’کشمیر: آگے کے لیے راہیں ‘ تنازع کشمیر لاکھوں زندگیوں کو متاثر کر رہا ہے، بین الاقوامی ثالثیانتہائی اہمیت کی حامل ہے: شوفیلڈ
کشمیر کا تنازع بے شمار رکاوٹوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
کشمیر کا تنازع بے شمار رکاوٹوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ عالمی برادری کی توجہ اور ثالثی کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ خطے کے لاکھوں باشندوں کی جانوں کا تحفظ ہو اور اس امن کو حاصل کیا جا سکے جو پاکستان اور بھارت کے عوام کے مستقبل کا ضامن ہے۔
ان خیالات کا اظہار ممتاز برطانوی تاریخ دان، مصنف، سوانح نگاراور جنوبی ایشیا اور کشمیر کے تنازعے میں خصوصی دلچسپی رکھنے والی دانشور وکٹوریہ شوفیلڈ نے 26 فروری 2022 کو آئی پی ایس میں ’کشمیر: دی وے فارورڈ‘ کے موضوع پر منعقدہ خصوصی گفتگو کے دوران کیا ۔
شوفیلڈ نے متعدد بار متنازعہ علاقے کے دونوں اطراف کا دورہ کیا ہے جس سے انہیںیہ موقع ملا ہے کہ وہ دونوں اطراف کے لوگوں سے انٹرویو کر کےاس ساری صورتحال پر لوگوں کی رائے جان سکیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستانی مقبوضہ علاقے میں لوگ اب بھی تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ وہاں ہر روز بہت سےشہریوں کی ہلاکتیں اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور مسلح فوجی سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔
اسپیکر نے اس ساری صورتحال کو ایک سنگین انسانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو اس پرفوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں اس بات پر زور دیا کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے اور مستقل بنیادوں پر صحیح جگہوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔
شوفیلڈ نے یہ بھی یاد دلایا کہ شملہ معاہدہ پاکستان اور بھارت کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ صرف دوطرفہ ذرائع سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔
انہوں نے کہا، معاہدے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے کو دو طرفہ یا کوئی دوسرے باہمی طور پر متفقہ ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ معاہدے میں اس مؤخر الذکر شق کو اس مسئلے پر بین الاقوامی ثالثی حاصل کرنے کے لیے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ انتہائی اہم ہے کیونکہ بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیر کے لوگوں کے درد اور تکلیف کو ختم کرنے کے پرامن اور دوطرفہ حل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید رائے دی کہ اس 75 سال سے زیادہ پرانے مسئلے کے حل میں متعدد اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، جن میں چین بھی شامل ہے کیونکہ اس کا اکسائی چن اور ٹرانس قراقرم ٹریکٹ پر دعویٰ ہے۔
ان کا خیال تھا کہ یہ ضروری نہیں کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے، بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر وادی اور لداخ کے علاقے کے لوگوں کی اس معاملے پر ایک جیسی رائے ہو۔
اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین نے کی۔ دیگر شرکاء میں ایمبیسیڈر (ر) اشتیاق حسین اندرابی، بریگیڈیئر (ر) سید نذیر مہمند، آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیراور آئی پی ایس کے کشمیر پرورکنگ گروپ کی سیکرٹری فرزانہ یعقوب ،سابق وفاقی سیکرٹری سید ابو احمد عاکف، اور لیگل فورم فار دی اوبسیسڈ وائسز آف کشمیر (ایل ایف او وی کے) کے بانی ایڈوکیٹ ناصر قادری سمیت دیگر افراد شامل تھے۔
ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے متعدد نوجوان کارکنوں نے، جن میں ڈاکٹر مجاہد گیلانی، اور طویل عرصے سے نظر بند کشمیری رہنماؤں قاسم فکتو اور آسیہ اندرابی کے بیٹے احمد بن قاسم نے بھی گفتگو کے بعد بحث میں حصہ لیا۔
ایک سیشن میں کشمیری نوجوانوں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں صرف غیر قانونی قبضے کا شاخسانہ ہیں اور اس پیدا کیے گئےجمود کو بھارتی حکومت، بیوروکریسی، فوج اور قانونی ادارے مل کر محفوظ کر رہے ہیں۔
اپنے اختتامی کلمات میں، ایمبیسیڈر (ر) سید ابرار حسین نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ متعدد مواقع پر بات چیت اور بین الاقوامی ثالثی کی صورت میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت تاہم اپنے یکطرفہ موقف پر قائم ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیری اس بین الاقوامی تنازعہ کے بنیادی فریق ہیں اور انہیں ان کے حق خود ارادیت سے بہرہ مند کیےبغیر کوئی بھی حل نہیں نکالا جا سکتا۔
جواب دیں