جرائد کے اشاریے

جرائد کے اشاریے

دُنیا ے علم و ادب میں رسائل و جرائد کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کے پیش نظر اُن کی مجلدات محفوظ کی جاتی ہیں، اور برس ہا برس پر محیط مجلدات کے اشاریے تیار کیے جاتے ہیں، تاکہ ان رسائل سے استفادہ آسان تر ہو جاے۔ مختلف موضوعات پر کتابیاتی خدمات فراہم کرنے والے ادارے اس کام میں لگے ہوے ہیں، اور بعض موضوعات پر تو اُن کی جانب سے ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر رسائل کے محتویات کے اشاریے شائع ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ماضی میں رسائل و جرائد کے تحفّظ اور ان سے استفادے کی مضبوط روایت نہیں رہی،تاہم اکاد کا کتب خانوں اور باذوق افراد نے کچھ زحمت برداشت کی، اور اسی کی بدولت، ایک حد تک ہم اپنے ماضی میں جھانک سکتے ہیں۔ پچھلے پچیس تیس برسوں میں ہمارے ہاں فہرست نگاری اور اشاریہ سازی کو کچھ اہمیت حاصل ہوئی ہے، اور خوش آیندامر یہ ہے کہ یہ رجحان ترقی پذیر ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں شائع ہونے والے چند اشاریوں سے استفادے کا موقع ملا، تو ان کی خوبیاں اور خامیاں دونوں سامنے آئیں۔ ہزار خوبیوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ رسائل و جرائدکے اشاریوں کی اشاعت سے اہلِ علم نے کتب خانوں میں متعلقہ رسائل و جرائد کی تلاش شروع کردی ہے، اس کے نتیجے میں کتب خانوں کے شعبہ ہاے جرائد متحرک ہوگئے ہیں، رسائل کی حفاظت پر توجہ بڑھ گئی ہے اور کتب خانوں کے مہتمم اپنی ناقص مجلدات کو مکمل کرنے میں لگ گئے ہیں۔
کسی رسالے کے اشاریے کا بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ اُس کی مجلدات میں جو کچھ شائع ہوا ہے، وہ سب کچھ مختصر وقت میں معلوم ہوجاے۔ ضرورت مند قاری بیسیوں، اور بعض اوقات سیکڑوں پرچوں کی ورق گردانی سے بچ جاے اور اُسے زیادہ وقت صرف کیے بغیر معلوم ہوجاے کہ کسی رسالے /جریدے میں اُس کے لیے کوئی مفید مطلب لوازمہ دستیاب ہے یا نہیں؟ اور مثبت جواب کی صورت میں وہ فوراً متعلقہ شمارے تک پہنچ جاے۔

مرتبین اشاریہ میں ایک بڑی تعداد کتب خانوں کے منتظمین کی ہے، اور اُن کے ہاں کتاب کی تلاش مصنف، عنوانِ کتاب اور موضوع کے حوالے کی جاتی ہے، اور یہی معیاری طریقہ ہے۔اِس اندازِ جستجو پر تکیہ کرتے ہوے انہوں نے کسی جریدے کے اشاریے میں بھی تین طرز کی فہارس (بحوالہ مقالہ نگار، بحوالہ عنوان مضمون اور بحوالہ موضوع) بہ ترتیب حروف تہجی مرتب کی ہیں۔ مقالہ نگار اور موضوع کے اعتبار سے تو قاری کا ذہن واضح ہوتا ہے اور وہ بآسانی اپنی ضرورت کا لوازمہ تلاش کر لیتا ہے، مگر عنوان کے حوالے سے صورتِ حال ہمیشہ غیر واضح رہتی ہے کہ مقالہ نگار نے اپنی تحریر کا کیا عنوان رکھا ہوگا؟ مثال کے طور پر مومن خان مومن کے بارے میں اردو زبان و ادب کا طالب علم لوازمے کی تلاش کے لیے موضوعات کے اعتبار سے اردو شعراء، انیسویں صدی کے اردو شعراء، اُردو غزل گو اور مومن خان مومن کے تحت اندراجات دیکھ لے گا، اور اگر قاری یہ جانتا ہے کہ مومن کے بارے میں کس کس نے قلم اٹھایا ہے تو اُن کے ناموں کے حوالے سے وہ بآسانی معلوم کر لے گا کہ ان افراد کی کوئی تحریر زیر نظر اشاریے میں آئی ہے یا نہیں؟ مگر مومن کے بارے میں لکھنے والے نے عنوان کیا سوچا ہوگا؟ اِس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، جہاں ’’مومن کی شاعری‘‘ جیسا سادہ سا عنوان ہو سکتا ہے، وہیں عنوان یہ بھی ہو سکتا ہے: ’’سید احمد شہید کی تحریکِ جہاد سے وابستہ ایک شاعر‘‘ یا ’’انیسویں صدی کی تحریک جہاد میں مومن کا حصہ‘‘ وغیرہ۔ عنوانِ مقالہ کی تعیین کی اِس دشواری کو دیکھتے ہوے’’ فہرست بحوالہ عنوانِ مقالہ‘‘ایک بے سود سا کام نظر آتا ہے۔
موضوعات اور مقالہ نگاروں کے حوالے سے دو الگ الگ فہارس تیار کرنے کی اہمیت یہ ہے کہ اگر کوئی قاری کسی خاص مقالہ نگار کے جُملہ مقالات کی تلاش میں ہے تو اشاریہ میں ’’فہرست بحوالہ مقالہ نگار ان‘‘ کے تحت متعلقہ مقالہ نگارکی جملہ تحریروں کی نشان دہی ایک ہی جگہ ہو جاے گی، اور اگر قاری کسی خاص موضوع پر رسالے کی مجلدات میں تحریروں کی تلاش میں ہے تو وہ ’’فہرست بحوالہ موضوعات‘‘ میں یک جا مل جائیں گی، تاہم اس انداز کے دو فہرستی اشاریے کی ضخامت صرف ایک فہرست کے بالمقابل دگنی ہو جاتی ہے، اور بطور نتیجہ قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ اشاریہ بنیادی طور پرصرف موضوع وار ترتیب دیا جاے ،موضوعات اوران کے تحت ہر ایک موضوع کے اندراجات حروف تہجی کی ترتیب سے مصنف وار ہوں۔ اِس کے ساتھ اشاریے کا مصنف وار اشاریہ دے دیا جاے۔قاری فہرستِ مندرجات کی مدد سے موضوع کے تحت اپنی ضرورت کے لوازمے تک رسائی حاصل کر لے گا، اور اگر اُسے کسی ایک مقالہ نگار یا مصّنف کے تمام مقالات کے بارے میں جاننا ہے تواشاریے کا اشاریہ دیکھ لے۔
اشاریوں میں بالعموم اندراج کی تلاش کے لیے صفحے کی نشان دہی کی جاتی ہے، اِس کے بجاے اگر اندراجات کو مسلسل شمار کیا جاے، اور ’’اشاریے کا اشاریہ‘‘ میں صفحے کے بجاے مقالے کا شمار نمبر دے دیا جاے تو پورا صفحہ دیکھنے کے بجاے متعلقہ عدد دیکھا جاے گا۔

رسائل و جرائد میں بعض مقالات کے عنوان اتنے عمومی ہوتے ہیں کہ محتویاتِ مقالہ کے بارے میں بغیر پڑھے کچھ کہا نہیں جا سکتا، ایسے عنوانات کے حوالے سے اشاریہ نگار کو مختصر وضاحت کر دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر عنوان مقالہ ہے: ’’سیّد احمد شہید کی تحریک جہاد سے وابستہ ایک شاعر‘‘تو اشاریہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ قلابین ’’[ ]‘‘ میں ’’مومن خان مومن‘‘ کا اضافہ کر دے۔
موضوعات کے مطابق مقالات /تحریروں کو ترتیب دیتے ہوے ایک مقالہ/تحریر دو یا دو سے زیادہ موضوعات کے تحت آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’دستنبو۔ایک مطالعہ‘‘ غالب کی تصنیف ہوتے ہوے ’’غالبیات‘‘ کے تحت بھی آے گی، اور ’’۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی‘‘ کے تحت بھی، نیز یہ ’’برصغیر کا فارسی ادب‘‘ کے تحت بھی آسکتی ہے۔ مقالے کا مکمل اندراج اور شمارتو ایک ہی بار ہوگا، مگر متعلقہ موضوع کے تحت بھی اِس کا حوالہ آے گا، البتہ اِسے کس عدد کے تحت دیکھا جاے، اِس کی نشان دہی ’’اشاریے کا اشاریہ‘‘میں کر دی جاے گی۔

ادارہ ’’نقطۂ نظر ‘‘ نے اپنے صفحات میں بعض رسائل کے اشاریے شائع کر کے اشاریہ سازی کے اِس اسلوب کی چند مثالیں پیش کی ہیں اس سلسلے میں اہل نظر کی تجاویز کاخیر مقدم کیا جاے گا۔ یوں اپناارادہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اِس سمت میں کچھ مزید کا م کیا جاے گا۔

 

تحریر: ڈاکٹر سفیر اختر

ماخذ: مجلہ نقطہ نظر ، شمارہ ۳۱

نوعیت: مجلہ کا  ابتدائيہ

تاریخ: ( اکتوبر ۲۰۱۱ء – مارچ ۲۰۱۲ء)

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے