’قانون سازی کے عمل پر سیاسی ماحول کے اثرات‘
‘سیاسی طور پر باشعور عوام آئین کے مطابق قانون سازی کے لیے مقننہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں‘
عوام اور انتخابی رائے دہندگان میں پاکستان کے آئین کے بارے میں آگہی قانون سازوں پر عوامی مفادات کے حصول کے لیے چیلنج اور دباؤ ڈالنے میں مدد دے سکتی ہے اور موجودہ سیاسی ماحول میں اجتماعی بہبود، قومی اتفاق رائے اور ادارہ جاتی اہلیت پر مبنی قانون سازی کے لیے ترجیحات طے کر سکتی ہے۔
یہ خیالات انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں 12 جنوری 2022 کو منطق سنٹر فار ریسرچ کے "تدوین” (قومی اسمبلی میں قانون سازی اور تحقیقی کلینک) پروگرام کے ریسرچ ایسوسی ایٹس کے ساتھ ’قانون سازی کے عمل پر سیاسی ماحول کے اثرات‘ کے عنوان سے منعقدہ سیشن کے دوران سامنے آئے۔
سیشن سے عمران شفیق، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور سابق اسپیشل پراسیکیوٹر ، قومی احتساب بیورو(نیب)، خالد رحمٰن، چیئرمین، آئی پی ایس، ڈاکٹر شہزاد اقبال شام ، اور فرزانہ یعقوب، سی ای او اور بانی ، منطق، نے خطاب کیا۔
عمران شفیق نے ملک کے موجودہ نظام میں تضادات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا اگرچہ پاکستان میں پالیسی سازی بظاہر قومی مفاد پر مبنی ہے، لیکن کوئی ایسا فورم یا جگہ دستیاب نہیں جہاں قومی مفاد کا مطالعہ کیا جائے، تجزیہ کیا جائے، بحث کی جائے اور اس کا تعین کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین عوام کی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار ہے اور یہ قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی یا شخصی دلچسپی کی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا اور اس کو یقینی بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود عملی طور پر قانون سازی کا عمل اس لیے غلط سمت میں جاتا ہے کیونکہ ملک کا سیاسی ماحول آئین اور اس کے نفاذ کی پرواہ نہیں کرتا ۔
سیاست دانوں کی طرف سے کی جانے والی لابنگ، کسی فرد کے لیے مخصوص قانون سازی، قومی اور بین الاقوامی غیر سیاسی اداروں کے سیاسی مفاد کا اثر، اور قانون سازوں کے ذاتی مزاج سیاسی ماحول کے کچھ ایسے عناصر ہیں جو قانون سازی میں عوامی مفادات کی مطابقت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
سیاست دانوں کی لابنگ جس کا مقصد صرف مقبول ووٹ حاصل کرنا، اپنا ووٹ بینک بڑھانا، اور اگلے انتخابات کی تیاری ہو، اس سیاسی میراث کا حصہ بن چکے ہیں جس میں حکمران اشرافیہ کو اپنا تسلط برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں جو قانون سازی کی جاتی ہے وہ کسی فرد کے لیے مخصوص ہوتی ہے جس میں اجتماعی فلاح و بہبود یا عوامی مفاد کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔
قانون سازی کے عمل کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ سیاسی مفاد صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے ادارے اور عناصر بھی ، جو اکثر سیاستدانوں سے بھی بڑے ہوتے ہیں، اپنے سیاسی مفاد کو آگے بڑھاتے ہیں اور قانون سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف پس منظر سے آنے والے قانون ساز صوبوں کے درمیان ترقیاتی تفاوت کی وجہ سے مختلف مفادات کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ قومی سطح پر عوامی مفاد میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ مفادات کا یہ تصادم پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ملک میں انتہائی نمایاں ہو چکا ہے۔
اپنے اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے کہا کہ ملک بعض اوقات بعض پہلوؤں کی وجہ سے عروج و زوال سے گزرتا ہے لیکن اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان کا ایک پائیدار سیاسی ماحول، مضبوط قانون سازی اور ترقی کی جانب سفر جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اس ارتقائی سفر میں، فیصلہ سازی میں شامل اداکاروں کی طاقت، قابل قیادت، اور ترقی کا نقطہ نظر سیاسی ماحول کی خامیوں کو دور کرنے میں اہم ہے۔ اس کے لیے چیزوں کو وسیع تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔
مزید برآں، جب تک عوام سیاسی طور پر تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ نہیں ہوں گے اور فیصلہ سازوں اور قانون سازوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے سیاسی شعور نہیں رکھتے، ملک ترقی اور پائیدار سیاسی ماحول حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو تعلیم دینے کا ایک طریقہ سیاسی نرسریوں جیسے کہ لوکل باڈیز اور طلباء یونینز کے ذریعے ہے۔
سیشن کے اختتام پر آئ پی ایس نے منطق کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تاکہ تحقیق اور اشاعت کے منصوبوں میں تعاون کے شعبوں کو تلاش کیا جا سکے اور صلاحیت سازی کی سرگرمیاں مشترکہ طور پرسر انجام دی جا سکیں۔
مفاہمتی یادداشت کی دستاویز پر آئی پی ایس کے جنرل مینیجر آپریشنز نوفل شاہ رخ اور فرزانہ یعقوب نے دستخط کیے تھے۔
جواب دیں