گوادر کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات
گوادر کی حیثیت کی یہ توجیہہ کہ یہ صرف چین کے لیے تزویراتی پہلوؤں سے اہمیت کا حامل اور باقی عالمی قوتوں کے لیے نقصان کا باعث ہے، ایک غلط توجیہہ ہے۔ اس منصوبے میں پاکستان اور چین کے لیے اقتصادی فوائد تو یقیناًموجود ہیں اور ان سے استفادہ بھی دونوں برابر کی سطح پر اٹھائیں گے تاہم یہ فوائد اس پورے خطے کے ممالک کے لیے بھی یکساں ہیں۔
یہ اس مجلس مذاکرہ کا حاصلِ گفتگو ہے جو 14مارچ 2013ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں پاکستان اسٹڈی سینٹر شوآں یونیورسٹی چین کے تعاون سے منعقد ہوا۔ اس کا موضوع تھا۔ ’’گوادر: موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات‘‘۔ سیمینار کے اہم مقررین میں نسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ کمانڈر (ریٹائرڈ) اظہر احمد اور چین سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار پروفیسر زو رونگ شامل تھے جبکہ صدارت کے فرائض سابق سفیر عارف ایوب نے ادا کیے۔ سیمینار میں بحری امور پر دسترس رکھنے والے ماہرین، گوادر منصوبے سے متعلق افسران، تحقیق کاروں اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
سیمینار میں موجود شرکاء کا نقطہ ء نظر یہ تھا کہ اگر چین کو بحیرہ عرب میں اپنی تزویراتی موجودگی کو ہی مستحکم کرنے میں دلچسپی ہوتی تو وہ پہلے سے موجود مواقع سے فائدہ اٹھا کر بھی یہ سب کر سکتا تھا۔ چین کے پاس اس وقت تجارتی مقاصد کے لیے بہت بڑا بحری بیڑہ موجود ہے۔ چناچہ اگر بندرگاہ کا انتظام و انصرام چین کے پاس ہو اور اس کے سارے ڈھانچے کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہو تویہ صورتِ حال چینی جہازوں کے لیے ایک یقینی کشش کا باعث ہوگی کیونکہ بندرگاہ ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے بحری جہاز اس بحری راستے سے خلیج فارس کے ممالک تک تجارت کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی چینی کمپنی کو اس بندرگاہ کے جملہ امور سپرد کرنا ہی سب سے مناسب فیصلہ ہے کیونکہ اس سے پہلے جس کمپنی کو بندرگاہ کی تعمیر سپر د کی گئی تھی اسے اس طرح کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
گوادر کی تاریخ اور اس کے تزویراتی فوائد پر ایک سروے پیش کرتے ہوئے اظہر احمد نے بتایا کہ پاکستان نے ہمیشہ بحری امور سے متعلق منصوبہ بندی کو نظر انداز کیا ہے اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ اقتصادی اور تزویراتی سطح پر اس کی قیمت بھی ادا کی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ میں بے پناہ مواقع موجود ہیں اور ایک چینی کمپنی کو اس کے امور سپرد کر کے پاکستان کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ گزشتہ برسوں میں کی جانے والی غلطیوں کی کسی حد تک تلافی کرسکے۔ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے ۔ پاکستان کو اس منصوبے پر جنگی بنیادوں پر کام جاری رکھنا چاہیے اور اس بندرگاہ سے تمام تر فوائد حاصل کرنے چاہیءں۔ پاکستانی قیادت کو ملکی مفادات میں بھر پور سیاسی تدبر اور عزم کا ثبوت دینا چاہیے۔
انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ خلیج فارس سے انتہائی قریب واقع ہے جہاں سے پوری دنیا کو تیل کی کل تجارت کا 60 فیصد فراہم کیا جارہا ہے اور ذرائع نقل و حمل کے اس راستے کی تزویراتی اہمیت گوادر کی بندرگاہ کو اور بھی اہم بنا دیتی ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کی موجودگی میں کسی بھی جنگی خطرے کے مضمرات کو مزید کم کیا جاسکتا ہے۔ بہت سی رپورٹس میں اس بندرگاہ کے اقتصادی فوائد کا احاطہ کیا گیا ہے تاہم اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ان تصوراتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اس کے ڈھانچے کو مزید ترقی دی جائے اور مضافاتی سمندری علاقوں کے ساتھ اس کو مربوط کیا جائے۔ جن خدشات کا عمومی اظہار کیا جاتا رہا ہے ان کے برعکس مقامی آباد ی کسی بھی طور اس کی تعمیر کے خلاف نہیں ہے اور وہ اسے اپنے مستقبل کے لیے ایک خوش آئند منصوبہ اور بے روزگاری کے خاتمے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔
سیمینار میں موجود دیگر افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین سے وسطِ ایشیا تک اس تجارتی راستے سے چین کے ان دور دراز مغربی علاقوں تک بین الاقوامی تجارت کے امکانات پیدا ہو جائیں گے جو مشرق میں واقع چین کی اپنی بندرگاہوں، خلیج کے ممالک اور وسط ایشیاکی ریاستوں سے طویل فاصلے پر ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ گوادر کو سڑکوں اور ریلوے لائن کے ذریعے جوڑ دے تاکہ اسے ملک میں ایک متبادل بندرگاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے اور اسے علاقے میں موجود ان ریاستوں کے لیے مفید بنایا جا سکے جن تک رسائی کے سمندری راستے بند ہیں۔ اس بات کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا کہ اس علاقائی خطے میں دیگر بندرگاہوں کی نسبت گوادر کس طرح ایک بہترین مقام پر واقع ہے جہاں سے شاندار تجارتی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
دیگر بہت سے پہلو بھی گفتگو کا حصہ بنے جن میں ایک ساحلی ریفائنری کی تعمیر بھی تھا۔ اس پر توجہ دلائی گئی کہ اس طرح کا ایک منصوبہ پاکستان اور ایران مشترکہ طو ر پر طے کر چکے ہیں۔ یہ تجویز پیش کی گئی کہ اس منصوبے کو چین کی مدد سے روبہ عمل لایا جائے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ اگر گوادر کی بندرگاہ کے منصوبے کو ہوشمندی اور اولوالعزمی سے بروئے کار لایا گیا تو یہ پورے ملک بالخصوص بلوچستان کی ترقی اور سلامتی میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔
جواب دیں