کتاب کی تقریبِ رونمائی |’ری وِزیٹنگ دی ڈیورنڈ لائن: ہسٹوریکل اینڈ لیگل پرسپیکٹیوز’
تاریخی شواہد اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پرحالیہ تصنیف کی ڈیورنڈ لائن پر افغان بیانیہ کی تردید
ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ، بین الاقوامی قانون، تاریخی شواہد ، اور اس معاہدے کے دوران تبادلہ ہونے والے اصل نقشے ڈیورنڈ لائن کی موجودہ حیثیت کو بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔ درحقیقت ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ سیاسی اور جیو اسٹریٹیجیک ہے، اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحد کے طور پر اس کی حیثیت ناقابل تردید ہے۔
اس بات کا مشاہدہ تاریخ دان اور محقق ڈاکٹر لطف الرحمٰن کی حالیہ تصنیف ’’ری وِزیٹنگ دی ڈیورنڈ لائن: ہسٹوریکل اینڈ لیگل پرسپیکٹیوز( ڈیورنڈ لائن پر نظر ثانی: تاریخی اور قانونی تناظر) ‘‘کی تقریبِ رونمائی کے دوران کیا گیا۔ تقریب کا اہتمام 15 دسمبر 2023 کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس) اور قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کےسکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز (ایس پی آئی آر) نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
اس تقریب سےسے آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور وائس چیئرمین آئی پی ایس سیّد ابرار حسین، ڈائریکٹر اور پروفیسر ایس پی آئی آر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال، ممبر پبلک سروس کمیشن خیبرپختونخواہ ڈاکٹر رضیہ سلطانہ، اور کتاب کے مصنّف ڈاکٹر لطف الرحمٰن نے خطاب کیا ، جبکہ قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پولیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے لیکچرر فہیم اللہ خان نے ناظم کے فرائض سرانجام دیئے۔
مقررین نے کہا کہ کتاب شواہد پر مبنی تحقیق اور بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کا حوالہ دے کر غلط فہمیوں کو دور کرتی ہے۔ مزید شواہد کے طور پر اس میں افغانستان کے حکمران امیر عبدالرحمٰن خان اور برطانوی ہندوستانی اہلکار مورٹیمر ڈیورنڈ کے درمیان سرحدی معاہدے کے بعد نومبر 1893 میں کابل میں تبادلہ کیے گئے تمام اصل نقشے بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر لطف الرحمٰن نے اپنےمدعے کو شواہد اور بین الاقوامی قانون پر مبنی کرکے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ اس بڑی غلط فہمی کے بارے میں ،کہ یہ معاہدہ ایک صدی کے لیے تھا اور اس کی میعاد 1993 میں ختم ہو گئی تھی، انہوں نے کہا کہ اس میں غروب آفتاب کی کوئی شق نہیں ہے۔ بلکہ معاہدے کا آرٹیکل 2 واضح طور پر تجویز کرتا ہے کہ یہ معاہدہ حد بندی کا معاملہ ہمیشہ کے لیے طے کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تاریخی ریکارڈ اس تصور سےبھی انکار کرتا ہےکہ امیر عبدالرحمٰن نےکسی جبر کے تحت معاہدے پر دستخط کیےتھے۔
مصنّف نے واضح کیا کہ امیر نے خود برطانوی حکومت سے سرحد کی حد بندی کرنے کی درخواست کی تھی اور معاہدے کو مکمل کرنے میں براہ راست حصہ لیا تھا کیونکہ اسے برطانوی اور روسی سلطنتوں کے مسلسل پھیلاؤ سے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ زمینی سروے، باہمی تبادلہ خیال کے معاہدوں اور نقشوں کے ذریعے واضح طور پر افغانستان کی سرحد کی حد بندی کی گئی تھی، جس میں نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے خیر سگالی کے طور پر برطانوی ہند کے کئی علاقے افغانستان کو دیے گئے تھے۔
ڈاکٹر ظفر جسپال نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے معاملے کی بار بار غلط تشریح کی گئی، اچھی ہمسائیگی کے لیے ایسے غلط دعوؤں کا ازالہ ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نے کہا کہ سارا مخمصہ سیاسی اور جیوسٹریٹیجک ہے جبکہ مسلسل ناراضگی اور دشمنی کسی بھی ریاست کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیورنڈ لائن کوئی حقیقی تاریخی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک نسلی گروہ یعنی پختونوں کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئی مضبوط نقطہ نہیں ہے کیونکہ پختون پاکستان کی سیاسی، معاشی اور عسکری زندگی میں بہت زیادہ مربوط ہیں۔
سابق سفیر ابرار حسین نے کہا کہ یکے بعد دیگرے افغان حکومتوں نے سیاسی فائدے کے لیے ڈیورنڈ لائن پر بیان بازی کی لیکن اسے کبھی بین الاقوامی فورم پر نہیں اٹھایا۔ اس کی وجہ ان کے بیانیے کے پیچھے ثبوت کی کمی ہے۔ پاکستان اس معاملے کو باہمی تعلقات کی وجہ سے نہیں اٹھاتا کیونکہ وہ ڈیورنڈ لائن کو ایک بین الاقوامی سرحد اور ایک طے شدہ مسئلہ سمجھتا ہے۔
خالد رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ دو طرفہ مسائل کے حل سے پاکستان، افغانستان اور ان کی متعلقہ آبادیوں کو فائدہ ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سرحدی تنازعہ اُن بیرونی اور اندرونی عناصر کے لیے موزوں ہے جو نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات پروان چڑھیں۔ انہوں نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کی ایک بڑی رکاوٹ کے طور پر نشاندہی کی جو حقیقی تحقیقی کوششوں میں خلل ڈالتی ہیں۔ خالد رحمٰن نے مقامی نقطہ نظر کی طرف توجہ مرکوز کرنے کی اہم ضرورت پر زور دیا، اور اسکالرز اور اکیڈمیا پر زور دیا کہ وہ تحقیقی کوششوں کے معیار اور صداقت کو بڑھانے کے لیے تحقیقی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعاون کریں۔
جواب دیں