‘کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے معروف قائد کی یاد میں ‘کشمیر اور عالمی ضمیر: ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی زندگی اور خدمات’
ایوب ٹھاکر مرحوم کے نقشِ قدم پر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد عزمِ نو سے شروع کرنا ناگزیر ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد، پاکستان کے ساتھ اس کا الحاق اور اسلام کی سربلندی ایک ہی حقیقت کے تین پہلو ہیں، جن کے لیے جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ یہ وہ پیغام ہے جو ڈاکٹر محمد ایوب ٹھاکر کی اُس جدوجہد کا مرکز ہے،جس کے اثرات عالمی سطح پر کشمیر کی تحریک کو مضبوط بنانے میں کسی بھی فرد یا تنظیم سے زیادہ ہیں۔
یہ بات معروف سیاست دان، ماہر معاشیات اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر خورشید احمد نےکشمیری رہ نما اور ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ (ڈبلیو کے ایف ایم)کے بانی ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی 10 مارچ کو ہونے والی ان کی 20ویں برسی کے موقع پر کہی۔
‘کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے معروف قائد کی یاد میں ‘کشمیر اور عالمی ضمیر: ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کی زندگی اور خدمات ‘ کے عنوان سے مارچ 7، 2024 کو آئی پی ایس میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار سے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے رہ نماؤں اور ماہرین نے خطاب کیا، ان میں آئی پی ایس کے خالد رحمٰن ، ایڈوائزر ریسرچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، صدر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ اور مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر کے صاحبزادے مزمل ایوب ٹھاکر ، معروف تاریخ دان اور مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ، ، کنوینر برائے تحریکِ حریت جموں و کشمیر غلام محمد صفی، ڈائریکٹر لیگل فورم فار کشمیر ایڈووکیٹ ناصر قادری، جماعت ِاسلامی آزاد جموں و کشمیر کے رہنما عبدالرشید ترابی، کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر شاخ کے کنوینر محمود احمد ساغر، ورلڈ کشمیر اویرنس فورم (ڈبلیو کے اے ایف) کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی اور صدر ڈاکٹر غلام احمد میر شامل تھے۔
ایوب ٹھاکر کو ایک صاحبِ بصیرت رہنما قرار دیتے ہوئے پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ انہوں نے نہ صرف عالمی سطح پر مسلم کمیونٹی کو متحرک کیا بلکہ سیاسی، سفارتی اور علمی حلقوں میں کشمیر کاز کی نمائندگی کی۔ ڈاکٹر ٹھاکر نیوکلیئر فزکس میں پی ایچ ڈی تھے لیکن انہوں نے اپنی زندگی دنیا بھر کی مظلوم طبقات خصوصاً ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے جدوجہد کے لیے وقف کردی۔ کشمیری عوام کے عزم کو ایک آواز دینے کے ساتھ ساتھ ان کی ساری زندگی آزادی اور انصاف کے لیے جدوجہد میں گزری ۔
مزمل ٹھاکر، جو اپنے والد کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں، نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دراصل مسلم شناخت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے تحریک کے پیغام کو مؤثر طریقے سے ہر ایک تک پہنچانا ضروری ہے۔ ایوب ٹھاکر کے آخری ٹیلی ویژن پیغام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کشمیر کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اگلی نسل کی پرورش حریت، غیرت اور حقوق و ذمہ داریوں کے احساس کی بنیاد پر کرنے ضرورت پر زور دیا۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ آنے والی نسلوں کے لیے جدوجہد آزادی کے تسلسل پر دوبارہ توجہ مرکوز کی جائے ۔
وکٹوریہ شوفیلڈ نے کہا کہ کشمیر کی تحریک کی طاقت بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب ٹھاکر کا کشمیر کی آزادی کی تحریک کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور عالمی ضمیر کے سامنے ایک سوال کے طور پیش کرنے میں ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خود انہیں بھی اس معاملے سے آگاہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار ڈاکٹر ایوب ٹھاکر ہی کا رہا ہے ۔
اسلام، پاکستان اور کشمیر کے مشن کے لیے ٹھاکر کی انتھک کوششوں کی عکاسی کرتے ہوئے غلام محمد صفی نے ان کے عالمی اسکالرز پر اثر کی طرف توجہ دلائی ، جنہوں نے ان کی وجہ سے کشمیر کا حقیقی تناظر پیش کرنا شروع کیا۔ تاہم، ناصر قادری نے کہا کہ تحریکِ آزادی کو اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان کا تقاضا ہے کہ تحریک سے وابستہ افراد اور ادارے ایک مضبوط موقف اختیار کریں۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہدکی مثال دیتے ہوئے انہوں نے قیادت کی کوششوں میں فیصلہ کن انداز اور مستقل مزاجی پر زور دیا۔ اسی طرح، محمود ساغر نے محض بیان بازی سے بالاتر ہو کر بھرپور اور ٹھوس سفارتی کوششوں کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔
اسی خیال کی تائید کرتے ہوئے رشید ترابی نے کہا کہ ٹھاکر جیسے رہ نماؤں کی کوششوں اور مشن کو پیش نظر رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا ایک اجتماعی فرض ہے۔ مشن کو منطقی اور منصفانہ انجام تک پہنچانے کے لیے اسے ہر سطح اور ہر مرحلے پر اپنے ہدف کو نگاہ میں رکھنا چاہیے ۔
غلام احمد میر نے کہا کہ کشمیر کی تحریک کو بااثر حلقوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم کشمیر اور فلسطین کی آواز کو مسلسل بلند کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد ان کے حق خودارادیت اور انسانی حقوق کے لیے ہے۔
غلام نبی فائی نے ایوب ٹھاکر کو ایک بصیرت افروز اور اصول پسند رہنما کے طور پر سراہتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی تحریک کی تنظیموں کے قیام میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے تارکین وطن کو متحرک کرنے اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ٹھاکر کے عزم پر قائم رہنے پر زور دیا۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمن نے اقوام متحدہ میں بار بار ویٹو کیے جانے کے باوجود فلسطین جیسی آزادی کی جدوجہد کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے عالمی ضمیر کی تشکیل میں عوامی مظاہرے اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت میں مسلسل اضافے کوکشمیر کے مقدمے کو پیش کرنے کے لیے ایک موقع قرار دیا۔
انہوں نے عالمی سطح پر کوششوں کو تیز کرنے کے لیے ان عوامل کو سمجھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے پاکستان کے کردار کا از سرِ نو جائزہ لینے پر بھی زور دیا اور مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے نئی توجہ اور توانائی کی ضرورت پر زور دیا۔
جواب دیں