارت کا ایک مستقل مقصد رہا ہے۔ خصوصی حیثیت کے خاتمے اور 2020 حد بندی کمیشن سے پہلے، ہندوستان پناہ گاہ، صنعت کاری وغیرہ کے نام پر محیط علاقے میں آبادیاتی تبدیلیاں لانے کی خفیہ کوششیں کر رہا تھا۔
ماہرین نے متنبہ کیا کہ اس سے پہلے کہ بھارت مسلمانوں سے محروم کشمیر میں رائے شماری کر کے اپنے غیر قانونی قبضے کا قانونی جواز قائم کرے، پاکستان کو بروقت بین الاقوامی قانون کا فائدہ اٹھانا چاہیے، کیونکہ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے تحت شہری آبادی کو متنازعہ علاقے میں منتقل کرنے کی ممانعت ہے۔ مزید برآں انہوں نے مقامی کشمیریوں یعنی ریاستی سبجیکٹ کارڈ ہولڈرز کے لیے اپنا کیس دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے ایک بہتر اور نمایاں کردار پر زور دیا۔
میٹنگ میں زور دیا گیا کہ کسی کو اس میں شک نہیں رہنا چاہیے کہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، چاہے وہ ظلم ہو، نسل کشی ہو، زمین کی تخصیص ہو یا مقامی لوگوں پر جبر ہو، وہ بھارتی آباد کار استعماری ایجنڈے کا ناقابل تردید مظہر ہے اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ہندوستانی آباد کار حکومت کی مذمت کرتے ہوئے ورکنگ گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ علاقے کی مقامی مسلم اکثریتی آبادی کو پسماندہ اور ختم کرنے کے ہندوستانی اقدامات نہ صرف زمین کی نوعیت بلکہ لوگوں کی زندگی کے ہر دوسرے پہلو کو بھی بدل رہے ہیں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کا بیانیہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر نہیں بلکہ جنگ آزادی کے گرد مرکوز ہونا چاہیے۔
جواب دیں