پاکستان کے ہیلتھ کیئر ڈیلیوری سسٹم کی مضبوطی
یونیورسل ہیلتھ کیئر پروگرام پاکستان میں ایچ ایس پیزکے لیے سازگار ماحول پیدا کر رہا ہے
حکومت نے صحت سہولت پروگرام کے ذریعے ہیلتھ سروسز پرووائڈرز ( ایچ ایس پیز ) کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا ہے جو ثانوی اور ثلاثی درجہ پر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اسٹیک ہولڈرز کے لیے مفید صورت حال کا سبب بنا ہے اور اس کے نتیجے میں ہسپتالوں میں داخل ہونے کےخواہش مند لاکھوں مریضوں کو انتہائی ضروری ریلیف فراہم ہو رہا ہے۔ ملک بھر میں پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے متعدد نئے ہسپتال بنائے جارہے ہیں تاکہ ان مریضوں کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جو ہیلتھ کارڈ کی وجہ سے اپنا علاج کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف خیبرپختونخوا، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب میں صحت کی سہولیات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کےمجموعی معیشت پر بھی فائدہ مند اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم، ہیلتھ کیئر اور مریضوں کو فوائد پہنچانے کے لیے کسی بلند معیار تک پہنچنے میں ابھی طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔
صحت کے شعبہ سے متعلق پیشہ ور افراد اور ماہرین نے 12 اکتوبر 2022 کو ایک سیمینار میں اس پہلو پر گفتگو کی جس کا انعقاد آئی پی ایس، راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی(آر ایم یو)اور کیومینٹم نے مشترکہ طور پر کیا تھا اور جس کاعنوان تھا ’سٹرینتھننگ آف ہیلتھ کیئر ڈیلیوری سسٹم آف پاکستان‘۔
سیمینار کی صدارت پروفیسر محمد عمر، وائس چانسلر آر ایم یو نے کی جبکہ آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے شریک صدارت کے فرائض ادا کیے۔ پرائم منسٹر ہیلتھ پروگرام کے سی ای اومحمد ارشد مقرب نے سیمینار میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
ملک کے ہیلتھ ڈیلیوری سسٹم کے موضوع پر ہونے والے اس اجلاس سے جن لوگوں نے خطاب کیا ان میں محمد نصر اللہ، ایڈوائزر اور پروگرام لیڈ اپس ٹیک (ٹیکنالوجی پر مبنی گورننس کے حل کے لیے آئی پی ایس کے اقدام)؛ منظور احمد، ای ایچ آرکنسلٹنٹ؛ ڈاکٹر آصف مقصود بٹ، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ؛ اور ڈاکٹر خضر پرویز، فالج کے مریضوں کی دیکھ بھال کے ماہر شامل تھے۔
ارشد مقرب نے کہا کہ اگرچہ صحت سہولت پروگرام اپنے ابتدائی مرحلے میں ہےتاہم اس نے پہلے سے ہی سرکاری اور نجی شعبے کے ہسپتالوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نئے ہسپتال اوران میں سہولتیں فراہم کرنے کے اسباب فراہم کیے جا رہے ہیں، نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں اور کچھ طبی آلات مقامی طور پر تیار کیے جانے لگے ہیں، جس سے ان کی قیمتوں کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
انہوں نے سابقہ فاٹا کی مثال دی جہاں دو سال قبل شروع ہونے والے اس پروگرام کےبعد علاقے کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وہاں تقریباً 30 فیصد نئے ہسپتالوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک سال قبل شروع ہونے والے ہیلتھ کیئر کے اس پروگرام کے بعدخیبر پختونخواہ میں 13 کارڈیک کیتھ لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک آنکولوجی ہسپتال قائم کیا گیا ہے جو جلد فعال ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تو ڈی آئی خان جیسے دور دراز علاقے میں انجیو پلاسٹی کی سہولت بھی دستیاب ہے۔
انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ تھرپارکر وہ پہلا علاقہ تھا جسے 2019 میں یونیورسل ہیلتھ کیئر پروگرام میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے بعدکےپی میں ضم ہونے کے بعد فاٹا ، آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، گلگت بلتستان اور اسلام آباد میں میں متعارف کرایا گیا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کو ایک سال کے اندر پروگرام میں شامل کیے جانےکی امید ہے۔ اس سے پاکستان دنیا کا پہلا ملک بن جائے گا جو عوام کو سرکاری فنڈ سے یونیورسل ہیلتھ کوریج پیش کرے گا۔
مقرب نے کہا کہ اس وقت 1,0821 ہسپتالوں میں 170 ملین افراد اس پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں جن میں سے 30 ٪سرکاری اور 70٪ نجی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نجی شعبے کے تعاون کے بغیر یونیورسل ہیلتھ کوریج فراہم نہیں کر سکتی۔ انہوں نے اس بات کااعتراف کیا کہ ہیلتھ کیئر کے مرکز میں اداروں، قیادت، ہیلتھ پروفیشنلز اور عوام کو مربوط کرنے کے لیے ایک منظم طریقہ کار وضع کرنے میں ابھی بھی بہتری کی ضرورت ہے۔
پروگرام کے قابل عمل ہونے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی سال 23-2022 کے لیے پاکستان کے مجموعی صحت کے بجٹ کا صرف 23 فیصد استعمال کرکے پورے ملک کو ہیلتھ کیئر کی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔
مقرب نے کہا کہ آنے والے دنوں میں حکومت اس پروگرام کو ادارہ جاتی شکل دینے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک ایکٹ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیراسے تبدیل نہ کر سکے۔
خالد رحمٰن نے نشاندہی کی کہ ملک کے اندر بیانیہ کی تشہیر اور انتہا کی پولرائزیشن سے صحت سہولت پروگرام کے تسلسل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے جو کہ سماجی بہبود کے لیے کی جانے والی اصلاحات کی طرف ایک بڑی پیشرفت ہے۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے اور ہیلتھ کیئر کی فراہمی کو مستحکم بنانےکے لیے، ہر ایک کو کم سے کم مشترکہ ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے پولرائزیشن اور پروپیگنڈے کا حل تلاش کرنےکی ضرورت ہے۔
مزید برآں، اداروں کے لیے ڈیٹا کی دستیابی کو یقینی بنانے اورآر اینڈ ڈی کو آگے بڑھانے کے لیے وسائل کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار کو اس طرح تیار کرنے، استعمال کرنے اور جمع کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ دوسرے شعبے بھی عوام دوست ماحول اور معاشرے کو فائدہ پہنچانے والے اقدامات اٹھا کے سماجی بہبود کی طرف بڑھیں۔
محمد نصر اللہ نے آپریشنز میں معیار کی نشاندہی، خدمات میں معیار کا تسلسل اور مریضوں کی حفاظت کو وہ عوامل قرار دیا جو صحت کے لیے درکار سہولیات کی فراہمی میں بنیادی ضرورت ہیں۔
ہیلتھ کیئر کی فراہمی کے نظام میں قابل اطلاق معیارات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے، منظور احمد نے ایک تحقیقی مطالعہ پیش کیا جس میں ان معیارات کو نافذ کرنے اور ان کی نگرانی میں درپیش چیلنجوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے ہیلتھ کیئرنظام کو پائیدار اور دوراندیشی پر مبنی بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ کام کرنے والی تنظیموں کو لاگت اور معیار دونوں کومدنظر رکھتے ہوئےایک مربوط انتظامی نظام کے تحت بین الاقوامی اور قومی دونوں معیارات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
صحت عامہ کے لیے متعین راستوں کو اپنانے کی حمایت کرتے ہوئے، ڈاکٹر آصف مقصود نے اس شعبے میں کئی چیلنجز کی نشاندہی کی جو صحت سےمتعلق کئی امورکے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔ ان میں ہیلتھ پروفیشنلز کا غیر سنجیدہ کردار، پیشہ ور افراد کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کا رویہ اور طرزِ عمل، ہیلتھ کیئر کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمدکا نہ ہونا، پیشہ ور افراد کے درمیان انضمام اور ہم آہنگی کی عدم موجودگی، معالج کی سطح پرتحقیق اور سماجی سطح پر تحریک کی کمی جیسے امور شامل ہیں۔
ڈاکٹر خضر پرویز نے ہیلتھ کیئر سسٹم کو معیاری بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ ہیلتھ پروفیشنلز اور تنظیمیں کئی مشترکہ چیلنجوں سے نبرد آزما توہیں، لیکن کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جہاں وہ ان مشترکہ چیلنجوں سے نمٹ سکیں ، ان کے لیےپالیسیاں وضع کریں اور ان کےحل تلاش کریں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مؤثر اور پائیدار حل نکالنے کے لیے مشترکہ مسائل پر بات چیت انتہائی ضروری ہے۔
جواب دیں