ناروے سے مسلم ڈائیلاگ نیٹ ورک کے وفد کا آئ پی ایس کا دورہ
مسلم اقلیتوں کو مغرب میں منفی تصویر کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے مربوط ردعمل کی ضرورت ہے۔
آج کی انتہائی باہم جڑی ہوئی عالمگیریت کی دنیا میں کسی معاشرے کے اندر چھپے ہوئے عناصر کی کارروائیاں جغرافیائی حدود سے باہر پھیلی ہوئی کمیونٹی کے لیے بھی دور رس نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔ جس طرح یورپ میں ہونے والا کوئ واقعہ اگرچہ ایک فرد کی طرف سے انجام دیا گیا ہے، پاکستان جیسی دور دراز جگہوں پر اہم رد عمل کو جنم دے سکتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں ایک چھوٹے سے گروہ کے اقدامات کو مغرب کی طرف سے غلط انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پورا پاکستانی معاشرہ بنیاد پرست ہے اور متشدد ذہنیت رکھتا ہے۔
ان حالات میں مسلم معاشروں کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ آپس میں بہتر تنظیم اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ اسی طرح، مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیتوں کو اپنے اندر بہتر روابط کے ساتھ مزید مربوط ردعمل کی ضرورت ہے تاکہ منظم نمائندگی کو فروغ دینے کے علاوہ براہ راست معلومات حاصل کی جاسکیں۔
ایسا کرنے سے کمیونٹیز چند لوگوں کے عمل سے پیدا ہونے والی منفی تصویروں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکتی ہیں، اور پوری دنیا میں معاشروں اور اسلام کی متنوع نوعیت کے بارے میں زیادہ درست معلومات کو فروغ دے سکتی ہیں۔ یہ نقطہ نظر نہ صرف اندرونی اتحاد کو بڑھاتا ہے بلکہ ایک زیادہ پر امن عالمی گفتگو میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔
اس بات کا مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) میں 13 نومبر 2023 کو منعقدہ ناروے میں اسلامی مذہبی کمیونٹیز کے لیے قائم ایک تنظیم مسلم ڈائیلاگ نیٹ ورک (ایم ڈی این) کے ساتھ ‘پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے کردار اور حیثیت’ کے موضوع پر ایک گفتگو کے دوران کیا گیا۔
وفد میں ایم ڈی این کے چیئرمین سینید کوبیلیکا، ایم ڈی این کے اسلامک کلچرل سینٹر (آئی سی سی) کے بورڈ کے رکن ارشد جمیل، منیجر ایم ڈی این ساجد رحیم، بوسنیائی امام فاروک ترزیک، آئی سی سی کے امام سلیم اللہ علیوا، ممبر رحمہ اسلامک ایسوسی ایشن سلیمان کندروچ، آئی سی سی کے آپریشنل منیجر اخلاق احمد، نمائندہ البانی مسجد فیمی بافتی، اور ایم ڈی این ٹور 2023 کے کوآرڈینیٹر میاں وقاص وحید شامل تھے۔
بحث کے شرکاء میں آئی پی ایس آؤٹ ریچ کے مشیر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام، ڈائریکٹر اسکول آف لاء، قائداعظم یونیورسٹی ڈاکٹر عزیز الرحمان، اسسٹنٹ پروفیسر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر تیمیہ صبیحہ ،اسسٹنٹ پروفیسر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) ڈاکٹر ریاض احمد سعید، اسسٹنٹ پروفیسر بحریہ یونیورسٹی، اسلام آباد ڈاکٹر غلام حسین، اور آئ پی ایس کے طرف سے اس کے جنرل مینیجر آپریشنز نوفل شاہ رخ اور سینئیر ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت شامل تھے۔
سینید کوبیلیکا نے یورپی اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کو اقلیتوں کے طور پر درپیش پیچیدہ چیلنجوں پر روشنی ڈالی، جس میں حجاب، نقاب، مخلوط شادیوں اور مصافحہ جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ قرآن کو جلانے جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔ آج کی باہم جڑی ہوئی دنیا میں یہ چیلنجز زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔
مندوبین نے اس بات پر زور دیا کہ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں نے یہ سیکھا ہے کہ اپنے خدشات کو مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے انہیں سیاسی طور پر فعال اور سماجی طور پر ایک گروپ کے طور پر منظم ہونا پڑے گا تاکہ ان کی اجتماعی آواز کا بامعنی اثر ہو سکے۔ اس سے ایک مشترکہ محاذ اور مسلم معاشروں اور اداروں کی منظم نمائندگی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ ٹھوس شواہد اور مشترکہ کوششوں سے اس خلا کو مؤثر طریقے سے پُر کیا جا سکے۔
مقررین نے مسلم معاشروں ، بالخصوص بین المذاہب تعلقات کو فروغ دیتے وقت مربوط ردعمل، منظم نمائندگی اور مربوط کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید زور دے کر کہا کہ مسلمانوں کو سچائی کو پیش کرنے اور کثیر سطحی اداروں کے ساتھ منسلک ہونے کے لیے زیادہ نمایاں، تعلیم یافتہ اور فعال ہونا چاہیے۔ مزید برآں، مسلمانوں کو مغرب میں سیاسی طور پر زیادہ فعال ہونے اور تعصب کا مقابلہ کرنے اور معاشرے میں اسلام کی تفہیم کو فروغ دینے کے لیے بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حیثیت پر بات کرتے ہوئے عوامی تاثرات اور عالمی تناظر کی تشکیل میں غلط معلومات اور میڈیا کے غلط بیانیے کے اہم اثرات پر زور دیا گیا۔ مقررین نے ناکافی بین المذاہب روابط اور تعاملات پر بھی روشنی ڈالی جس کی وجہ سے مذہبی اقلیتوں کے واقعات سے متعلق حقیقی حالات کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان میں جبری مذہب کی تبدیلی کی غلط تصویر کشی پر روشنی ڈالی گئی جس کے مطابق تبدیلی کی ایک بڑی تعداد میں ایسے افراد شامل تھے جو نہ تو کم عمر تھے اور نہ ہی کسی طرح سے مجبور تھے۔ اسی طرح 16 اگست کے جڑانوالہ کے واقعے، جس میں گرجا گھروں کی توڑ پھوڑ شامل تھی، پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے نوٹ کیا کہ اسلامو فوبیا، غلط معلومات اور میڈیا کے کردار جیسے عوامل نے پاکستان میں مذہبی عدم برداشت کے حوالے سے جھوٹے بیانیے کو فروغ دینے اور پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
مقررین نے اندرونی مسائل کی بھی نشاندہی کی لیکن اس کے ساتھ معاملات کو درست نقطہ نظر سے دیکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ایسی غلط فہمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم کوششوں کے ذریعے عام لوگوں میں ایسے واقعات کے پس پردہ حقائق کے بارے میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔
قبل ازیں، ڈاکٹر فخر الاسلام نے مندوبین کو آئی پی ایس، اس کے مینڈیٹ اور اس کے ریسرچ ڈومینز کا تعارف کرایا۔
جواب دیں