کشمیر پر آئی پی ایس ورکنگ گروپ کی سترویں میٹنگ

کشمیر پر آئی پی ایس ورکنگ گروپ کی سترویں میٹنگ

کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات میں قطر کے ممکنہ کردار پر تبادلۂ خیال

 17th-meeting-of-WGK

کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات میں قطر کے ممکنہ کردار پر تبادلۂ خیال

آزادیٔ کشمیرکی جدوجہد کرنے والی قیادت اورسرگرم کارکنوں کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہر ممکن راستے کی تلاش کی جائے جس میں  عالمی برادری بالخصوص قطر جیسی اقتصادی اور سفارتی طاقت کی حمایت حاصل کرنا  اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تمام متعلقہ فریقین کے درمیان بامعنی بات چیت کے لیے ایک ممکنہ چینل فراہم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ تجویز موجودہ علاقائی اور عالمی منظر نامے بہت درست لگتی ہےجہاں قطر،خاص طور پر حالیہ برسوں میں امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایک اہم علاقائی  کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار 2 دسمبر 2021 کو کشمیر  پر ہونے والے آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ (آئی پی ایس-کےڈبلیو جی)  کے اجلاس میں ہوا۔ آئی پی ایس-کےڈبلیو جی کی یہ میٹنگ اسلام آباد میں قائم اس تھنک ٹینک کے اہتمام سے  اس وقت سے باقائدگی کے ساتھ ہو رہی ہے جب 5 اگست 2019 کو بی جے پی کی زیرِ قیادت دہلی حکومت نےہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو غیر قانونی طور پر منسوخ کردیا تھا۔ اس میٹنگ میں کشمیر کے امور پر مستند رائے رکھنے والے ماہرین شریک ہوتے ہیں۔

5 اگست  کو ہونے والے اس اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین نے کی اور اس سے کلیدی خطاب کشمیری-کینیڈین سکالر اور قطر یونیورسٹی دوحہ میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کےایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان مجاہد چک  نے کیا۔

ارشاد محمود، ڈائریکٹر جنرل، جموں و کشمیر لبریشن سیل(جے کے ایل ایف)؛ ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف، سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ آئی پی ایس ؛ ایڈووکیٹ ناصر قادری، بین الاقوامی قانون کے محقق اور لیگل فورم فار پرپریسڈ وائسز آف کشمیر(ایل ایف او وی کے)کے بانی؛ پروفیسر ڈاکٹر شاہین اختر، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) ؛ کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے عہدیداران میر طاہر مسعود ، حسن البنا اور کشمیری اسکالر اور کارکن ڈاکٹر ولید رسول نے میٹنگ میں شرکت کی۔ جبکہ نظامت کے فرائض آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ آفیسر صبور علی سید نے ادا کیے۔

ڈاکٹر چک نے قطر کو ان چند ممالک میں سے ایک کے طور پر دیکھا جو دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان بات چیت کی فضا پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں تاکہ دشمنی کی فضا کو صاف کیا جا سکے اور تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔

تاہم، دیگر افراد کا خیال تھا کہ جب تک کشمیر کے حق خودارادیت کے لیے مقامی، جائز مسلح جدوجہد اہم مقام پر نہیں پہنچ جاتی، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت یا کسی تیسرے فریق کی طرف سے ثالثی کا کوئی بھی کردار بے سود ہو گا۔ انہوں نے جموں و کشمیر کے خطے اور پوری دنیا  بالخصوص دوحہ جیسے سفارت کاری کے لیے مشہور دارلحکومت میں کشمیرکی آزادی کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی  ہر پہلو سے حمایت کی وکالت کی۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کشمیر پر اپنے موقف کو مزید سخت کرے گی اور کسی بھی ملک کی طرف سے ایسی کسی بھی ثالثی کی پیشکش کو نظر انداز کرے گی، خاص طور پر اس وقت جب  حد بندی کا عمل ختم ہونے کے بعد وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہندو وزیر اعلیٰ کو لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاکستان نے دائمی تنازعہ کے حل کے لیے کسی بھی ثالثی کی پیشکش کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت بار بار کسی نہ کسی بہانے مذاکرات سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے