سی پیک کے 10 سال پر آئی پی ایس کی گول میز کانفرنس
سی پیک کے پیدا کردہ اقتصادی مواقعوں میں دوسرے ممالک کے لیے بھی سرمایہ کاری کے امکانات موجود ہیں: ماہرین
چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) میں سرمایہ کاری کے مواقع صرف پاکستان اور چین تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یہ دوسرے ممالک، خاص طور پر خلیجی خطے کے ممالک کے لیے بھی کھلی ہے۔ اس میگا پروجیکٹ کی تکمیل و ترقی کے ساتھ ساتھ اقتصادی تعاون کے وسیع امکانات پیدا ہو رہے ہیں ۔ چین اور پاکستان دونوں کے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے حریفوں کے جھوٹے بیانیے کے ساتھ ساتھ سی پیک کی کامیابی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کی مزاحمت اور مقابلہ کریں۔
ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں 23 اگست 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (آئی ایس اے ایس)، سیچوان یونیورسٹی، چین کےسینئر ریسرچ فیلو اور اس کے انڈین اوشین اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر زینگ ژیانگ ہو کی سربراہی میں آنے والے محققین کے ایک وفد کے ساتھ ہونے والی گول میز کانفرنس میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ‘سی پیک کے 10 سال’۔
اس موقع پر کلیدی تقریر آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن نے کی، جبکہ ڈاکٹر زینگ ژیانگ ہو، سینئر محقق آئی ایس اے ایس گاؤ لیانگ، وائس چیئرمین آئی پی ایس اور سابق سفیرسید ابرار حسین، آئ پی ایس میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ اکیڈمک آؤٹ ریچ پروفیسر ڈاکٹر فخر اسلام، اور سابق ممبر پلاننگ کمیشن ڈاکٹر سید طاہر حجازی نے خطاب کیا، جبکہ نشست کی نظامت آئی پی ایس کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ نے کی۔
اپنی تقریر میں خالد رحمٰن نے تنازعات کی موجودہ حرکیات میں سی پیک کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی تصویر پر غور کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ، امن و امان کی صورتحال، مخالف لابنگ، عوامی سطح پر باہمی تعاملات سے منسلک خطرات، سیاسی عدم استحکام، اور گورننس کے خدشات سی پیک کو درپیش اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں میں سے چند ہیں۔ ان رکاوٹوں کے باوجود، سی پیک کو اس کے آغاز سے ہی ایک دو طرفہ کامیاب پارٹنرشپ کے طور پر فروغ دیا گیا۔ ایک دہائی کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ ملکی منظر نامہ مزید قابل قیاس ہوتا جا رہا ہے، دو طرفہ اعتماد بحال ہو رہا ہے، اور بدلتا ہوا بیرونی ماحول بھی تعاون کے نئے راستے کھول رہا ہے۔ موجودہ حالات میں اس تعاون کو مثبت ایجنڈے اور اسی جذبے کے ساتھ جاری رکھنا مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو اپنے شراکت داری کے اہداف کو مخالفین کی طرف سے پھیلائی گئی جھوٹی داستانوں کے باعث متاثر ہونےسے روکنا چاہیے۔
ڈاکٹر ژیانگ ہو نے کہا کہ سی پیک کی پچھلی دہائی نتیجہ خیز رہی ہے، پھر بھی یہ بہترین سے بہت کم رہی کیونکہ ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعاون کی راہیں بڑھانے کے مزید امکانات ہیں، مثلاً صنعت کی منتقلی اور ترقی، زراعت، آبی وسائل کے انتظام، موسمیاتی تبدیلی کے انتظام، اور انسانی وسائل اور افرادی قوت کے انتظام وغیرہ۔ نئے تعاون کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کو سی پیک سے متعلق اپنی توقعات کو سنبھالنے اور اس کی باریکیوں کے بارے میں مناسب سمجھ پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی دونوں ممالک آنے والے سالوں میں علاقائی روابط کے اس منصوبےکے لیے بہتر پالیسیاں اور قابل عمل ماحول تیار کر سکتے ہیں۔
لیانگ نے ذکر کیا کہ سی پیک کے ارد گرد جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں واضح تبدیلیاں آئی ہیں – جیسے کہ بحرہند وبحرالکاہل کے خطے میں امریکی اور جاپانی اقتصادی اور تزویراتی سرمایہ کاری، پاکستان اور چین کو الگ تھلگ کرتے ہوئے علاقائی جگہ پر غلبہ حاصل کرنے کی ہندوستانی حکمت عملی، اور مزید دشمنی کی تشکیل اور سی پیک کی کامیابی کے لیے سازگار ماحول کو یقینی بنانے کے لیے قابل عمل پالیسیاں وضع کرتے ہوئے چینی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کے لیے غیر محفوظ ماحول پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
سی پیک کے لیے غیر محفوظ ماحول کے حوالے سے خدشات کو دور کرتے ہوئے ڈاکٹر فخر الاسلام نے کہا کہ 2013 میں سیکیورٹی کی ناگفتہ بہ صورت حال کے باوجود حکام نے اس منصوبے کو آگے بڑھایا کیونکہ انہوں نے اس کی صلاحیت کو پہچانا۔ دس سال کے بعد، سی پیک کے ارد گرد سیکیورٹی کی صورتحال نسبتاً مستحکم ہے اور انٹیلی جنس نظام اور سی پیک اور ساحلی سلامتی کے لیے وقف فوج کے پورے ڈویژن کے ذریعے کنٹرول میں ہے۔ بہر حال، پراکسیز میں ملوث کچھ بین الاقوامی اور علاقائی اداکار ایک تشویش کا باعث ہیں، جس کے لیے دونوں ممالک کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ سی پیک کو سبوتاژ نہ کیا جاسکے۔
اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے سید ابرار حسین نے کہا کہ دونوں ممالک کو خطے کو وسطی ایشیا اور اس سے آگے علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے افغانستان کو شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقتصادی تعاون اور خوشحالی کے وسیع مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ چونکہ سی پیک سمیت پورے خطے کی ترقی کے لیے افغانستان میں امن ایک اہم شرط ہے، اس لیے یہ مناسب وقت ہے کہ اس موقع کو علاقائی ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ کثیر جہتی تعاون کے ذریعے حاصل کیا جائے۔
طاہر حجازی نے ذکر کیا کہ پاکستان میں حکومتوں کی بار بار تبدیلی سے انتظامی سیٹ اپ میں مفادات اور اختیارات بدلتے رہتے ہیں اورایک عدم استحکام کی کیفیت رہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مسئلے کو گڈ گورننس اورمستقل اور دیرپا انتظامی پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
جواب دیں