سیمینار: فاٹا میں تنازع اورطرزِ حکمرانی

سیمینار: فاٹا میں تنازع اورطرزِ حکمرانی

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام 19جون 2013ء کو منعقد ہونے والے اس سیمینار کا عنوان تھا ’’فاٹا میں جاری تنازع اور طرز حکمرانی‘‘۔ سیمینار سے سابق سفیروں اور سیاسی امور سے متعلقہ تجزیہ کاروں رستم شاہ مہمند، شمشاد احمد خان، ایاز وزیر اور سلامتی کے امور سے متعلق سینئر تجزیہ کار بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) سید نذیر مہمند نے اظہار خیال کیا۔ جبکہ کثیر تعداد میں دفاعی امور پرنظررکھنے والے سینئر تجزیہ کاروں، سول اور ملٹری افسروں، دانشوروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔
سیمینار کے مقررین نے اس بات کی مذمت کی کہ فاٹا کو پاکستان کے قوانین اور عدالتی نظام کے دائرہ کار سے باہر رکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جب استعماری طاقتوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا تو اس کے بعد بھی یہ علاقہ پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والے فوجی اور سیاسی حکمرانوں کے زیر انتظام رہا۔ ’حاکمیت‘کا لفظ فاٹا کے باشندوں کے لیے ایک خواب ہی رہا ہے۔
سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں مسائل 2001ء میں اس وقت شروع نہیں ہوئے جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ یہ علاقہ 2002ء اور 2003ء تک پر امن رہا جبکہ امریکہ پورے افغانستان پر قبضہ کرچکا تھا۔ یہ بدامنی دسمبر 2003ء میں اُس وقت شروع ہوئی جب پاکستان کی فوج اس علاقے میں داخل ہوئی۔

 

 

dsc 0242

 

لوگوں کی حب الوطنی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں جنگی جہازوں، گن شپ ہیلی کاپٹروں، ہر قسم کے گولہ بارود کے ساتھ طویل فاصلے تک مار کرنے والی آرٹلری کا بے تحاشااستعمال ہوا ہے، اس کے باوجودقبائلی علاقوں کے لوگ ریاست کے خلاف نہیں ہوئے۔ اگر اس طرح کا کوئی عمل پاکستان کے کسی اور حصے بالخصوص پنجاب میں ہوا ہوتاتو لوگوں کا ردعمل اس سے بہت مختلف ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ فاٹا کو ہمیشہ سے ’’زیر انتظام ‘‘رکھا گیا ہے یہاں کبھی اپنے لوگوں کی ’’حکمرانیت‘‘ قائم نہیں کی گئی۔ صوبائی اسمبلیوں میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ اس علاقے سے 12قومی اسمبلی کے ممبران اور 8سینیٹر ہیں لیکن وہ حاکمیت حتیٰ کہ انتظامیہ کا بھی حصہ نہیں ہیں۔ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR)کو 1901ء میں متعارف کروایا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے 1947ء میں آزادی کے بعد بھی اسے برقرار رکھا گیا ہے۔
فاٹا میں طرز حکمرانی کے دو غلے پن پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر فاٹا صدر پاکستان کے براہِ راست کنٹرول میں آتا ہے۔ تاہم اصلی اختیار صوبے کے چیف سیکرٹری کے پاس ہے جو بیوروکریسی کے ارکان اور پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کرتا ہے۔ حتیٰ کہ چند سال قبل صوبے کے گورنر کی طرف سے قائم ہونے والے فاٹا سیکرٹریٹ کوصوبے کے سرکاری ملازمین کے ذریعے چلایا جارہا ہے جو چیف سیکرٹری کو رپورٹ کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ صوبہ ہی ہے جو دراصل سارے امور پر کنٹرول رکھتا ہے۔ FCRمیں ترامیم اور فاٹا کے سیاسی پارٹیوں کے ایکٹ میں توسیع بہت دیر سے کی گئی اور بہت معمولی ۔ ایف سی آر سیاسی ایجنٹوں کے فیصلوں پر عدالتی نظر ثانی کا اختیار دیتا ہے لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جج کی کرسی پر ٹوپی پہنے ہوئے جو شخص بیٹھا ہے وہ وہی سیاسی ایجنٹ ہے جس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے ہی اقدامات اور فیصلوں پر نظر ثانی کرے گا۔
بریگیڈئر سید نذیر مہمند نے فاٹا میں امن بحال کرنے کے لیے کئی پہلوؤں پر محیط اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ سیاست اور سلامتی سے متعلق تمام اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کو اکٹھا کرے اور تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کے عمل کے اہداف اور مقاصد کا تعین کرے اور وسیع پالیسی تشکیل دی جائے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اور کم سے کم نقصان اور کچھ دوکچھ لو کی حکمت عملی مرتب کی جائے۔

 

DSC 0260 DSC 0258

 

شمشاد احمد خان نے فاٹا جیسے حاکمیت کے مسائل حل کرنے کے لیے ملکی سطح پر آئین کی تشکیل نو کی ضرورت کا احساس اجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کارکن ہونے کی اپنی موجودہ پوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر تکثیر یت اور ہم آہنگی کے کلچر کو ’’عالمی امن‘‘ کے مقصد کے لیے بھر پور طور پراستعمال کرنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو ایک شکار کے طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر دنیا بھر میں امن اور ہم آہنگی کی وکالت کرنا چاہیے۔
صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند نے کہا کہ 1980ء کی ساری دہائی میں جہاد کے دوران قبائلی علاقے مجاہدین کی آمد و رفت کا راستہ تھے لیکن یہ سارا علاقہ پر امن رہا۔ فوج کا اس علاقے میں جانے اور امریکہ کے ساتھ مکمل صف بندی کرنا وہ عوامل ہیں جنہوں نے اس سارے علاقے میں شورش برپاکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج وہاں طاقت کا مرکز گورنر یا سیاسی ایجنٹ نہیں بلکہ فوج ہے۔ سول نظام جیسا بھی تھا غیر متعلق ہوچکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف سی آر میں کوئی بھی قانون یا ترمیم علاقے کے سماجی اور ثقافتی ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا سبب بنے ہیں لیکن عورتوں اور بچوں سمیت کسی ایک معصوم شہری کا نام بھی سامنے نہیں آسکا۔

 

DSC 0239 DSC 0250

 

ان کا کہنا تھاکہ قانون از خود عمل نہیں کرتا، یہ سیاسی ادارے اور عملدر آمد کی قوت ہوتی ہے جو معاملات آگے لے کر چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ قبائل علاقے کو قربانی کے بکرے کی طرح استعمال کرتا رہا ہے۔ انہوں نے فاٹا سے افغانستان کے اندر ہونے والی کسی ایک مسلح کاروائی کو بھی نہیں پکڑا ہے۔انہوں نے دعوے سے کہا کہ امریکہ مقامی طور پر امن کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔ انہوں نے نیک محمد کو 2004ء میں اس وقت قتل کردیا جب معاملہ جنگ بندی کی سمت جارہا تھا۔ انہوں نے 2006ء میں ڈومہ ڈولا گاؤں پر اس وقت بمباری کردی جب اگلی ہی صبح ایک معاہدہ پایہ تکمیل تک پہنچنے والا تھا اور اس حملے میں مقامی قبائل کی نمائندگی کرنے والے آٹھ بڑے (مشران)قتل ہوگئے۔ اب انہوں نے ولی الرحمن کو قتل کردیا ہے جسے تحریکِ طالبان نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے نمائندہ چنا تھا۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امریکہ خود افغان طالبان کے ساتھ اس حد تک بات چیت کرتا رہا ہے کہ وہ اب قطر میں اپنی سفارتی موجودگی بھی رکھتے ہیں لیکن اُس نے پاکستان کو کبھی بھی اپنے لوگوں کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۲۰ جون ۲۰۱۳ء

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے