مباحث،مئی ۲۰۱۲ ء
حرف اول
سال 2012 ء کی دوسری دوماہی (مارچ، اپریل ) میں قومی اور بین الاقوامی نوعیت کے اہم موضوعات اور واقعات پر دینی مکاتب فکر کے نمائندہ جرائد میں پیش کیے گئے تجزیوں اور تبصروں کا خلاصہ آئند ہ صفحات میں پیش کیا گیا ہے۔ قارئین کی سہولت کے پیش نظر یہاں اس کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔
زیر نظرعرصہ میں دینی جرائد نے قومی امو ر کے ذیل میں بلوچستان کی صورت حال اور بلوچستان کے "حق خود ارادیت” کے حوالے سے امریکی کانگریس میں پیش ہونے والی قرارداد کو موضوع بنایا ہے۔ جرائد نے اس قرار داد کی شدید مذمت کی ہے اور اسے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی لکھا ہے کہ بلوچستان کے موجودہ حالات کی اصل ذمہ دار حکومت ہے جس کی نا اہلی اور ناکامی کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوئے جن کی وجہ سے بیرونی کھلاڑیوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ماہنامہ "دعوت تنظیم الاسلام” نے لکھا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی ابتری میں بھارت کا ہاتھ کسی سے پوشیدہ نہیں اور اس معاملے میں اسے امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے۔ "الاعتصام” نے اداریے میں تحریر کیا ہے کہ بلوچستان معدنی ذخائر سے مالا مال ہے اسی وجہ سے بیرونی طاقتیں یہاں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے حالات کی خرابی کو ذریعہ بنا رہی ہیں۔ جبکہ” افکار العارف ” میں ایک مضمون نگار نے اس امریکی قرارداد کو ‘گریٹ گیم’ کا حصہ قرار دیا ہے جس کا ہدف مسلمان ریاستیں ہیں۔ دیگر موضوعات میں سرائیکی صوبے کا قیام، نومسلم خواتین کا تحفظ، اساتذہ پر تشدد، صدارتی استثناء اور امریکہ کی جانب سے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے سر کی قیمت کا اعلان شامل ہیں۔ سرائیکی صوبے کے قیام کے حوالے سے ” ضرب مؤمن ” نے اظہار خیال کیا ہے کہ اتنی گنجان آبادی والے ملک میں مزید انتظامی یونٹس کی ضرورت بےشک ہے لیکن یہ کام درست انداز اور نیک نیتی سے ہونا چاہیے، بد قسمتی سے موجودہ حکومت کی جانب سے سرائیکی صوبے کی تحریک کا مقصد صرف سیاسی مہم جوئی ہے جس کا ہدف جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ کا سرائیکی وسیب پر اثر و رسوخ توڑنا ہے۔نو مسلم خواتین کے تحفظ کے حوالے سے جرائد نے میڈیا ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و مذہبی جماعتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ سیاسی اور گروہی تعصبات و مفادات سے بالا تر ہو کر حق اور سچ کا ساتھ دیں۔ اساتذہ پر تشدد کے حوالہ سے بریلوی مکتبہ فکر کے جریدے "ضیائے حرم” نے لکھا ہے کہ تشدد کے دونوں واقعات میں تشدد کاروں کا تعلق حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے ہے، اور ان وڈیروں اور مویشی چوروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہترین ہتھیار ووٹ کا ہے۔ صدارتی استثناء پر "محدث” میں مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ، اور پاکستانی آئین کی استثناء سے متعلق دفعہ 284 صدر کے استثناء کا مطالبہ کرتی ہے جبکہ دفعہ 227 کہتی ہے کہ کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں ہو گا۔ لہذا دونوں میں تضاد ہے کیوں کہ استثناء خلافِ اسلام ہے۔ حالیہ دو ماہی کے جو کچھ موضوعات جرائد کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ان میں کراچی کے حالات، بجلی اور گیس کا بحران اور قیمتوں میں اضافے کے بعد ملک گیر عوامی احتجاج قابل ذکر ہیں ۔
بین الاقوامی نوعیت کے امور میں ترکی کی پالیمان کی جانب سے تعلیمی بل کی منظوری کے حوالہ سے بریلوی مسلک کے "نوید سحر” نے اظہار خیال کیا ہے جس کے مطابق اب والدین دس سال کی عمر سے اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کروا سکتے ہیں۔ جریدے نے لکھا ہے کہ ترکی جو کبھی سیکولر ریاست تھا اب وہاں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا رجحان بڑھ رہا ہے جبکہ پاکستان جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس کے نصاب تعلیم سے قرآنی آیات اور تاریخ اسلامی کے واقعات کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ دیگر موضوعات میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بارے میں "منتظر سحر” نے ایک مضمون شائع کیا ہے۔ جبکہ شیعہ مکتبہ فکر کے ایک اور جریدے "افکار العارف” نے شام کے خلاف سازش کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں مضمون نگار نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ شام میں حکومت کے خلاف ہونے والا احتجاج ایک سازش ہے جس میں امریکہ ، اسرائیل اور عرب ممالک بالخصوص قطر اور سعودی عرب شامل ہیں۔
کچھ اہم موضوعات جرائد کی توجہ حاصل نہ کر سکے جن میں جوہری توانائی کے تحفظ کی کانفرنس، مصر کے صدارتی انتخابات جیسے موضوعات قابل ذکر ہیں۔
جواب دیں