یومِ یکجہتیِ کشمیر | 5 فروری 2023

یومِ یکجہتیِ کشمیر | 5 فروری 2023

یوم یکجہتی کشمیر پر آئی پی ایس فورم: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کو دنیا بھر میں بے نقاب کرنے کی ضرورت پر زور

کشمیر میں بھارتی ریاست کی گھناؤنی کارروائیوں اور جنگی جرائم کے دستاویزی شواہد، مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کی طرح بھارت کے اسرائیلی طرز کے جبری آبادکاری کے ایجنڈے اور فوجی قبضے کے خلاف  کشمیریوں کے حق خودارادیت کے کیس کو مضبوط کرتے ہیں۔

ا ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں  3 فروری 2023 کو  منعقدہ "یوم یکجہتی کشمیر” کے موقع پر ‘آئی پی ایس فورم’ کے شرکاء نے اپنی گفتگو کے دوران کیا جن میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن، وائس چیئرمین، آئی پی ایس اور سابق سفیر سید ابرار حسین، بانی و سربراہ، لیگل فورم فار کشمیر ایڈوکیٹ ناصر قادری، اورآئی پی ایس کے ورکنگ گروپ براۓ کشمیر کی سیکرٹری اور سابق وزیر آزاد جموں و کشمیر فرزانہ یعقوب شامل تھے۔

ناصر قادری نے زور دے کر کہا کہ سب سے اہم چیز جس کو بار بار اجاگر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کشمیر محض انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ نہیں ہے، یہ ایک مکمل فوجی قبضہ ہے۔ جنگی جرائم، منظم ظلم و ستم، گھناؤنے مظالم، ماورائے عدالت قتل، اور بھارت کا اسرائیلی طرز کا آباد کار ایجنڈا یہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کہیں آگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان بین الاقوامی قانون، بین الاقوامی انسانی قانون اور جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہے لہٰذا اس معاملے میں غیرجانبدارانہ تحقیق اور صحافت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی مظالم کو بے نقاب کرنا بہت ضروری ہے، جیسا کہ بی بی سی کی گجرات میں مودی کے قتل عام پر بنی حالیہ دستاویزی فلم، جس میں مودی کی نوآبادیاتی ذہنیت اوراقلیتوں کے ساتھ اس کے ظالمانہ طرز عمل پر کی عکاسی کی گئی ہے جس کی گواہی برطانوی سفارت کار جیک سٹرا نے بھی دی تھی۔

مزکورہ دستاویزی فلم پر پابندی لگانے اور اس طرح کی شہادتوں کو جعلی قرار دینے کی ہندوستان کے ھتھکنڈوں کی وجہ سے دنیا نے اس پراورزیادہ توجہ دی ہے۔ فرزانہ یعقوب نے کہا کہ مستقل گمراہ کن پراپگینڈہ بھارت کے لیے ایک آلہ ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ کشمیری ایک حقیقی اور مبنی بر انصاف مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں اس لیے انہیں سچ اورحقائق کو تمام ممکنہ محاذوں پر آگے لے کرجانا چاہیے۔ قومی اور نجی ذرائع ابلاغ کو بیانیہ بنانے، دستاویزی فلمیں بنانے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھنے میں نمایاں کردار اداکرنا چاہیے۔

خالد رحمٰن نے  اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ 5 فروری کی اہمیت کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنا اور اس کے واضح مقصد کو ذہن میں رکھ کر منانا چاہیے۔ یہ اہم بات ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان میں حکومت کس کی رہی، کسی بھی حکومت نے کشمیر پر اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حوالے سے سیاسی حکومت اور عوام کے درمیان اتفاق رائے ایک ایسی طاقت ہے جسے اعلیٰ سطح پر تقویت دی جانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قیادت، دفترخارجہ، عوام، میڈیا، سیاسی جماعتیں اوربیرون ملک پاکستانی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہے ہیں تاہم اس جدو جہد میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔

سید ابرار حسین نے ان خیالات کی تائید کی اور زور دیا کہ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ ہم حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی بھرپورحمایت کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں سفارتی سطح پرمستقل اٹھاتے رہنا ضروری ہے کیونکہ دنیا کو کشمیر کی سرزمین پر بھارت کی شرمناک پالیسیوں اور ظالمانہ کارروائیوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ بین القوامی سطح پر پاکستانی سفارت خانوں کی اس طرح کی کوششوں کی وجہ سے مزید کئی ریاستوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت کے خلاف کشمیر کاز کی حمایت شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر چین نے اس بات پر متعدد بار موئقف پیش کیا کہ مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے ذریعے حل کیا جائے، ترکی کے رہنما اردگان نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے بین الاقوامی سطح پر بھارتی بربریت اور اس کے گھناؤنے سیاسی ہتھکنڈوں کی زمینی حقیقت کو بے نقاب کیا۔

مزید برآں، سفارت خانوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو متحرک کرنے میں پیش قدمی کی ہے اور پوری دنیا میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ اس لیے نہ صرف بین الاقوامی سیاست میں اس مسئلے کی مطابقت برقرار رہتی ہے بلکہ دنیا کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کسی بھی رائے شماری کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے کس طرح کشمیر کی آبادی کو تبدیل کر رہا ہے۔

 


بھارتی قابض ریاست کے مظالم کے خلاف نہتے کشمیریوں کی لازوال قربانیوں اور حق خودارادیت کے لئے ان کی جائز جدوجہد کے حوالے سے خصوصی گفتگو


فرزانہ یعقوب :یہ ایک دو دنوں میں ۵ فروری پھر سے آ رہا ہےاور ہم نے دیکھا ہے کہ ۵ فروری پر کافی ایکٹیویٹیس ہوتی ہیں ۔ کافی عرصہ ہو گیا ہے ۵ فروری تو بار بار آ رہا ہے مگر کشمیر کے حالت خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔تو کیا اہمیت ہے ۵ فروری کی اور کیا ضروری ہے کہ ہم نے اس مرتبہ بھی ۵ فروری کو کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔

خالد رحمٰن: نہیں، دیکھیں نا، اصل میں تو کوئی بھی دن ہو اس کے اندر مینیگز ہوتے ہیں۔جب آپ سیلیبریٹ کریں تو ایک دن بھی ناکافی ہوتا ہےصورتحال میں فرق لانے کےلئے ۔مطلب یہ ایکopportunity ہے کہ جو دن آپ منا رہے ہیں اس کے بیک گراؤنڈ، کرنٹ سچویشن کو سمجھ لیں اور اس میں درپیش چیلنجز کو پیشِ نظر رکھیں۔ کوئی نہ کوئی موقع ایسا ہوگا کہ جو لوگ اس مسئلے کو بھول چکے ہوں ہم انہیں یاد دلا سکیں۔جو ان ڈاَنامکس کو نہیں سمجھ پارہے آپ انہیں وہ ڈائنامکس سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اور اسی طرح پالیسی میکرز کو یہ سوچنے کا موقع مل جائے کہ آئندہ کے لیے سوچ بچار کیسے کرنی ہے۔تو یوں ایک پورا ماحول بنتا ہے۔ میرے خیال میں آپ نے سوال میں یہ بات نہیں شامل کی کہ ہم اس دن کو کیسےcelebrate کریں اور اس کو ان مقاصد کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ خود اپنی جگہ ایک موضوع ہے کہ جب اس طرح کا کوئی دن ہو تو اس میں کس طرح کے ایونٹس ہوں اور لوگوں کو کیسے ایجوکیٹ کیا جائے ۔شاید ہمارے دوست ابرار صاحب اس پر روشنی ڈال سکیں ، جب باہر کی دنیا میں ہمارے سفارت خانے اسے celebrate کر رہے ہوتے ہیں ، تو کیا وہاں اِس کی کوئی امپورٹنس ، کوئی سمجھ بوج کچھ اِس طرح کا ایجنڈا ہمارے ہاں سے جاتا ہے . کچھ نا کچھ تو ہَم سنتے تو رہتے ہیں لیکن اَبْرار صاحب کو تو خود بھی اِس کا تجربہ ہے ۔

اَبْرار حسین : جی، باہر کے ملکوں میں ایمبیسیز میں ہماری یہی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ کیا جاسکے۔اور اِس آگہی کی جو کوششیں کی جاتی ہیں یہ انہی کا نتیجہ ہوتا ہےکہ مسئلۂ کشمیر عالمی منظر نامے پر ہمیشہ نمایاں رہتا ہے۔اگرچہ ہندوستان کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ یہ عالمی منظر نامے سے ہٹایا جائے اس کے باوجود مثلاً میں صرف پچھلے سال کی مثالیں دو گا . ویسی ۷۵ سالوں میں بہت سے مظالم بھی ہوئے ، بہت سی ایفرٹس بھی ہوئیں ، لیکن اس کے باوجود میں صرف پچھلے سال کی مثال دوں گا۔ صرف پچھلے ایک سال کی کوششوں ہی کو دیکھا جائے تو نومبر ۲۰۲۲ میں جب وزیر اعظم چین کے دورے پر گئے تو اس کے بعد جو joint communique [ مشترکہ اعلانیہ] جاری ہوا ، اس میں چین نے اِس بات کا اعادہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو UN کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور باہمی دو طرفہ معاہدوں کےمطابق جلد از جلد حل ہونا چاہیے۔ اچھا پھر یہی نہیں OIC کے سیکرٹری جنرل نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا ، مظفرآباد اور کنٹرول لائن پر بھی گۓ ۔ اور دسمبر ۲۰۲۲ میں وہ یہاں تشریف لائے ۔یہ ہیں ڈاکٹر حسین ابراہیم طاہا ۔ ان کے ساتھ جو کشمیر رابطہ گروپ ہے OIC کا ، اس کے جو رکن ممالک ہیں ان کے سفیر بھی سب کے سب موجود تھے ۔ اب اِس وزٹ سے جو اک طرف تو سمبولک وزٹ ہے ، پھر مسئلہ کشمیر اُجاگَر ہوا ۔ OIC کی اس میں دلچسپی کا اندازہ ہوا اور دوسری طرف جب اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس ہو گی تو اس میں اِس وفد کے وزٹ کے بارے میں اک رپورٹ پیش کی جائے گی اور وہاں اس پر بحث ہو گی ۔یعنی OIC کے ایجنڈے میں باقاعدہ مسئلہ کشمیر اک طریقے سے دوبارہ زیر بحث آئے گا اور خود سیکرٹری جنرل بتائیں گے کہ میں وہاں ہو کر آیا تھا اور گراؤنڈ سچویشن انہوں نے کیا دیکھی۔

اسی طرح آپ دیکھیےجب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا چن کہ اس مسئلے کو جلد اَز جلد حل ہونا چاہیے۔پھر پاکستان کے وزیر اعظم ، پاکستان کے وزیر خارجہ ہمیشہ اپنی تقریروں میں بھی اور اپنی bilateral meetings میں بھی اِس مسئلے کو ریز کرتے ہیں ۔اور ہماری embassies جہاں جہاں ہیں ، ہمارےسفراءاس مسئلے کو اجاگرکرتے ہیں۔

ناصر قادری :اِس سال 5 فروری پھر سے آنے والا ہے . اِس سال اِس کی افادیت زیادہ ہو گی اِس حوالے سے کہ یہ جو 5 اگست, illegal annexation کا سلسلہ ھوا، اور اس کے بعد اک لیول آف پرسیکوشن (persecution) ۔ جو سیٹلر کولونیل فریمیوورک settler colonial framework))آج انڈیا وہاں پر اپلائی کر رہا ہے ، اور میں آپکو تازی رپورٹس اگر دے دو ، تو اک ہفتے پہلے۸۰۰۰ پیج پر مشتمل اک لسٹ جاری کی جاتی ہے ، جن لوگوں کے پاس مہاراجا کے وقت کی زمینیں تھیں ، یا جائدادیں تھیں ، جو کچھ لاز کے تحت ان کے پاسvested ownership تھی ، اس کو alleged state landکر کے اس پرanti-encroachment drive اسٹارٹ ہو ریا ہے۔ . کل پرسوں کی اگر آپ ویڈیوز دیکھیں ، غریب لوگوں کے مکانین ، دوکانیں bulldoze کی جا رہی ہیں . اور یہ کوئی دس پندرہ مکانیں نہیں ہیں ،بلکہ میں کہتا ہو یہ 8000 پیج پر مشتمل یہ لسٹ جاری ہوا ہا ، اس میں بہت ساری زمینیں ہیں۔ اس میں UN Military observer کا جو آفس ہے، اس کو بھی انہوں نے اس میں ڈالا ہے۔ اس سے پہلے کچھ alleged خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں جو دفتر ہیں military observer کے ان کو وہ بند کر دیں گے . اس میں کتنی صداقت ہے پتہ نہیں ، لیکن اک narrative اسٹارٹ کیا ہوا تھا کچھ فیک انفارمیشن کے ساتھ ، انڈیا کا جو ، آف کورس ، اک ٹول ہے .

خالد رحمٰن: لیکن میرا خیال ہے یہ جو فرزانہ کہہ رہی تھیں ، اِس میں مجھے اپنے آپ بھی سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے تو بہت ساری باتیں ذہن میں آتی تو ہیں . لیکن اک عام آدمی کی سطح پر یہ سوال شاید باقی رہتا ہے کہ اچھا آپ 5 فروری نہیں منائیں گے تو کیا ہو جائے گا ، انڈیا جو کرنا چاہ رہا ہے وہ تو کر ہی رہا ہے۔

فرزانہ یعقوب : ہَم ، مناں کیوں رہیں ہیں . میرا مطلب ماضی میں کیا ہوا تھا کے 5 فروری منانے کا رواج ہے .

خالد رحمٰن: ا بْرار صاحب نے جیسے مثال دی چین کی ، ترکی کی ، اور OIC کی ، تو ان کا تو بڑی حد تک ریکارڈ یہی ہے کے یہ ہمارا ساتھ دے رہے ہیں . بلکہ اِس کے ساتھ آپ کہہ سکتے ہے اک درجہ پر ملائیشیا بھی ساتھ دے رہا ہے .

اَبْرار حسین : آذربائیجان بھی

خالد رحمٰن: آذربائیجان ساتھ دے رہا ہے . اسی طرح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو موجودہ سیکرٹری جنرل ہیں اقوام متحدہ کے ، انہوں نے اک سے زائد دفعہ اِس کو آن بورڈ لیا ہے ، اِس موضوع کو .

اسی طرح سے ہَم دیکھتے ہیں کہ جنیوا میں جو ہومن رائٹس کونسل ہے اس کی طرف سے بھی اک سے زائد رپورٹس آئی ہیں . اور اگرچہ یہ مسئلہ کشمیر سے براہِ راست متعلق نئی ہے ، لیکن یہ ہے کہ ابھی بی بی سی کی جو ڈاکومنٹری آئی ہے ، تو اس نے جو پورا اک ماحول پیدا کیا ہے . تو یعنی اگر ہَم اِس سارے کو دیکھیں تو اسے آگے اور بڑھانے میں ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت ہے ایز پاکستانی ۔ کشمیری جتنی قربانیاں دے رہے ہیں ، کیا اس کے بعد مزید اور قربانی دیں وہ؟ اور کیا قربانی دیں گے جتنی وہ دے رہے ہیں اِس وقت اِس سے زیادہ

ناصر قادری : مجھے ڈکومنٹری سے یاد آ گیا Jack Straw کا ، یہ جو برٹش ڈپلومیٹ وہاں تھے ، ان کی ٹیسٹیمونی آ جانا

خالد رحمٰن:اچھا آج آئی ہے ؟

ناصر قادری : اسی وقت آ گئی تھی . 30 سال بعد اب برٹش ایمبیسی نے بتایا ہے کہ وہاں پر violence ہوا تھا .

فرزانہ یعقوب : ٹائمنگ بہت امپورٹنٹ لگ رہی ہے . کیوں کہ دیکیں وہ جو ڈاکومنٹری ہے ، ہندوستان اس کو بہت اسٹرونگلی ریجکٹ کر رہا ہے . اس نے اپنے ملک میں bam بھی کر دیا ہے کہ this is all false and fake. اور ہندوستان نے تو جو ہے نا بڑی ایکسپرٹیز کر لی ہے کہ حقائق کو وہ فوراً سے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے . اور جھوٹ کو وہ بطور حقیقت بیان بھی کرتے ہیں . اور اِس میں خالد صاحب جیسے آپ کہہ رہے تھے نا کہ جیسے بی بی سی نے ڈکومنٹری بنا لی ، الجزیرا ، باقی بھی جو انٹرنیشنل نیوز چینلز ہیں ، اس میں ہَم دیکھتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے اکنولیجمینٹ کا کہتے ہے کشمیر میں بہت سریس ایشو آیا ہے ، اور اس کو حَل کرنے کی ضرورت ہے . اس پر کسی نا کسی طریقے سے ، کسی نا کسی مختلف زاویے پر بات ہو رہی ہوتی ہے . تو ہمیں پاکستان میں بیٹھ کر . اک تو ہمارے چینلز جو ہیں، ان کو بھی اِس پر توجہ دینی چاہیے کہ ہمیں بھی اِس پر ڈاکومنٹری بنانی چاہیے ، ہمیں بھی اِس پر بات کرنی چاہیے۔ IPS نے آج جو جیسے ہَم بات کر رہے ہیں ، میرے خیال میں یہ بہت اک اچھا اقدم ہے . اور اِس کو بڑھانا چاہیے .

خالد رحمٰن: میرا خیال ہے کسی چینل پر یہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری کسی شکل میں یہاں کسی نے نہیں چلائی

فرزانہ یعقوب : بہت اہم سوال ہے ، مجھے تو یاد نہیں پڑتا .

ناصر قادری : کسی نے وہ ڈاکومنٹری نہیں چلائی ، جو کہ چلانے کی ضرورت تھی کیوںکہ انڈیا نے اسے ban کر دی ۔ ایون ایمرجنسی لاز نافذ کیے گئے کہ سوشل میڈیا پر جو بھی اپ لوڈ کرے گا ، he will be penalized ۔ تو اس سچویشن میں وہاں پر جب اتنا censor ہوا ، تو مجھے لگتا تھا کوئی ہمارے پاس تو آل ریڈی سب کے پاس ہے ، there are so many optionsکہ آپ دونوں episodes اس کے دیکھیں ۔ کسی میڈیا میں نہیں ہوا ، آج کل تو بہت ساری پرائیویٹ میڈیا بھی ہیں ، کہ یا تو آپ دونوں episodes کو چلاتے ، یا اک دن اک episode چلاتے ، دوسرے دن دوسری .

فرزانہ یعقوب : یہ تو بہت زیادہ چلانا چاہیے تھا .

ناصر قادری : ہاں .

خالد رحمٰن: ایسا چیزوں پر پبلک پریشر بلڈ کرنے کی ضرورت ہا .

فرزانہ یعقوب :بالکل

خالد رحمٰن: حکومتیں جو ہیں بعض اوقات تو یعنی سلو ہوتی ہیں اپنےdecision making میں . بعض اوقات یہ ہوتا ہے کے ان کی اپنی جو politics ہے لوکل ان کو انگیج رکھتی ہیں۔ اور ہمارے پاکستان میں تو آج کل یہ بہت ہو رہا ہے . لیکن میرا خیال ہے سوسائٹی کے ہر طبقے نے اِس میں اپنا اک كردار ادا کرنا ہوتا ہے .

اَبْرار حسین: پبلک اویئر نیس

خالد رحمٰن: پبلک اویئر نیس کی بھی ضرورت ہوتی ہے . اور یہ چیز کہ کیا یہ کشمیر کا معاملہ اور ہندوستان میں گجرات میں جو کچھ ہوا ، یا اور جو واقعات ہو رہے ہیں ، کیا ان میں کوئی لنک ہے ۔ یہ میرے خیال میں ہمارے جیسے اداروں کا اک کام ہوتا ہے کہ وہ پبلک کی اِس میں ایجوکیشن کریں کہ ہاں اِس میں اک لنک ہے ، کیوںکہ اِس میں مائنڈسیٹ کا معاملہ ہے ، اور جب آپ ظلم کر کر کے ، آپ کے اندر سنگ دلی کی انتہاء ہو جاتی ہے ، تو پھر آپ یہاں بھی کرتے ہے اور وہاں بھی کرتے ہے ۔ اور یہ دنیا کے لیے شاید اک بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ اتنی ڈکومنٹری ایوی ڈینس کے باوجود جو مودی ہے ، انڈیا کے پرائم منسٹر ، اور ان کو دنیا بھر میں مختلف مفادات کی وجہ سے ریسپونس ملتا ہا . یہاں پورا کا پورا جو عالمی نظام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جو مفادات پر مبنی عالمی سیاسیات ہیں ، یہ ایکسپوز ہوتی ہیں اور اک دائرہ بتاتی ہیں جس میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اَبْرار حسین : میرا خیال ہے ہمیں کم از کم جو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جو کشمیری جس چیز کو فیس کر رہے ہیں اس کے دو پہلوں ہوں اک تو ہندوستان کی جو مکروہ سیاسی چالیں ہیں جنہیں فیس کرنا پڑتا ہے اور دوسرا وہ بھیانک مظالم ، جبر و ستم ہیں جسے وہ فیس کر رہے ہیں ۔ تو اک طرف تو ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہے کے انسانی حقوق کی کتنی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں . کتنے لوگ شہید کیے گۓ ہیں۔ جیسے پچھلے سال ہی میں میرا خیال ہے دو ڈھائی سو لوگ شہید کیے گئے ، کتنے لوگ جیلوں میں ہیں ، کوئی 4000 کے قریب پیچلے سال جیل میں تھے . کتنی جائدادیں ضبط کی گئی ہیں۔ اک اندازہ یہ ہے کہ 2 ارب انڈین روپے کی جائدادیں جو ہیں وہ ضبط کی جا چکی ہیں۔ .

خالد رحمٰن: ویسی اَبْرار صاحب ، آپ کی قطع کلامی ہو رہی ہے . مجھے لگتا ہے یہ بہت ہی اہم نقطہ ہے لیکن اِس کے دو پہلو ہیں۔ پاکستان نے بھی ، کشمیریوں نے بھی ، اور دنیا کے اور لوگوں نے بھی کشمیر میں ہومن رائٹس کی وائی لیشن کو تو موضوع بنایا ہے . ہمارے دوست ناصر صاحب اِس موضوع پر اکثر ہمیں بڑا اچھا سمجھاتے ہیں کہ اصل میں ہومن رائٹس وائی لیشن تو ہے ، اِس سے تو کوئی انکار کر ہی نہیں سکے گا . لیکن اصل میں ، یہ صرف ہومن رائٹس کا ہی اشو نہیں ہے ، اور اک طرح سے کنفیوز کر دیا گیا ہے ساری دنیا کو ۔ اسی سے جڑی اک بات یہ ہوجاتی ہے کہ صاحب یہ دو ملکوں کا مسئلہ ہے . ساری دنیا ہمیں تلقین کرتی نظر آتی ہے کہ آپ bilaterally اِس کو حَل کر لیں . تو بھائی آج تک یونائیٹڈ نیشنز کی ریزولوشنس کا کیا مطلب ہے۔ اگر بائی لیٹرل ہی کرنا تھا تو کیوں یونائیٹڈ نیشنز نے ریزولوشنس پاس کیں ۔ اسی طرح سے جوinternational humanitarian law ہے war crimes ہیں۔ میرا خیال ہے کی آپ اِس میں ہمیں کچھ بتائیں تو یاد آئے گا سب کو

ناصر قادری :یہ اک اہم نقطہ ہے۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کی بات ہے، آج بھی یہ ریلیوینٹ ہے۔ اِس مسئلے کو آج دیکھیں جیسے خالد صاحب نے کہا اِس مسئلے کو دو ملکوں کے درمیان ، territorial dispute کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ territorial disputeسے بھی بالاتر ہے . یہ ملٹری اوکوپیشن ہے . جہاں پر اوکوپیشن ہوتی ہے وہاں ملٹری باضابطہ ہوتی ہے اور ملٹری انویڈ کر رہی ہے سویلین پاپولیشن پر . اور وہاں پر جو مظالم ڈالتی ہے ملٹری تو وہ اک ہومن رائٹس سچویشن نہیں ، war crimes ہوتے ہیں . اور پھر آپ انڈیا کا ریکارڈ دیکھیں ، 75 سال اب انڈیا الیگل وہاں پر ہے . اینڈ دین ، پھر ان کی systematic persecution ہے مسلمز کی .

خالد رحمٰن : ناصر یہ بتائیں کہ کیسے اِس کو ریز کیا جائے کہ یہ سب humanitarian laws کی خلاف ورزی ہے . War crimes ہیں ، کیوں کہ at the end of the dayجو پورا گلوبل سسٹم ہے وہ ہمیں کیسے اِس میں سپورٹ دے گا . یعنی پاکستان کو کیا کرنا چاہیے کہ اِس کے نتیجے میں یہ narrative بھی چینج ہو . اور اِس narrative کے ساتھ ساتھ زمین پر بھی کچھ ایسا اقدم ہو . اور کوئی اک کیس بھی تھا اِس سے ریلیٹڈ .

ناصر قادری :میں اسی پر آ رہا تھا . دیکھیں narrative چینج توپاکستان میں 5 اگست کے بعد بہت حد تک ہوا . اور اس میں IPS کی تو بہت کاوشیں تھیں اور پالیسی سرکلز میں ایٹ لیسٹ ان کو یہ باور کرنا کہ یہ کوئی مونسپل ایشو نہیں کی کے وہاں انٹرنیٹ بند ہے تو ہومن رائٹس ایشو ہے۔ بلکہ یہ full-fledged occupationکا مسئلہ ہے . اب اوکوپیشن سے بھی زیادہ ہے ، اب وہاں سیٹلمینٹس ہو رہی ہیں۔ heinous atrocities crimes اک لفظ ہے international criminal law کے اندر . تو سیریز آف کرائمز وہاں پر ہوتی ہیں۔ .forced disappearances ہے ، extra judicial killings ہے ، ٹارچر normalize ہے وہاں پر ۔ جو آج بی بی سی کی ڈاکومنٹری ہے ، میں تھوڑا اور بتاؤ یہ ڈاکومنٹری میں جو لیکس ہوئے ہے . Jack Strawکا 2010 میں اک کیبل لیک ہوئی تھی وکی لیکس کے نام سے ، تو وہاں پر تو انہوں نے ایکسپوز کیا تھا ان کی ٹیم وہاں گئی تھی تو کس حد کا ٹارچر وہاں پر کشمیر اور پولیٹیکل بزنس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ تو یہ سب یہ جو کرائم ہے وہاں پر ، war crimes ہیں . اب جو خالد صاحب نے کہا کہ دنیا کو کیسے باور کریں . دیکھیں ہماری یہ کوشش رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے 30 سال میں پہلی بار ، یا دوسرا کیس ہے یہ. اک کیس تو جلیل اندرابی صاحب وکیل تھے ، ان کو انڈین آرمی نے مارا اِس ڈر سے کیوںکہ وہ جنیوا سیشن اٹینڈ کرنے گۓ تھے .

خالد رحمٰن: مرنے سے مراد kill کر دیا .

ناصر قادری :مطلب ٹارچر کر کے مار دیا . پھر ان کی جو باڈی تھی، اس کے پیس پیس کر کے اس کو چینل میں پھینک دیا . اینڈ ین اس کا وہ کیس ڈومیسٹک لیول سے آ گے نہیں گیا۔ اس میں جو اوتار سنگھ تھے وہ انڈیا نئے تھوڑے سے پیسے دے کر کینیڈا بھج دیا . لیکن پھر وہ اسٹیبلشڈ کیس ہوا . دوسرا کیس جو ہمارا ہے .

خالد رحمٰن: تھوڑا اگر آپ بتا سکتے ہے کے اسٹیبلش کیسے ہو گیا یہ ، کیا عدالتی سطح پر

ناصر قادری: اوتار سنگھ mysterious circumstancesکی وجہ سے مر گئے اور کچھ انڈین نیوز چینلز نے خبر دی کہ انہوں نے خودکشی کر لی ہے لیکن وہ فرار ہوئے ایز آ وار کریمینل۔ وہ باضابطہ طور پر ایڈووکیٹ جلیل صاحب کے قتل میں ملوث تھے۔ اور ویسے ہی ہم نے جو ایک اٹیمپٹ کیا پچھلے سال جو یو کے میں ہم نے کیس کیا میٹروپولیٹن وار کرائم یونٹ میں۔ اور اس سے مراد کہ ہم نے اسٹیبلش کیا کہ آزاد کشمیر کے سیاسی قیدی جو پچھلے ۱۸ سال سے قید تھے ان کو باہر نکال کر فرضی انکاؤنٹر میں مارا جائے۔ یعنی آزاد کشمیر سے جو مقبوضہ کشمیر گیا ہو مطلب کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے تو ان کی عمر نابالغ تھی اور غلطی سے انہوں نے ایل او سی عبور کرلی۔ اور وہاں گئے اور جیل میں تھے تو ۔۔۔ ہیومن رائٹس ڈیفینڈر نے خود ایک گواہی پیش کی۔ تو نیریٹو ایسے بنے گا۔ جتنا آپ پراپیریٹر کو ایکسپوز کریں گے اور ان کا باہر کی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا اور جتنی بھی جیورسڈکشن میسر ہے، یونیوورسل جیورسڈکشن، اور کوئی بھی۔ تو مجھے لگتا ہے ان چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ آپ دیکھیے جو آپ کی ڈومیسٹکس عدالتیں ہیں انہوں نے ،جہاں تک کشمیر کے مقدمات ہیں،تو وہ اس آکیوپیشن کو سرو کررہے ہیں۔

آپ بابری مسجد کا کیس دیکھیں۔ خود انڈینز کہتے ہیں کہ ہمارا یقین ججوڈیشیل سسٹم سے اٹھ گیا ہے تو کشمیر تو انڈیا کا حصہ ہے بھی نہیں۔ وہ تو ایک الگ معاملہ ہے۔

خالد رحمٰن: میرا خیال ہے یہ بات بہت اہم ہے۔ یہ وہ آگاہی جس کا ابرار صاحب نے ذکر کیا، اب یہ پہلو ہمارے ملک میں ڈسکس بھی ہو اور ہمارے لوگوں کو ایجوکیٹ بھی کیا جائے کہ یہ بہت بڑا ایریا ہے کہ جسے ایڈریس کیا جائے۔اچھا، ایک طالبعلم سوچتا ہے کہ کیا کیا جائے اور فرض کیجیے کہ وہ قانون کا طالبعلم ہے تو آج سے اس کے پاس موقع ہے کہ وہ اس کو اور پڑھے اور کل اس کو اپنے کرئیر کا حصہ بنائے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔اور ہمیں اسے کیسے ٹیک اپ کرنا چاہیے۔اسی طرح سے سفارت خانوں کے لیے ہم یہ چیزیں پروپوز کرسکتے ہیں کہ بھئی سفارت خانوں کے پاس اس کا صحیح علم ہونا چاہیے اور جس ملک میں ایسے وکلاء موجود ہیں جو خالصتًا انسان دوستی کی بنیاد پر اس ایشو کو اٹھا رہے ہیں، ان سے کمیونیکیٹ کیا جائے۔ انہیں مواد فراہم کیا جائے اور میرا خیال ہے کہ ناصر جیسے کچھ لوگوں نے جو کام کیا ہے ان سے ایویڈنس بھی جمع کیا جا سکتا ہے تو یہ کافی بڑی اپرچیونٹی بنتی ہے۔آپ آئی پی ایس کا ذکر کر رہے تھے، ظاہر ہے ہم نے الحمدللہ ہمیشہ سے ہی کیا ہے۔ ۱۹۹۸ ء میں ہمارا پہلا پروگرام جو ایک بڑی سطح پر منعقد کیا گیا تھا، اور مجھے اس اعتبار سے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے کہ ٹھنک ٹینک کے طور پر ہم نے اس وقت چیزوں کو شروع کیا جس وقت گراونڈ پر ایک طرح سے [خاموشی تو نہیں کہنا چاہیے] ذرا دھیما آغاز تھا۔ اور اس کے بعد مسلسل یہ کام ہورہا ہو۔ اور ۵ اکست ۲۰۱۹ء کے بعد تو ہم نے کوئی دو درجن سے زیادہ ایسے ایسکلوسو سیشنز کیے ہیں۔ جس میں محض روزمرہ کےعنوانات شامل نہیں بلکہ وہ چیزیں بھی جو خود پاکستان کے متعلق ہیں اور پاکستان سے بھی بعض اوقات آوٹ آف وے جا کر ایک نامانوس سی آوازیں آتی ہیں مثلًا یہاں کسی وقت گلگت بلتستان کے حوالے سے شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے تو کوئی آزاد کشمیر کے حوالے سے شوشا چھوڑ دیتا ہے۔ اس قسم کی چیزوں پر بھی ہم نے بات کی ہے،یعنی کہ نوٹس لیا ہے اور پالیسی میکرز کے ساتھ میں سمجھتا ہوں یہ خود ایک بہت بڑا محاذ ہے کہ پاکستان کے اندر موجود قومی اتفاقِ رائے ،حکومتوں کی مجبوریاں وقتًا فوقتًا ہو سکتی ہیں، اس کو بھی لاؤنس تو نہیں دینا چاہیے مگر سمجھ سکتا ہے کہ کسی وقت بلند آواز سے بات ہو رہی ہے اور کسی وقت ہلکی آواز سےبات ہورہی ہے تو اس کی مجبوریاں ہوں گی۔لیکن عوامی سطح پر پور ایک اتفاقِ رائے موجود ہے۔ اس اتفاقِ رائے کو اصولی طور پرڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے۔

فرزانہ یعقوب: بالکل سر۔

خالد رحمٰن: دیکھیے، یہ ہمارا کشمیر کے معاملے میں بہت بڑا ایسٹ ہے ۔ کہ پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن ان حکو متوں نےبنیادی چیز کو تبدیل نہیں کیا۔آف اینڈ آن آوازیں آئیں لیکن بنیادی چیز وہیں رہی۔ ٹیکٹکس پر ہمیشہ بات ہو سکتی ہے کہ ٹیکٹیکلی آپ چیزوں کو چینج کردیں تو یہ میرے خیال سے بہت بڑا ایریا ہے۔

ابرار حسین: لیکن انڈیا بنیادی چیزوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔یعنی جو آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش جس میں ۴۲ لاکھ ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ ایشو ہوگئے،۷ لاکھ غیر رہائشی ووٹ ایڈ کردیئے گئے تو اس سارے کا مقصد یہ ہے کہ آبادی کا تناسب بدل دیا جائے۔ اور جو سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں ان کے مقصد سے پہلو تہی کرکے ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں کشمیریوں کی اصل آبادی اقلیت میں چلی جائے۔

خالد رحمٰن: ویسے ابرار صاحب، آپ اپنے سفارتی تجربے کی روشنی میں اسے کیسے بیان کریں گے کہ ایک تو ہیں قرارداد کے الفاظ جو یونائٹڈ نیشنز کے ہیں اور وہ آبادی کو بنیاد بناتے ہیں۔ اب اگر، اور آپ شاید قانونی حوالے سے روشنی ڈال سکیں۔ اب اگر وہ سٹیٹس کو چینج کررہے ہیں یک طرفہ طور پر آبادی ٹرانسفر کرکے، تو لیگلی اس کی کوئی اہمیت ہے کہ جب ریفرنڈم ہو تو اس میں ان سارے لوگوں کو جو ۲۰۱۹ء کے بعد آئے ہیں، ووٹ دینے کا حق ملےگا۔ اور مجھے لاجیکلی تو یہ ٹھیک نہیں لگتا۔

فرزانہ یعقوب: اور اس میں یہ ہے کہ کچھ انٹرنیشنل نیوز آرٹیکلز میں اب یونین ٹیرٹری جموں ایند کشمیر لکھا جارہا ہے ۔

ناصر قادری: اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک یونین ٹیرٹری آف جموں اور کشمیر اور دوسرا لداخ۔اور ابرار صاحب کی بات بہت زبردست ہے کہ دیکھیے یہ جو ڈیموگرافک چینج ہورہی ہے، میسو طریقے سے ہو رہی ہے۔ ڈی لیمیٹیشن کمیشن بھی کنکلوڈ ہوا۔ اور اس میں حلقہ بندیاں ہی بدل دیں۔ یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔ ان مسائل کو لے کر ہم نے پالیسی حکومت کو دینی ہے۔ اگر آج ہم نے پراگمیٹک لیول پر مسئلہ کشمیر پر پیش رفت نہ کی تو اللہ بچائے، کچھ ایسا ہو سکتا ہے یہاں پر۔ [آپ نے خود بتایا]وہاں پر وار آف لبریشن ہورہا ہے۔Its because of United Nations guaranteed self determination.

اور بہت ساری قراردادیں ہیں اور اب قراردادوں کو تبدیل کرنے کے لیے ان حربوں کا استعمال کررہے ہیں اور وہ ہے سیٹلر کالونیلزم۔ اور آپ نے ایک اور بات کی کہ کیا قوانین اس کوپروہیبٹ کرتے ہیں۔ تو دیکھیے، انڈیا پاکستان دونوں جیینیوا کنو شن کے سگنیٹری ہیں اور ریٹیفائی بھی کیا ہوا ہے۔ اور فورتھ جینیوا کنونشن Forceful Transfer of any Land کو وہ prohibit کرتا ہے۔تو وہاں کیا ہورہا ہے؟ فورس فل ٹرانسفر آف لینڈ ہورہا ہے۔ انڈسٹریلسٹکس کو وہاں پر زمینیں دی جارہی ہیں اور [یہ جو میں نے ابھی آپ کو alleged state land encroachmentکا کہا۔۔۔]دراصل ان کا مقصد ہے کہ میں باشندہ ناصر قادری، جو میری زمین ہے میں کبھی نہ کسی غیر ریاستی کو بیچوں گا۔ تو باہر والے انڈسٹریلسٹ جو انہوں نے پالیسی کی، they have no other option.

تو انہوں نے اسٹیٹ لینڈز کو ہی دینا شروع کردیا۔وہ بہت خطرناک ہے۔اور مجھے لگتا ہے کہ ایک پریکٹیکل اور پریگمیٹک لیول پر پاکستان کو ایز آ سٹیٹ کچھ آپشنز ہیں جو آج کی صورتحال میںOf course, Diplomacy with Power، کو ہم تھوڑا سا سائیڈ پر کرکے لیکن کچھ اور بھی اپرچیونیٹیز ہیں جنہیں ایکسپلورکرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ان کو باضابطہ فارن آفس لے کر جائیں اور ان کو بتائیں کہ الارمنگ سچویشن ہے اور اس کو آپ اس طریقے سے ڈیل لرسکتے ہیں۔

خالد رحمٰن: میرا خیال ہے ایک آدھ سیشن اس پر کرنا چاہیے ۔

فرزانہ یعقوب : اور ساتھ میں یہ بھی ہے کہ جیسے ہم نے شروع میں کہا تھا کہ باتوں سے بات ہی ہوتی ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب کشمیر پر بات ہوتی ہے تو بہت زیادہ rhetoric ہوتا ہے، پرانی باتیں ہوتی ہیں اور اسی پر جذباتی بھی ہوتے ہیں، اظہارِ یکجہتی بھی کرتے ہیں اور یونہی بات کا اختتام ہوجاتا ہے۔ لیکن ہمیں اس سے آگے نکلنا پڑے گا۔آج ہماری باتوں میں آپ سب نے حل پیش کیے ہیں، جیسے کیسز لاؤنچ ہونے چاہئیں، کانٹینٹ کریشن ہونی چاہیے۔ بالعموم آپ جب کشمیر کو ریسرچ کرتے ہیں تو انڈین کانٹینٹ ٹاپ پر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے پُش کررہے ہیں۔کانٹینٹ کرییٹ بھی کرنا چاہییے، اسے disseminate بھی کرنا چاہیے اور ہمیں انشور کرنا چاہیے کہ ہمارا یوتھ اتنا ہی ایسوسی ایٹڈ ہو اس کانفلکٹ کے ساتھ، جس طرح ہم سے پہلے والے نسل تھی۔ ایک تناؤسا محسوس ہوتا ہے کہ جہسے لوگ کہتے ہیں کہ بھئی جو ہورہا ہے وہی ہورہا ہے، کچھ اور ہو نہیں سکتا۔ یہ جو "کچھ اور ہو نہیں سکتا” ہے، اسکا جواب ہمیں دینا پڑے گا۔پھر بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ اور ہم بحیثیتِ باشندہ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اس میں ملکوں کی جو ذمہ داریاں ہیں، وہ پوری کریں یا نہ کریں، وہ الگ بحث ہے ۔ لیکن انفرادی قوت بہت زیادہ ہے۔

خالد رحمٰن: میں آپ کی بات کو اس طرح ری ورڈ کروں گا کہ افراد کا ایک بہت بڑا کردار یہ ہے کہ وہ اپنی حکومتوں پر دباؤڈالیں۔ اور ایکچولی یہ ہمارے ہاں تھوڑا انفارچونیٹ ہو گیا ہے۔ اس وقت جو ایک غیر معمولی پولارائزیشن ہے ، اس میں روزانہ جو narrative اورcounter narrative بنتا ہے تو وہ بہت ہی مائنر ایشوز پر مبنی ہے۔ اور اس میں جو نیشنل ایشوز اور نیشنل ا نٹرسٹ ہیں، وہ عملًا سیکریفائز ہورہا ہے۔ تو میرا خیال ہے ایک عام نوجوان ، جس کے پاس وقت بھی ہے اور گیجٹس بھی ہیں، اور thoughts بھی ہیں اور سکلز بھی ہیں کہ وہ بہت کچھ کرسکتا ہے، اسے اس جانب ڈائورٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ نیشنل ایشوز پر آؤ، سوشل میڈیا کا استعمال کرو اور اس کو سچائی پھیلانے کے لیے استعمال کرو۔ نہ کہ معمولی چیزوں پر وقت ضائع کرو۔ اسی کا جو دوسرا رخ ہے کہ نیشل ایشوز کی صحیح انڈرسٹینڈنگ ڈیویلپ کی جائے۔ اس وقت بدقسمتی سے چونکہ ایک یلغار ہے کہ آج کل کے دور کوpost-truth کا دور کہتے ہیں اور ہم نے گزشتہ سال کراچی یونیورسٹی میں اس موضوع پر ایک سیمینار بھی کیا۔دراصل سچائی تو چھپ گئی ہے۔ تو اس سچائی کو تلاش کرنے کی کوشش نوجوان کی طرف سے ہونی چاہیے۔اور میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ آج بھی کشمیر میں انڈین فوجی دس لاکھ کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں۔ اچھا، اب تو دو سال سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں، سوادو سال گزر گئے ہیں، اور اس عرصے میں ان سارے اقدامات کے باوجود، انڈیا وہاں سے فوجی نہیں نکال پایا۔ تو اسکا مطلب یہ ہے کہ جو اس نے تقریبًا ۵ اگست کے بعدآخری کارڈ کھیلا ہے اور اس وقت جتنے اقدامات ہیں، اس سے زیادہ اور کیا کرےگا۔ لیکن وہ اگر وہاں سے فوجی نہیں نکال پارہے تو اسکا مطلب ہے کہ صورتحال ان کے کنٹرول میں نہیں ہے۔اوراب توانڈیا میں سے بھی بہت ساری آوازیں پرومیننٹ لوگ اٹھا رہے ہیں کہ بھئی یہ تو کوئی ۵ اگست کے بعد کشمیریوں کو ہم نے اپنے قریب نہیں کیا۔ جہاں تک لالچ دینے کی بات ہے اس میں بھی انڈیا نے کبھی کمی نہیں کی تو میرے خیال میں یہ وہ صورتحال ہے جسے اگر صحیح طرح سے لوگوں کے سامنے لایا جائے تو لوگوں کا حوصلہ بھی ہوگا اور کام کرنے کے قوت میں بھی اضافہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں نے بدقسمتی ، اس کے پیچھے پاکستان کی اپنی غلطیاں بھی ہیں اور لوگوں کی بھی، سیاسی قیادت اور اداروں کی غلطیاں ہیں اور پھر ایک پورا بین الاقوامی ماحول ہے۔ اس سب نے ہمیں ایک ڈپریشن کی سی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔

ناصر قادری: آپ کی ایک بات بہت زبردست ہے۔ اور امید تو بہت انٹیکٹ ہے۔لیکن graveyard silence اور لیول آف پرسیکیوشن اس لیول کا تھا ، اے ایس دولت نے ایک بائیوگرافی لکھی ہے، اس میں ایک پورا باب اجیت دوول پر ہے۔ تو پچھلے دنوں وہ انٹرویو دے رہے تھے تو میں نے انہیں کہا تھا کہ ایسی ایسی سچویشن ہے۔ چونکہ میں نے کام کیا ننہیں تو اس نے کہاEnough Now، ڈنڈا چلے گا۔

میسکیولر پالیسی چلے گی۔ اور اسی میسکیولر پالیسی کی وجہ سے ابھی لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ لوگوں میں خوف ہے۔ زمینیں لے رہے ہیں اور انہوں نے اب ایک اور چیز کی ہے کہ آپ دیکھیے کاؤنٹر انسرجنسی measures آج کیا ہیں۔ ہم نے ایک رپورٹ تیار کی ہوئی ہے، انشاءاللہ۔ اس میں انہوں نے جو مینز اور میتھڈز استعمال کیے، اسے وہ خود کاؤنٹر انسرجنسی مییرز کہتے ہیں، جن میں زمینیں لیتے ہیں۔ اور اس لیے ایک گریویارڈ سائیلنس ہے۔میڈیا کو کتنا کنٹرول کیا۔ میڈیا پرسنز کو بند کردیا۔ خرم پرویز ہیومن رائٹ ڈیفنڈر ہیں، انہیں حال ہی میں اور ایک ایوارڈ ملا ہے۔ ان کو جب ان ریٹن لاء کے اندر بند کردیں تو خاموش ہے۔اب آتی ہے بات ذمہ داریوں کی۔ آپ نے خود کہا ہے کہ کہیں پر کچھ کوتاہیاں رہیں۔ لیکن خالد صاحب میں آپ کو کہوں کہ کل آپ نے یہ بیان خود دیکھا ہوگا، وہاں پر بھی کچھ ایسی چیزیں آئیں جن کے ہم خواہاں تھے۔ وقت آگیا ہے کہ یہ جو آزاد کشمیر کی حکومت ، مین سٹریم اور اپوزیشن ہے، ان سے گفتگو شروع ہو، انڈیجینیٹی پر۔ لیکن اس میں ایک چیز ہے۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر ہمارا نیرریٹو سیٹ ہے اور اکوپیشن ہے اور قرارداد تھی اور وہاں جو کچھ ہورہا ہے۔ مثلًا لبریشن کے لیے جنگ ہو رہی ہے، which is very much legal

تو وار آف لبریشن میں وائیلنس بھی کسی حد تک جائز ہے اور نان-وائیلنٹ مینز بھی ہیں۔ تو جتنے بھی ایکٹرز ہیں، ان کو لے کر فیز وائز کام کیا جا سکتا ہے۔

فرزانہ یعقوب: دیکھیں اس میں یہ بھی ہے کہ بحیثیتِ انسان سب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کریں۔ کشمیری بھی انسان ہیں تو انہیں دہشت گرد کہنا اور اسی قسم کے مختلف القابات دینا، جبکہ وہ اپنی جان کی حفاظت کررہے ہوں، ہندوستان کی فوج اپنی امیونیشن سے حملہ کررہی ہے، اور کچھ کچھ لوگ وہاں پروٹیسٹ کرتے ہیں اور ان کو اس بیہمانہ طریقے سے قتل کردیا جاتا ہے تو کشمیریوں کی کوشش towards removing this abuse

اس کے بارے میں ہمیں الفاظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہمیں قبول کرنا چاہیے کہ ہمارے کشمیری بہت بڑی ہمت دکھا رہے ہیں۔ اور یہ انکا حق ہے۔ fighting back is the right, they have, they should and they always have.

یہ اپالوجیٹک سا جو رویہ کبھی کبھا ر اپنا لیا جاتا ہے وہ ہمارے لیے قطعًا سوٹ ایبل نہیں ہے۔

ناصر قادری: اور جو رہٹرک چلا رہے ہیں اور اس پر ہم اپالوجیٹک ہورہے ہیں، یہ ان کا رہٹرک بن گیا ہے۔ اس پر بھی بات ہو سکتی ہے۔ ٹھیک ہے۔ تو اس کو تھوڑا سا شفٹ کرکے اے جے کے سینٹرک سے اگر بات کرلی جائے۔۔۔

فرزانہ یعقوب : Kashmiris can be very very effective

خالد رحمٰن: نہیں، اس میں آپ کو یاد کہ ہم لوگوں کی جو میٹنگز ہوئی ہیں اور اس کے بعد جو رپورٹس ہیں، ہم پبلکلی یہ بات کہتے رہے ہیں اور میر خیال ہے اسے بار بار دہرانے کی ضرورت ہے کہ بعض اوقات ہماری قیادت کی جانب سے اس قسم کے بیانات آتے ہیں کہ جنگ کوئی آپشن نہیں ہے، یہ قانونی طور پر جیسے ناصر نے کہا، اول تو قانونی طور پر یہ آپشن ہے اور ہمارا اس پر اتفاق ہے اور یہ بطور دھمکی نہیں بلکہ ایک سیریس پالیسی آپشن کے طور پرہماری پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ کب کریں، کیسے کریں، وہ فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن یہ کہنا نہایت ہی اپالوجیٹک طرزِ عمل اور حکمت کے خلاف ہے اور انڈیا کو کھلا میدان دے رہا ہے تو اس کو ہمیں کہنا چاہیے۔

ناصر قادری: میں اور دوہرا رہا ہو یہ جو انڈین سیٹلر کولونیل میکانیشن اور جو اسرائیلی اسٹائل سے ہو رہا ہا اکین سچویشن ہے . جو چیزیں اسرائیل کر رہا ہے یا کر چکا ہے ، وہ یہ اب انڈیا کر رہا ہے . ان فورچونیٹلی جہاں تک آپ انٹرنیشنل لاء کی بات کاریں تو انٹرنیشنل لاء اگر آپ خود بھی دیکھیں تو انٹرنیشنل لاء نے ہمیشہ oppressor کا ہی ساتھ دیا ہے . بالخصوص جہاں تک فلسطین اور کشمیر کی بات آپ کریں ، یہ رائٹ تو سیلف ڈیٹرمنیشن UN چارٹر میں بھی ہے ۔ انٹرنیشنل لاء کی کتابوں میں آپ اس کا ذکر کریں گے۔ لیکن جہاں انٹرنیشنل لاء کی implementation کی بات آتی ہے ، تو وہاں پر آپ ہمیشہ دیکھیں اسٹیٹس کا انٹرسٹ ہوتا . دیکھیں انٹرنیشنل لاء فیل کیوں ہوا کہ انڈیا اکنامک منڈی ہے امریکہ کے لیا ، تو کہیں نا کہیں سبجوگیٹڈ ہے انٹرنیشنل رلیشن . آپ دیکھیں آج کشمیر میں لوگ بے گھرہو رہے ہیں ، آج کشمیر میں زمینیں چینی جا رہی ہیں ، ان کو کوئی حق نہیں . اُدھر اک فریسٹیشن کی کہفیت ہے .

فرزانہ یعقوب : آپ سہی کہہ رہے ہیں ، ناصر کہ لوگوں کو بے گھر کیا جا رہا ہا ، ان کی زمینیں لی جا رہی ہیں بالکل جیسے ہَم دیکھتے ہے اِسْرائِیل فلسطین میں کر رہا ہے . وہی ماڈل کم و بیش کشمیر میں کیا جا رہا ہے . ایسے وقت میں کشمیریوں کو حق ہے۔ with the minimum ammunition they have, it’s their right ۔ اور ہَم یہاں بیٹھے ہیں۔ We must protect their rights by having these conversations۔ وہ جو کر رہے ہے ، وہ سہی کر رہے ہیں۔ یکھیں لوگوں کا ساتھ دینے کے مختلف طریقے ہوتے ہے . اور اس میں سے کچھ responsibilities اسٹیٹ کی ہوتی ہے ، کچھ انڈیوییوئل کی ہوتی ہیں . ہمیں ایکنالج کرنا ہے کہ ہمارے لوگ جو وہاں پر کر رہے ہیں ، جو فائٹ بیک کرنی ہے اور جو کر رہے ہے، وہ بہترین طریقے سے کر رہے ہیں ، محدود وسائل ہیں ان کے پاس، لیکن بہت خوبصورتی سے وہ ہندوستان کی فوج کے سامنے ڈات کر کھڑے ہیں۔ اور اِس میں مرد، خواتین، بچے، اور ان سب کو2019 کے بعد سے کس قدر اور کتنے زیادہ لوگوں کو انہوں نے جیلوں میں ڈال دیا . لیکن ہمارے لوگ ، اسپیشلی اِس میں جو نوجوان ہیں، خرم پرویز کی بات ہوئی ، فیصل کی ہوئی . جرنلسٹس کو بند کیا جا رہا ہے ۔ اِس میں ہمارے وہاں پر جو جرنلسٹ ہیں ، ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ ملے ہیں اور پرائز ملا ہے . اِس میں اہم بات ہے ۔ تو انٹرنیشنل کمیونیٹی کی ہَم لوگ کہتے ہے سائلینس ہے ، آپ یہ بھی دیکھیں کے تھوری توجہ ہے . کشمیر کی کوریج پر کشمیر جرنلسٹ کو ایوارڈ مل رہے ہیں . یہ اِس سے پہلے نہیں ہوتا تھا . ہندوستان خود کو چاھے جو کچھ بھی سمجھے ، اور جتنا بھی کشمیریوں کو اوپریس کرے ، لیکن جتنی ان کی خواہش ہے ، اس طریقے سے انکی آواز بند ہو نہیں پا رہی . اکنولیدجیمنیت مختلف طریقوں سے مل رہی ہے . ایسے میں آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو زیادہ ایکٹیو رول پلے کرنا چاہیے . پاکستان ہمارا وکیل ہے ، اس کو جو کرنا چاہیے وہ کرنا چاہیے . لیکن جو representation دینے والی بات ہے، یہ ہماری ذمہ داری ہے ، اور اِس پر ہمیں میٹر کرنا چاہیے .

ناصر قادری : اک بات یاد آ گئی ہے انٹرنیشنل لاء کے حساب سے بتا دو ۔ 2005 میں بہت سارے ممالک جن میں انڈیا اور پاکستان بھی شامل تھے ، بہت ساری کنٹریز تھی ، میں بھول گیا 180 کے قریب کنٹریز اک نورم سائن کیا رسپانسبلیٹی تو پروٹیکٹ ، جہاں پر پاکستان کی طرف سے پرائم منسٹر صاحب اور منموہن صاحب تھے ، دونوں تھے۔ اس میں تھا کہ every state has a responsibility to protect۔ آج اگر انڈیا وہاں پر occupying اسٹیٹ ہے تو occupier occupying اسٹیٹ کی رسپانسبلیٹی ہوتی ہے تو پروٹیکٹ۔ آپ بتاۓ امبیسڈر صاحب اِس چیز میں کوئی سفارت نہیں ہو سکتی کیا ، about that commitment in front of 186 countries، جہاں پر انڈیا پاکستان بھی اس میں تھے جب انہوں نے pledge کیاکہ every country has a responsibility to protect its citizens۔ اب اگر occupying اسٹیٹ ہے ، ان کو بی یہ رسپانسبلیٹی ہے نا۔

فرزانہ یعقوب : جی ،war zones میںcivilians کی پروٹیکشن کی بات ہے۔ .

اَبْرار حسین: بالکل ہے . اور پھر خاص طور پر یہ تو اک رائٹ آف سیلف ڈیٹرمنیشن کا اک کیس ہے ، جو بہت obvious ہے . اور اگر کوئی بھی قوم یا گروہ سیلف ڈیٹرمنیشن کے لیا ایفرٹس کر رہا ہے ، تحریک چلا رہا ہے ، تو آپ انہیں terrorists سے ایکویٹ نہیں کر سکتے . There is no way ۔ لیکن ان فورچونیٹلی انڈیا ایسا کر رہا ہے اور بڑے عرصے سے کر رہا ہے . اور اسی وجہ سے انڈین فارن منسٹر اور انکا پورا فارن آفس جہاں کہیں بھی کوئی گفتگو ہوتی ہے ، میٹنگ ہوتی ہے ، تو اس میں وہ کشمیریوں کو ٹیررسٹ قرار دیتے ہیں ، اور پاکستان کو ایپی سینٹر آف ٹیرارزم . صرف اِس لیے کہ پاکستان کشمیریوں کی سفاراتی اور اَخْلاقی مدد کر رہا ہے . ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے دورے پر گئے تھے انڈین فارن منسٹر ، 1 1 . 5 مہینے کی بات ہے ، اور وہاں جا کر بھی انہوں نے یہی کہا کہ پاکستان جو ہے ٹیرارزم کا ایپی سینٹر ہے ، مرکز ہے . کیوں ، کیوںکہ وہ کشمیریوں کی اَخْلاقی اور سفارتی مدد کر رہا ہے . تو this is very unfortunate۔

خالد رحمٰن: میرا خیال ہے بہت اچھا آج ہماری یہ گفتگو ہوئی ہے ، بہت سے آئیڈیاز اک طرح سے تازہ ہو گئے ہیں ، کہ جس پر ہمیں اور بھی کام کرنا چاہیے . لیکن دو تِین باتیں مجھے لگتا ہےجب ہَم اِس مجلس کو ختم کر رہے ہیں تو دوہرا لیں۔ اک تو یہ ہے کہ دیکھیں نا یعنی اسٹراگل تو انسانی زندگی کا اک لازمی حصہ ہے . بچہ دنیا میں آتا ہے تو پہلی اسٹراگل وہ چیخ کے رو کے کرتا ہے ، تو اس کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ زندگی کسی اور اسٹراگل کے میدان میں چلی جاتی ہے . تو دنیا میں اک بہت بڑی تعداد تو لوگوں کی ایسا ہے جو اپنی 9 ٹو 5 کی روزی کو ہی اسٹراگل سمجھتے ہے . اور چند روپوں کے عوض اپنی پوری زندگی گزر دیتے ہیں۔ وہ لوگ بڑے ہوتے ہیں کہ جو اس کے برعکس کسی کوز کے لیا کام کر رہے ہوں . اور کشمیر کے لو گوں نے اِس کی اعلی ترین مثال قائم کی ہے آج کے دور میں ، اعلی ترین مثالوں میں سے اک بڑی مثال قائم کی ہے ، کہ پوری کی پوری آبادی چند لوگوں کو چھوڑ کے وہ اک بارے کوز کے لیے سرگرم ہیں۔ کتنے لوگوں نے اپنی جانیں دے دی . اور کتنے لوگوں نے اپنے پیاروں کی جانین دے دی . لیکن جہاں تک ان کا اِس کوز کے ساتھ وابستگی کا تعلق ہے ، اس میں کمی نہیں آئی ، سارے مظالم کے باوجود . دوسری جانب اک حقیقت یہ ہے کہ ساری دنیا کا نظام جو ہے یہ دہری معیار پر مبنی ہے . اور ہمیں اسی میں سے راسته نکلنا ہے ، یہ اک طرح سے یعنی اپورچنیٹی بھی اسی نظام میں ہے ، کیوںکہ آن پیپر بہت سارے قوانین موجود ہیں . اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان آن پیپر قوانین کو امپلیمنٹ کیسے کیا جائے ، ان ریزولوشنس کا معاملہ بھی یہ ہے . تو اسٹراگل کا یہ اک بہت بڑا میدان بن گیا ہے . اچھا اب اِس میں آج کی دنیا میں جو ٹولز ہے ، ٹیکنالوجی کے اور میڈیا کے میدان میں ، اس نے narrative کی اہمیت کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے . اور حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو فزیکل جنگ کے مقابلے میں ہے ہی narrativeہے ، جس میں آپ اپنے مد مقابل کو زیادہ بدنام کر دیں ، ان کو زیادہ نفسیاتی طور پر کمزور کر دیں ، تو اس کے نتیجے میں آپ اس کی شہرت کو دنیا میں داغدار کر دیں ، تو اس کے نتیجے میں آپ آگے بھر رہے ہوتے ہیں ، اور آپکا مد مقابل پیچھے جا رہا ہوتا ہے . ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کے سم ہاؤ ہَم اِس میں پیچھے رہ گئے ہیں ایز آ نیشن . حالانکہ ہمارے پاس اک بہت سچا کیس ہے ، تو سچائی کو پروموٹ کرنا سب سے آسان ہوتا ہے ، لیکن یہ جو پورا گلوبل معیارات ہیں ، دوہرے معیارات ہیں اس کی وجہ سے۔ یہ اگر معمولی میدان ہے narrative کا ، اس کو توجہ دی جائے Narrative پر توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کا narrative بھی تھیک ہو ، اس کا کونٹینٹ اٹریکٹِو بی ہو ، اس کی packaging بھی ٹھیک ہو ، dissemination بھی ہو ، اور اس کے لی ے پوسٹ ماڈرن ٹیکنالوجی جو ہے ، اسے استعمال کیا جائے . تو یہ ساری چیزیں ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے . اک بات کا مجھے اور بھی خیال آتا ہے۔ میرا خیال ہے میں نے پہلے بھی اِس طرف سوچا ہے کہ یہ جو polarization. ہے نا ، اِس نے ہمارے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی متاثر کر دیا ہے . ہمارے بیرون ملک پاکستانی جو ہیں ، ان کے سامنے آگین وہ نیشنل ایجنڈا ہونا چاہیے کہ وہ باہر کی دنیا میں اِس نیشنل ایجنڈا کو کیسے آگے بڑھیں . ویسے یہ بات درست ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد ، مجھے لگتا ہے کے diaspora نے پہلے کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھ کر کچھ نا کچھ مسائل کو متعارف کرانے میں ، خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں initiative لیا ہے . لیکن حقیقت میں یہ اک میدان ہے . بالکل اوپن ایریہ ہے جس میں جتنا زیادہ ہَم کر سکتے . اور اس میں ٹارگٹ بیان کر سکیں لوگوں کو . اور اس میں انگریزی زُبان بڑی اہم ہے ، لیکن دنیا کے سارے ملکوں کی زُبان آج بھی انگریزی نہیں ہے . اور آپ کسی علاقے میں ہیں ، لوگ اس علاقے میں لوکل لیول پر لوگوں کو کیسے کمونیکشن کریں ، اِس میں ظاہر ہے ہمارے فارن آفس کا بھی رول ہے ، مقامی طور پر لوگوں نے جس کے پاس جو صلاحیت ہے ، diaspora کو بھی اِس طرف توجہ دینی چاہیے . اور ظاہر ہے جہاں جہاں electoral politics ہے ، سارے ملکوں میں تو نہیں ہوتی . جہاں جہاں electoral politics ہے ، اور ظاہر ہے یورپ اور امریکہ میں تو لبرل پولیٹلکس ہے ، وہاں کا diaspora اپنے آپ کو اگر سہی طور پر منظم کرے ، تو ایسی مثالیں موجود بھی ہیں کہ وہاں انہوں نئے جو پارلیمنٹ کے ممبرز ہیں ، کونسنٹریٹ کیا ہے تو انہوں نے آگے بڑھ کر کوئی رول بھی پلے کیا ہے . دراصل اِس سارے عمل کو زیادہ تیز کرنے کی ضرورت ہے .

ناصر قادری : بالکل۔

خالد رحمٰن: باقی انشا اللہ IPS میں ، ہَم نے ماضی میں بھی ان ٹیلکچول کام کر سکتے ہے وہ کیا ہے ، پالیسی پیپرز ہر موضوع پر شیئر کیے ہیں .

میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ جو چیز ہے سہی ہے ، بھول بھی ہو جاتی ہے ظاہر ہے . سیاست کی اور حکومتوں کی اپنی ڈائنامکس ہوتی ہیں ، لیکن میرا خیال ہے there is enough evidence، کہ اگر کچھ چیزیں ہو رہی ہیں تو اس میں ہَم نے یہاں جو چیزیں کی ہیں اس کا بھی اک حصہ ہا . اِس سے چیزیں آگے بڑھتی ہیں اور میرا خیال ہے انشا اللہ اسے اورaggresively کرنا چاہیے .

ناصر قادری : بالکل ، اہم موضوع ہے یہ جو میں نے ذکر بھی کیا . Legitimate war of liberation to right to self determination.

یہ دو امپورٹنٹ اشوز کو مجھے لگتا ہے ضرورت ہے . اک تو یہ وار آف لبریشن فور رائٹ تو سیلف ڈیٹرمنیشن . اِس کے پولیٹیکل ڈائنامکس ہے اور لیگل بھی . اور اِس میں applicability آج کی geopolitical سچویشن میں کارگر ہو سکتی ہے ، اور

دوسری بات یہ جو چھوٹا سا آرمی آفیسر ہے sovereign کنٹری کو تھریٹ دے رہا ہے کہ میں آزاد کشمیر لو گا . کیا یہ ایکٹ آف ایگریشن نہیں ہے؟

خالد رحمٰن: بالکل نقطہ اٹھانا چاہیے اسے .

ناصر قادری : دیکھیں نا راجنات سنگھ تو ڈیفینس منسٹر کے بعد اک چھوٹا سا کور کمانڈر بیان دے رہا ہےکہ ہَم جی حملہ کریں گے پاکستان پر ۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر ہے کیا

فرزانہ یعقوب : یہ ریگولرلی اپنا ایگریشن ایکسپریس کرتے رہتے ہیں .

ناصر قادری : یہ ایکٹ آف ایگریشن ہے ، آپ اگر Rome Statute دیکھ لیں تو Rome Statute میں elements of crime تین ہیں;war crimes ، crimes against humanity and crime of aggression. ۔ تو ایگریشن کے زاویہ میں آپ اِس کو دیکھیں تو اک sovereign کنٹری کو آپ للکار رہے ہیں . کہہ رہے ہیں ہَم آئے گے ایسا کریں گے . دن دہاڑے آپ کے وہ جو انڈیا کے ریٹائیرئڈ یو ٹیوب پر بیٹھ کر آپ کو بتاتے ہے کہ ہَم آپ کی اگریشن ادھر سے بی کعیں گے اور جو کچھ یہ TTP ہو رہا ہے ہمیں پتہ ہے اک ہفتے میں یہ کریں گے اگلے ہفتے میں ایسا ہو گا ۔ تو یہ ایگریشن ہے ، اِس پر بھی کیسے یہ imperative ہو گا حکومت لے سکتی ہے ، ہَم ان کو بتا سکتے ہیں .

خالد رحمٰن: فرزانہ آپ کا جو سوال کیا گیا تھا کہ 5 فروری کا کیا فائدہ ہے ، اب آپکو سمجھ میں آ گیا ھو گا کہ یہ 5 فروری نا ہوتا تو ہَم اتنے آئیڈیاز شیئر نا کرتے۔ چلیے آئِنْدَہ پھر ملاقات بھی ہو گی ان شا ﷲ۔

.

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے