پاکستان کو محض’افریقہ کی جانب دیکھنے‘ سے بڑھ کر ’افریقہ میں داخل ہونے‘ پر توجہ دینی چاہیے: نائجیرین ہائی کمشنر
پاکستان کو افریقہ کے ساتھ گہرا تعلق استوار کرنا چاہیے تاکہ وہاں اس کے بارے میں پھیلائے گئےمنفی تاثر کو تبدیل کیا جا سکے اور نتیجہ خیز تعاون کے لیے نئے دروازے کھولے جا سکیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ‘لُک افریقہ’ سے نکل کر’اینٹر افریقہ’ کی جانب بھی قدم بڑھایا جا سکے یعنی پاکستان کو محض افریقہ کی جانب دیکھنے کے نعروں سے آگے بڑھ کر افریقہ میں داخل ہونے پر توجہ دینی چاہیئے۔
یہ بات پاکستان میں نائجیریا کے سبکدوش ہونے والے ہائی کمشنر عزت ماب محمد بیلو ابیوئے نے اکتوبر 26، 2023 کو ایک الوداعی سیشن اور اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ‘پاکستان: ہاو آئی سا ء اٹ – میموئرز اینڈ ریفلیکشنز’ – جسے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کی اشاعتی بازو آ پی ایس پریس نے شائع کیا – کے تقریبِ رونمائی کے دوران کہی۔
ان کے علاوہ اس نشست سےخالد رحمٰن، چیئرمین، آئی پی ایس، سابق سفیر سید ابرار حسین، وائس چیئرمین، آئی پی ایس، پاکستان میں جنوبی افریقہ کی ہائی کمشنر متھوزیلی مادیکیزا اور پاکستان میں کینیا کی ہائی کمشنر میری نیامبورا کاماؤ نے بھی خطاب کیا، جبکہ نائجیریا کے سفارت خانے کے اہلکاروں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔
کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے نائجیرین سفیر نے کہا کہ ان کی تصنیف پاکستان کے بارے میں پرانے تصورات کو چیلنج کرتی ہے جسے بہت عرصے سے کتابوں اور میڈیا میں غلط اور منفی طریقے سے پیش کیا جاتا رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں ایک نئے مثبت تاثر کو پیش کرتی ہے جو حقیقت پر مبنی ہے۔
کتاب کے پس منظر اور مواد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور نائیجیریاکے مشترکہ تجربات مختلف شعبوں میں وسیع تر تعاون کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں انہوں نے گورننس کو ترقی کا ایک اہم پہلو قرار دیا اور استحکام اور ترقی کو فروغ دینے میں اس کے کردار کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نمایاں صلاحیت موجود ہے۔ صحیح گورننس کے ساتھ یہ صلاحیت نائیجیریا اور پاکستان کے درمیان زیادہ مثبت تعلقات کو متحرک کر سکتی ہے اور باہمی تعاون کی کوششوں کے لیے ایک سیڑھی بن سکتی ہے جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اپنے ریمارکس میں خالد رحمٰن نے کہا کہ یہ کتاب ایک تجربہ کار سفارت کار، سیاست دان اور کاروباری شخصیت کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے جو دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ کتاب کے مواد پر مصنف کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کی یادداشتیں بیرونی دنیا کو پاکستان کی حقیقی تصویر سمجھنے میں مدد دیتی ہیں اور ساتھ ہی میزبان ملک کے باشندوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہیں کہ انہیں ملک سے باہر کس طرح دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سفارت کاروں کو اپنے تجربات اور مشاہدات کو اسی انداز میں ریکارڈ کرنا چاہیے۔
اس سب سے قبل سید ابرار حسین نے آئی پی ایس کے افریقہ پروگرام کے بارے میں تفصیلی تعارف کروایا۔
جواب دیں