‘کشمیر سے یکجہتی اور نوجوانوں کی آواز’
مسئلہِ کشمیر کو تازہ دم رکھنے کے لیے نوجوانوں کے ذریعے بیانیہ سازی، ڈیجیٹل ایڈووکیسی کی ضرورت پر زور
کشمیریوں کی عزم و استقامت یہ ثابت کرتی ہے کہ مسئلہِ کشمیر پر ان کی جدو جہد ابھی ختم نہیں ہوئی، اور اب یہ نوجوانوں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ان کی آواز باقی دنیا تک پہنچائیہں۔ اس کے لیے صرف کشمیریوں سے اظہارِ یکجہتی نہیں، بلکہ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے نوجوانوں کو ڈیجیٹل ایڈووکیسی کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے، بھارت کی طرف سے غلط معلومات پر مبنی بیانیے کا مقابلہ کرنا چاہیے، لوگوں کو متحرک کر کے ان کی حمائیت حاصل کرنی چاہیے، اور اپنا سچ اور حقیقت پر مبنی بیانیہ لوگوں کے سامنے پیش کر کے اسے مستقل توجہ کا مرکز بنانا چاہیے۔
یہ خیالات ‘کشمیر سے یکجہتی اور نوجوانوں کی آواز’ کے عنوان سے ہونے والی ایک تقریب میں زیرِ بحث آئے، جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) نے 4 فروری 2025 کویوتھ فارم فار کشمیر (وائے کے ایف) ، یوتھ ایسو سی ایشن آف پاکستان (ییپ) اور یوتھ ڈپلومیسی فارم (وائے ڈی ایف) کے ساتھ مل کر کیا تھا۔
اس نشست سے خطاب کرنے والوں میں چئیرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، سابق سفیر سیّد ابرار حسین اور چئیرمین ییپ عبدالقادر کے ساتھ ساتھ نوجوان مقررین علینہ ظفر، ریسرچ آفیسر، وائے کے ایف، مصوّر تنولی، وائے ڈی ایف، باسم رضا، ریسرچ اسسٹنٹ، دا میلینیم یونیورسل کالج، شہیر احمد، ریسرچ اسسٹنٹ، سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز، عبدالباسط، ریسرچ آفیسر، سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجیک اسٹڈیز، آزاد جموں کشمیر، اور نسٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبیلیٹی کی پی ایچ ڈی اسکالر طیّبہ خورشید شامل تھے۔
نوجوانوں کے پینل نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی، جس میں دہائیوں سے جاری جبر، جبری حراستیں اور گمشدگیاں، ڈیجیٹل نسل پرستی، غیر مجاز نگرانی، مذہبی، سیاسی اور سماجی آزادیوں پر پابندیاں، اور بھارتی فوجی قبضے کی وجہ سے زندگیوں کا مشکل ترین ہو جانا شامل تھا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزیاں ہندوستانی سخت قوانین کی وجہ سے عمل پذید ہیں جو سب کے سامنے اور واضح ہے۔
مقررین نے کشمیر کاز کے لیے ڈیجیٹل ایڈوکیسی کے کردار پر زور دیا۔ انہوں نے متنوع خیالات کو اجاگر کیا جہاں نوجوان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو استعمال کر سکتے ہیں، آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے ٹولز تیار کر سکتے ہیں، اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور کشمیریوں کی آواز کو بڑھانے کے لیے آزاد ڈیجیٹل جگہیں بنا سکتے ہیں تاکہ غلط معلومات کا مقابلہ کیا جا سکے اور کشمیریوں کی آوازوں کو بلند کیا جا سکے۔ نیز سینسرشپ سے بچنے اور کشمیر کی حقیقی صورت حال کو پیش کرنے کے لیے غیر مرکزی صحافت اور فنکارانہ اظہار کی اہمیت بھی اجاگر کی گئی۔
بین الاقوامی ردعمل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقررین نے مشاہدہ کیا کہ واضح حقائق کے باوجود عالمی ردعمل بڑی حد تک خاموش ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چونکہ ریاستیں اپنے جغرافیائی سیاسی مفادات اور اسٹریٹجک صف بندیوں میں کام کرتی ہیں، لہٰذا عوامی جذبات تبدیلی کے لیے ایک طاقتور قوت ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے عالمی سطح پر نوجوانوں کو متحرک کرنے، انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ فعال روابط، اور بھارت کے جھوٹے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی یکجہتی کی تشکیل کی اپیل کی۔ مزید برآں انہوں نے کہا کہ کشمیری باشندوں کو، خاص طور پر وہ جو مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، اس متحرک تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
مقررین نے پاکستان کے نقطہ نظر میں خامیوں کی نشاندہی بھی کی۔ انہوں نے کشمیر کے حق خودارادیت کے مقدمے کو مضبوط بنانے کے لیے آزاد جموں و کشمیر کے نوجوانوں کی آواز کو بلند کرنے اور آزاد جموں و کشمیر کی سماجی و اقتصادی ترقی کو ترجیح دینے سمیت ایک نئی حکمت عملی پر زور دیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ایڈووکیسی کی کوششوں کو روایتی سفارتی ذرائع سے بڑھ کر نچلی سطح کی تحریکوں اور بین الاقوامی عوامی گفتگو تک پھیلانا چاہیے۔
اس سے قبل سابق سفیر سیّد ابرار حسین نے کشمیر کے مسئلے پر تاریخی نقطہ نظر فراہم کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اور بین الاقوامی قانون دونوں کشمیری کاز سے ہم آہنگ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ حق خودارادیت کی جدوجہد کی جڑیں نہ صرف تاریخی انصاف میں پیوستہ ہیں بلکہ اس کو بین الاقوامی قانونی اصولوں سے بھی تقویت ملتی ہے جو کشمیری عوام کے استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں کو چیلنج کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارتی فوج کی مسلسل بڑی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیریوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور ان کی ہمت، استقامت اور جدوجہد کو عالمی حمایت کے ذریعے تقویت ملنی چاہیے۔
انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ فعال مشغولیت کی ذہنیت کو اپنائیں، اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ وہ اس مقصد کو قائم اور تازہ دم رکھنے کے لیے اپنی انفرادی اور اجتماعی صلاحیت میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ انہوں نے طویل مدتی اور ہم آہنگ عزم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ کشمیر کا مسئلہ عالمی مباحثے میں نمایاں رہے اور ان کے حق خود ارادیت کے لیے مؤثر وکالت یقینی بنائی جا سکے۔
جواب دیں