کشمیر کی جدوجہد ہر وقت اور ہرسطح پر حق خودارادیت پر مرکوز ہونی چاہیے: آئی پی ایس فورم
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام تقریب میں امور کشمیر کے ماہرین اورکشمیری رہنماؤں نے کہا ہے کہ کشمیر کی جدوجہد ہر وقت اور ہرسطح پر حق خودارادیت پر مرکوز ہونی چاہیے جس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ 4 اگست 2023 کو ہونے والے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے کشمیر ورکنگ گروپ کے 21 ویں اجلاس، اورلیگل فارم فار کشمیر کی رپورٹ کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر مقررین نے کہا کہ کشمیر اب ہندوستان کے لیے ایک تہذیبی منصوبہ بن چکا ہے۔ بھارت نے اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کشمیر کے لوگوں کو کوئی اختیار نہ دیا جائے، خطے میں نسلی امتیاز کے عنصر کو بروئے کار لانا شروع کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر تاریخی طور پر نہ صرف ایک علاقائی تنازعہ ہے، بلکہ قبضے اور آبادکار استعماریت کی مثال رہا ہے ۔
لیگل فارم فار کشمیر کی ‘آرٹیکل 370: مقبوضہ کشمیر میں جینیسس، ابروگیشن، اور اس کے اثرات’ کے عنوا ن سے شائع ہونے والی حالیہ رپورٹ کی تقریبِ رونمائی سے تحریک حریت کے رہنما غلام محمد صفی، آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن ، وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیرسید ابرار حسین ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایل ایف کے ایڈوکیٹ ناصر قادری، آزاد جموں و کشمیر کی سابق وزیر اور آئی ایس کشمیر ورکنگ گروپ کی جنرل سیکرٹری فرزانہ یعقوب، اور آئی پی ایس کے ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا ۔
خالد رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان پی5 ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے بیانیے اور آگاہی کو شکل دے تاکہ انہیں اس مسئلے میں اپنے کردار کا احساس دلایا جا سکے۔ جیسا کہ ہندوستان جھوٹے دعوں کا پرچار کرتا ہے، ان کا مقابلہ احتیاط سے تیار کردہ بیانیے اور مختلف ذرائع سے ان کے وسیع تر پھیلا کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔
مزید برآں، پاکستان کو کشمیر کاز کے لیے اپنی جدوجہد میں اتفاق رائے کو برقرار رکھنا ہوگا اور کشمیریوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں، جو کہ بنیادی عناصر ہیں، کی طاقت سے اس کیس کو مضبوط کرنا ہوگا۔ محمد صفی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو استقامت اور لچک کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ناموافق بین الاقوامی تناظر اور کشمیر کی جدوجہد میں ابہام کے خاتمے کے باوجود کشمیر کے حوالے سے ایک مستقل اور مربوط قومی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔ اگرچہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن کشمیر کاز کے لیے جدوجہد کا مرکز کشمیریوں کے حق خودارادیت پر ہونا چاہیے۔ رپورٹ کے حوالہ جات پر روشنی ڈالتے ہوئے سابق سفیر ابرار حسین نے بتایا کہ کس طرح کشمیر کے غیر قانونی الحاق نے بھارتی بربریت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، قیدیوں، مواصلاتی لاک ڈان، زمینوں پر قبضے، فوجوں کی تعیناتی، اور مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
مثال کے طور پر، 2019 سے 2021 کے درمیان تقریبا 9,765 خواتین لاپتہ ہوئیں جسکا بھارت کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ اجے مشرا نے اعتراف کیا۔ اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کشمیر کو لوٹنے کا ذریعہ ہے۔ ایک سنگین پیش رفت ڈیاگو یونین-ٹریبیون کی فروری 2023 کی رپورٹ کے مطابق یہ بھی ہے کہ ہندوں کے تحفظ کے لیے کشمیر میں سول ملیشیا فورس کو بحال کیا گیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نہ صرف اس ملیشیا کی مالی مدد کرتی ہے بلکہ انہیں اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔
ایڈووکیٹ ناصر قادری نے واضح کیا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو غیر فعال کرنا بھارت کے لیے غیر آئینی ہے، جس سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی شہری آزادیوں پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نتیجتا، کشمیر بھارت کی طرف سے دھکیلنے والے آبادکاری کے نوآبادیاتی عمل کے ایک عبوری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی آبادکاری کے استعماری عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر کو صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں بلکہ ایک قبضے اور آبادکاری کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایل ایف کے کی حالیہ رپورٹ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو پڑھنے کی پیچیدگیوں کو طریقہ کار سے اجاگر کرتی ہے اور ان کی غلط تشریح کو دور کرتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے مختلف فیصلوں کا جائزہ لیتی ہے اور یہ بھی دیکھتی ہیکہ آیا آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا جا بھی سکتا ہے یا نہیں۔
مزید یہ کہ یہ مضمرات کو نمایاں کرتی ہے اور آرٹیکل 370 کی مبینہ عارضی نوعیت کو حل کرتی ہے۔ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ بیانیے کی جنگ کے اس دور میں یہ ابہام اور پاکستانی رہنماں کے غیر فعال اور غیر اطمینان بخش بیانات جھوٹے بھارتی دعووں کی تردید کرنے سے قاصر ہیں۔ کشمیر کاز کے لیے پاکستان کی مضبوط عزم اور غیر متزلزل حمایت کے برعکس اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کو اس صورت حال پر کم تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر ٹھوس پالیسیوں اور جاری وکالت پر سمجھوتہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر فخر الاسلام نے کہا کہ یہ اثرات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو مکمل طور پر پیش کرے نہ کہ جزوی جہت میں۔ بصورت دیگر اسلام آباد صورتحال کی حساسیت اور کشمیر کے کاز کی اہمیت کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے گا۔ مزید یہ کہ مسلہ کشمیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے سے کہیں آگے ہے۔ یہ حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے جس پر کسی بھی طرح سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
جواب دیں