افغانستان کے ساتھ ملٹی ڈومین مصروفیات انسانی ہمدردی سےمتعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
افغانستان میں انسانی مسائل سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت اور پالیسی سازوں کو موجودہ افغان طالبان قیادت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ جڑے رہنے پر کافی زور دینے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار وائس چیئرمین آئی پی ایس اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ایمبیسیڈر (ر) ابرار حسین نے ۲۷ مئی ۲۰۲۳ کواسلام آباد میں بین الاقوامی تحقیقاتی کونسل برائے مذہبی امور (آئی آر سی آر اے) کے زیر اہتمام ’انٹرا اسلامک ڈائیلاگ فار سٹیبل افغانستان‘ کے موضوع پر ایک مشاورتی اجلاس کے دوران کیا۔
اجلاس سے مولانا یوسف شاہ، ترجمان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک؛ جلال الدین، وکیل جمعیت علمائے اسلام؛ محمد اسرار مدنی ،صدر آئی آر سی آر اے؛ مولانا طیب طاہری ،صدر اشاعت التوحید پاکستان؛ مفتی شوکت اللہ خٹک، دارالعلوم حقانیہ؛ ملک حبیب نور اورکزئی، سابق فاٹا قبائلی رہنما؛ ریماشوکت، انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز، اسلام آباد؛ آصف لقمان قاضی، سربراہ خارجہ امور جماعت اسلامی؛ طاہر خان، صحافی؛ ڈاکٹر ماہان مرزا، ڈائریکٹر انصاری انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل انگیجمنٹ ود ریلیجن، نوٹری ڈیم یونیورسٹی، امریکہ؛ پروفیسر لوری ناتھن، ڈائریکٹر، کروک انسٹی ٹیوٹس میڈی ایشن پروگرام؛ اور دیگر شرکاء نے بھی خطاب کیا۔
ایمبیسیڈر (ر) ابرار نےاس بات پر زور دیا کہ پالیسی سازوں اور فیصلہ سازوں کو چاہیےکہ وہ موجودہ افغان طالبان انتظامیہ کے ساتھ بات چیت اور تعلقات استوار کرنےکو اولین ترجیح بنائیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان کے انسانی مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے تو افغانستان کی ضروریات کا ادراک کرنا بہت ضروری ہے ۔
انہوں نے اقتصادی تعاون، تجارت اور سرمایہ کاری کی کسی نہ کسی شکل میں شامل ہونے کی تجویز بھی دی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عمومی طور پر افغان قیادت کی اکثریت مساوات اور تعلیم تک مساوی رسائی کے حق میں ہے، اس لیے لڑکیوں کی تعلیم اور جامع حکومت سمیت دیگر تمام حساس مسائل سے بتدریج نمٹا جا سکتا ہے۔
جواب دیں