کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں متحرک اوورسیز کمیونٹی اور سفارتی کوششیں کلیدی قرار
کشمیر کے تنازعے کو محض پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوطرفہ مسئلے کے طور پر پیش کرنے کا تصور اب بتدریج ایک زیادہ عالمی فہم میں ڈھل رہا ہے، جس میں اوورسیز کمیونٹی کی سرگرم مداخلت کا کردار نمایاں ہے۔ اسی دوران، پاکستان کی حالیہ سفارتی حکمت عملی میں مؤثر بیانیے اور عالمی میڈیا میں نمایاں موجودگی قابل توجہ ہے۔ کشمیر کے مقدمے کو مؤثر انداز میں آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جائے، سفارتی مشنز اور بیرونِ ملک موجود کشمیری و پاکستانی کمیونٹی کے مابین روابط کو مضبوط کیا جائے، پالیسی ریسرچ میں سرمایہ کاری کی جائے، اور علمی و ابلاغی پلیٹ فارمز کے ساتھ اشتراک کو مزید گہرا کیا جائے۔
ان خیالات کا اظہار۱۶ مئی ۲۰۲۵ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس ) اسلام آباد میں ‘مسئلہ کشمیر کا دوبارہ ابھرنا: نظریات اور مستقبل کے امکانات’ کے موضوع پر منعقدہ سمینار میں بیرون ملک مقیم کشمیری رہنماؤں اور سابق سفارتکاروں نے کیا۔ سیمینار سے بیرون ملک سے کشمیری قیادت تحریکِ کشمیر یورپ کے صدر محمد غالب، ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے صدر ڈاکٹر مزمل ایوب ٹھاکر، اور کشمیر کمپین گلوبل کے چیئرمین ظفر نذیر قریشی شریک ہوئے۔ اس موقع پر سابق صدر آزاد کشمیر اور امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر سردار مسعود خان مہمانِ خصوصی تھے، جبکہ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن اور دیگر شرکاء بھی موجود تھے۔
مقررین نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر ایک انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر اجاگر کرنے کے لیے عوامی سطح کی سرگرمیوں اور ریاستی سفارت کاری کو ایک متفقہ بیانیے کے تحت ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔
امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا کہ کشمیر کے مقصد کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں کو ایک مشترکہ نظریاتی عزم متحد کرتا ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیری تارکین وطن کے عزم کو تقویت دے اور کشمیر کے معاملے کو عالمی سطح پر نمایاں کرے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے تین اہم نتائج نکلے ہیں ،جن میں امریکہ دونوں ممالک کو اب حکمت عملی کے لحاظ سے برابر سمجھتا ہے، تجارت کے معاملات میں مساوات کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے، اور کشمیر کا مسئلہ دوبارہ عالمی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے سفارتی، فوجی اور معاشی ستونوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔
محمد غالب نے پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں پر زور دیا کہ وہ کشمیر کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے کشمیری تارکین وطن کی کوششوں کی زیادہ فعال طور پر حمایت کریں۔ پاکستان کی عالمی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے کشمیر پر ایک واضح اور مستقل پالیسی ضروری ہے، اور حکومت کو اہم ممالک کے ساتھ رسمی طور پر مشغول ہونا چاہیے اور اپنے سفارتی اداروں کو فعال کرنا چاہیے۔ یورپ میں کشمیر کو ایک دوطرفہ مسئلہ سمجھا جاتا ہے، پاک بھارت حالیہ واقعات نے اس تنازعے کے حل کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔
ظفر قریشی نے کشمیری رہنماوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ان کی کوششوں کو ایک وسیع پلیٹ فارم کے تحت متحد کرنے پر زور دیا۔ پاکستان کی فعال اور مستقل حمایت اس جائز جدوجہد کے لیے نہایت اہم ہے، جس کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ مزمل ایوب ٹھاکر نے کہا کہ برطانیہ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عوامی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، بھارت کے بارے میں تصورات بھی بدل گئے ہیں۔ اسرائیل کے حق میں بیانیے سے بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، سوشل میڈیا پر پاکستانی صارفین نے بھارتی غلط معلومات کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے، کشمیر کے حوالے سے اسی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے پیش رفت کو برقرار رکھنا ہوگا۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے زور دیا کہ کشمیر کے مسئلے کو وسیع تر عالمی تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ بدلتے ہوئے عالمی نظام میں جامع حکمت عملی اپنانا ضروری ہے، جو پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کشمیر کے مقصد کو آگے بڑھائے۔ بیانیہ کی جنگ بین الاقوامی رائے کو تشکیل دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، لیکن مقامی عوام کے لیے تیار کیے گئے بیانیے اکثر عالمی سطح پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ عالمی سطح پر اپنا مؤقف مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا، انہوں نے تاکید کی کہ کشمیر کے لیے پاکستان کو مستقل اور واضح موقف، یکجہتی اور اعتماد کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر کشمیر کے لیے ایک منصفانہ مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکے۔