گورننس یا کنٹرول: 2024 کے یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا تجزیہ
مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہیں، ریفرینڈم کے وعدے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے
بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں جاری جوڑ توڑ سے بھر پور انتخابات ایک طویل عرصے سے وعدہ کیے گئے استصوابِ رائے کا متبادل نہیں ہو سکتے، جس کا کشمیریوں کو پورا حق حاصل ہے۔ اگرچہ روز مرہ کی گورننس اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے مقامی نمائیندگی ضروری ہے، لیکن ایسا انتخابی عمل علاقے میں محض بھارت کا تسلط مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
ہاکستان کے لیے یہاں سے آگے بڑھنے کے لیے ایک ایسا اسٹریٹیجیک اور متحد نقطہِ نظر ضروری ہے جو کہ موثر سفارتکاری کے ذریعے کشمیریوں کے حقِ رائے دہی کے منصفانہ مقصد کے لیے اولو العزم ہو۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے زیرِ اہتمام "گورننس یا کنٹرول: 2024 کے یونین ٹیریٹری آف جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات کا تجزیہ” کے عنوان سے ہونے والے گول میز مباحثے کے دوران کیا گیا۔ اس سیشن کی نظامت وائس چیئرمین آئی پی ایس سابق سفیر سید ابرار حسین نے کی، جبکہ اس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے سابق ڈین پروفیسرڈاکٹر نذیر حسین، سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر اور آئی پی ایس ریسرچ ایسوسی ایٹ فرزانہ یعقوب ، اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد کی فیکلٹی آف سوشل سائنسز کی پروفیسر ڈاکٹر آمنہ محمود نے خطاب کیا۔
مقررین نے نوٹ کیا کہ کشمیری نوجوان، جو کبھی پر امید تھے، اب بڑھتی ہوئی مایوسی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ بھارت خطے پر اپنی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ انتخابی عمل کے ان کے تاریخی بائیکاٹ کے باوجود، کشمیری اب اس سیاسی عمل کو ایک انتظامی ضرورت سمجھنے پر مجبور ہیں، جو روزمرہ کی حکمرانی اور سیکورٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک ضرورت ہے۔
یہ سب ایک تشویش ناک تبدیلی کے ساتھ وقوع پذیر ہواہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا کنٹرول محض حکمرانی سے بڑھ کر طاقت کے کھلے مظاہرے میں تبدیل ہو چکا ہے، اور خطے پر اپنی گرفت کو جائز بنانے کے لیے انتخابات کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے بھارت اس رائے شماری کو پسِ پشت ڈالنا چاہتا ہے جس کے کشمیری نہ صرف مستحق ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی اس کے حقدار ہیں۔
غیر ملکی مندوبین کی میزبانی کرکے بھارت آزاد اور منصفانہ انتخابات کا تاثر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم جموں اور کشمیر کے علاقوں کے درمیان نشستوں کی غیر متناسب تقسیم کی وجہ سے اس انتخابی عمل کی شفافیت پہلے ہی متاثر ہو چکی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نمایاں اثر و رسوخ کا مظاہرہ کر رہی ہے، جس سے آزاد امیدواروں کے لیے اس کے کنگ میکر بننے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جو حقیقی نمائندگی کی امید کو مزید کم کر رہا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی کشمیر پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ پاکستان میں عدم استحکام اور خراب حالات نے کشمیریوں کے اندر مایوسی کا احساس پیدا کیا ہے، جو تاریخی طور پر پاکستان سے اخلاقی اور سیاسی حمایت کی امید رکھتے رہے ہیں۔ شرکاء نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے کئی مواقع ضائع کیے ہیں، جس کی وجہ سے اس نازک معاملے میں غیر موثر ہونے کا تاثر بڑھ رہا ہے۔
مزید برآں، مضبوط کشمیری قیادت کی عدم موجودگی، خاص طور پر حریت رہنما سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد سے، خطہ بھارت کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی واضح مقامی بیانیہ سے محروم ہو گیا ہے۔
یہ قیادت کا خلا بھارت کو اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کر رہا ہے، جبکہ بی جے پی اپنے موقف کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ممکنہ طور پر کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ آرٹیکل 370 کی اس منسوخی کو جائز قرار دیا جا سکے جس نے علاقے کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کر دیا تھا ۔
ان چیلنجوں کی روشنی میں، شرکاء نے کشمیری قیادت کو متحد کرنے اور بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں جاری مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے سیاسی عزم کو فروغ دینے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مقاصد کے حصول کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی، پاکستان کی کشمیر پالیسی میں مستقل مزاجی، اور صبر بہت ضروری ہوگا۔
خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں پاکستان پر زور دیا کہ وہ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کشمیر کے مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے مصروفِ عمل رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو بنیادی اقدار کے ساتھ ثابت قدم رہنا چاہیے اور قومی اتحاد کو کمزور کرنے والے تقسیم در تقسیم بیانیوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی نظام تبدیلی کی حالت میں ہے، جو اقوامِ عالم کو عالمی سطح پر اپنے کردار از سرِ نو وضع کرنے کے نئے مواقع فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک جامع فریم ورک تیار کرنے کے لیے فعال طور پر ان مواقع کی تلاش کرنا چاہیے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
جواب دیں