وہی قاتل، وہی حاکم، وہی مُنصف ٹھہرے
جموں و کشمیرکا بین الاقوامی تنازعہ پچھلے پچھتر سال سے اقوام عالم کی بے حسی کا شکار ہے۔ یہ ۱۹۴۸ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے کا حصہ ہے اورمظلوم کشمیریوں کی تیسری نسل منتظر ہے کہ کب سلامتی کونسل مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح یہاں بھی اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں کامیاب ہوگی۔مگر دوسری طرف بھارت یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کو اپنے پائوں تلے روندتا چلاجارہا ہے۔ اُسے نہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی۔
وہی قاتل، وہی حاکم، وہی منصف ٹھہرے
کشمیر اور بھارتی سپریم کورٹ
(سابق سفیر)سید ابرار حسین
جموں و کشمیرکا بین الاقوامی تنازعہ پچھلے پچھتر سال سے اقوام عالم کی بے حسی کا شکار ہے۔ یہ ۱۹۴۸ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے کا حصہ ہے اورمظلوم کشمیریوں کی تیسری نسل منتظر ہے کہ کب سلامتی کونسل مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی طرح یہاں بھی اپنی قراردادوں پر عمل کروانے میں کامیاب ہوگی۔مگر دوسری طرف بھارت یک طرفہ فیصلوں کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کو اپنے پائوں تلے روندتا چلاجارہا ہے۔ اُسے نہ بین الاقوامی قوانین کی پرواہ ہے نہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی۔ اقوامِ عالم کے فیصلوں کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے، بھارت نے ۵ اگست ۲۰۱۹ کو اپنے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تاکہ وہاں پر غیر کشمیریوں کو لاکر آباد کیاجاسکے اور آبادی کا تناسب بدل کرمقامی لوگوں کو انہی کی سرزمین میں آہستہ آہستہ اقلیت میں بدل دیا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد سے باہر کے لاکھوں لوگوں کو وہاں کا ڈومیسائل دیا جاچکا ہے۔یہ چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل اُنچاس (۴۹) کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بھارت یہ بھول چُکا ہے کہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو کسی صورت چھینا نہیں جاسکتا۔ ان کا یہ حق اقوامِ متحدہ نے بھی تسلیم کیا ہے اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے بھی باربار یہاں استصوابِ رائے کا وعدہ کیا۔ مگر افسوس کہ بھارتی سپریم کورٹ میں جب ۵ اگست ۲۰۱۹ کے غیرقانونی اقدامات کے خلاف کیس دائر کیا گیا تو پہلے تو چار سال تک اس کیس کی سماعت ہی نہیں کی گئی تاکہ بھارتی حکومت کو کشمیریوں کی آواز کو ظلم و جبرکے ذریعے دبانے کے لیے کافی مہلت مل جائے۔ اور جب پچھلے سال یہ کیس سُنا گیا تو بھارتی سپریم کورٹ نے عدل و انصاف کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے عملی طور بھارتی حکومت کے ان غیر قانونی اقدامات کو پورا تحفظ فراہم کیا۔ عدالت نے کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی پر بھارتی حکومت کو کوئی سرزنش تک نہیں کی اور یوں بالواسطہ طور پر اس کے مظالم کی توثیق کی۔ گویا بقول امیر قزلباش:
اُسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمار ا قصور نکلے گا
عدالت کا فیصلہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ۱۹۴۷ میں کشمیر کے راجہ نے بھارت سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس لیے تب سے کشمیرمکمل طور پر بھارت کا حصہ ہے،۔ عدالت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور اُس وقت کی بھارتی قیادت کے وعدوں کوجان بوجھ کر مکمل طور پر نظرانداز کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپ ملکی قوانین کا سہارا لے کر بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے فیصلوں سے راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتے۔ چنانچہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کو کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوںکی پابندی سے آزاد نہیں کرسکتا اور نہ ہی کشمیرکو زبردستی بھارت میں شامل کرنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔سلامتی کونسل کی ۱۹۵۷ کی قرارداد نمبر ایک سو بائیس ( ۱۲۲ ) کے مطابق کشمیر یا اس کے کسی حصے کی حیثیت کے بارے میں کشمیر اسمبلی کا کوئی بھی فیصلہ یااس کے مطابق کسی بھی فریق کا کوئی عمل اس اصول کو متاثرنہیں کرے گا کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا جس کا اظہار وہ ایک استصوابِ رائے کے ذریعے کریں گے۔
بھارتی سپریم کورٹ میں بحث کے دوران وہاں کے معروف وکیل کپل سبل نے اعتراف کیا کہ کشمیر کا موجودہ بھارت سے کوئی تاریخی یا جغرافیائی تعلق نہیں ہے بلکہ تقسیمِ پاک و ہند کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ نے ہیرا پھیری کے ذریعے بھارت کو کشمیر تک راستہ مہیا کیا۔کپل سبل نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان اُس وقت جونا گڑھ میں بھی استصوابِ رائے کے لیے آمادہ ہوگیا تھا کیونکہ اُس کو یقین تھا کہ ایسے ہی کشمیر میں بھی استصوابِ رائے ہوگا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران کشمیریوں کے ساتھ عدالت کا رویہ تضحیک آمیز رہا۔ ایک کشمیری اکبر لون سے کہا گیا کہ وہ حلف نامہ داخل کرے کہ وہ بھارتی آئین کا وفادار ہے۔ حالانکہ اکبر لون لوک سبھا کا رُکن ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے وقت یہ بھی نہ دیکھا کہ حکومت کے اقدامات خود بھارتی آئین سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ مثلاً اُن کے دستور کے آرٹیکل اکاون ( ۵۱) یہ کہتا ہے کہ بھارت بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرے گا جبکہ کشمیر سے متعلق ۲۰۱۹ کے بھارتی فیصلے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل تین (۳) کے مطابق کسی ریاست کی اسمبلی کی رائے لیے بغیر اس کی سرحدیں تبدیل نہیں کی جائیں گی مگر مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی سے پوچھے بغیر اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور لداخ کو ایک الگ علاقہ بنادیا گیا۔بھارتی سپریم کورٹ نے اس سارے غیر قانونی عمل کو تسلیم کرلیا۔
اور پھر سب سے بڑھ کر آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لیے ریاست کی دستورساز اسمبلی کی سفارش درکار تھی۔ اس کو ایک نہایت ہی مضحکہ خیز اور غیر منطقی استدلال کے ذریعے بدلنے کا جواز مہیا کیا گیا اور کہا گیاکہ ریاست کی دستور ساز اسمبلی کی متبادل قانون ساز اسمبلی ہے مگر چونکہ ریاست میں گورنر راج نافذ ہے اس لیے ریاستی اسمبلی کی متبادل بھارتی پارلیمان ہے۔ اس طرح ایک لنگڑی لولی دلیل کے ذریعے کشمیریوں سے ان کی خصوصی حیثیت چھین لی گئی۔
اس پس منظر میں حکومتِ پاکستان نے بھارتی سپریم کورٹ کے اس غیر منصفانہ فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا فیصلہ وہاں کے عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہونا ہے۔ وزارت خارجہ نے ۱۱ دسمبر ۲۰۲۳ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں واضح کیا کہ پاکستان جموں و کشمیر پر بھارتی آئین کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے نہ صرف علاقے کی متنازعہ حیثیت سے صرفِ نظر کیا بلکہ کشمیری عوام کی خواہشات کو بھی نظر انداز کیاہے۔ایسے اقدامات کسی بھی صورت استصوابِ رائے کا متبادل نہیں ہو سکتے۔
اب صاف نظر آرہا ہے کہ بھارت کے تمام ادارے یعنی انتظامیہ، پارلیمان، عدلیہ اور فوج مل کر اس کوشش میں ہیں کہ کشمیریوں کی اُمیدوں کے تمام چراغ بجھادیے جائیں اور اس مقصد کے لیے ظلم و جبر کی ہر حد پار کرنے سے بھی گُریز نہ کیا جائے۔ کشمیری ایک عجیب بے بسی اور دُکھ کا شکار ہیں مگر اُن کے دلوں میں اب بھی بھارت سے آزادی کا جزبہ موجزن ہے۔بھارت کی تمام تر کوششوں کے باوجودشمعِ آزادی کی لو کم نہیں ہوپاتی اور یہی بات بھارتی کو پریشان کیے ہوئے ہے۔
آخر میں غالب کا شعر یاد آگیا:
کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رُخصت ہی سہی
جواب دیں