محمد ایوب ٹھاکرؒ (۱۹۴۸– ۲۰۰۴ء)
محمد ایوب ٹھاکرؒ (۱۹۴۸– ۲۰۰۴ء)
پروفیسر خورشید احمد
۱۱ فروری ۲۰۰۴ء کو جب میں اَکس برج (لندن) کے ہسپتال میں برادرم حاشر فاروقی اور برادرم کمال ھلباوی کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں اپنے عزیز بھائی اور تحریک ِآزادیِ کشمیر کے عظیم مجاہد ڈاکٹر ایوب ٹھاکرسے ملا تودل ایک خطرے کے احساس سے کانپ رہا تھا اور زبان ارض وسما کے مالک سے التجا کر رہی تھی کہ اسلام کے اس سپاہی کو نئی زندگی دے اور اسےاس مقصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے مزید مہلت دے، جس میں اس نے اپنی طالب ِعلمی، اپنی جوانی اور اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایوب ٹھاکر زبان سے کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر اصرار کر کے کاغذمنگوایا اور کانپتے ہاتھوں سے مجھے گواہ بناکر لکھا: "میری زندگی کا مقصد اسلام، پاکستان اور تحریکِ آزادیِ کشمیر ہے-” آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن قلب و نگاہ انھی مقاصد پر مرکوز تھے۔ ہاں، یہ بھی لکھا: "میرے بیٹے مزمل کا خیال رکھنا، اسے اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے تربیت اور رہ نمائی کی ضرورت ہے۔”
ایوب ٹھاکر مرحوم سے میری پہلی ملاقات ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں ۱۹۸۰ء میں ہوئی، جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ مقبوضہ کشمیر کے ناظم اعلیٰ تھے اور سری نگر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان نے اپنے خلوص، اپنی فکری اصابت اور مقصد سے اپنی لگن کے باب میں مجھے تحریک ِآزادی ِکشمیر سے وابستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوجوان ایوب ٹھاکر سے یہ پہلی ملاقات اہم سنگِ میل ہے۔ ہم جتنے دن ساتھ رہے، ایک ہی موضوع ہماری گفتگو کا محور تھا— کشمیر کے لیے کیا کیا جائے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کو اس کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟
یہ ایوب ٹھاکر اور ان جیسے نوجوان ہی تھے جنھوں نے مجھے یہ یقین دیا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر کبھی قانع نہیں ہوں گے، اور ان شاء اللّٰہ ایک دن ان زنجیروں کو توڑکر رہیں گے جن میں انھیں پابندِسلاسل کردیا گیا ہے۔
ایوب ٹھاکر کا وژن بہت صاف اور نقشۂ راہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود اس پر چل کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا اور عالمی سطح پر کشمیرکاز کو پیش کرنے میں جتنی خدمت انجام دی وہ دوسری کسی جماعت، گروہ، بلکہ مملکت کی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
ایوب ٹھاکر کے وژن میں کشمیر کی آزادی، پاکستان سے اس کی وابستگی اور صرف اسلام کی بالادستی، ایک ہی حقیقت کے تین روپ اور ایک ہی منزل کے تین نشان تھے۔ اس سلسلے میں، میں نے ان کو کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہیں پایا۔ جس قوم نے ایوب ٹھاکر جیسا نوجوان، مجاہد اور مفکر پیدا کیا وہ ان شاء اللّٰہ کبھی غلام نہیں رہ سکتی— آزادی اور عزت کی زندگی اس کا مقدر ہے، وقت جتنا بھی لگے!
ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں (اسلام آباد) میں ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ کشمیر یونی ورسٹی سے نیوکلیرفزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ جو بین الاقوامی کانفرنس بنگلہ دیش میں ہمارے موضوعات میں شامل تھی، تمام تر رکاوٹوں اور خطرات کے باوجود ایوب ٹھاکر اور ان کے رفقا نے اس کا انعقاد اگست ۱۹۸۰ء میں ممکن بنایا۔ سری نگر میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی عالمی کانفرنس ایسا ‘جرم’ تھا، جس کی پاداش میں ایوب ٹھاکر گرفتار ہوئے اور ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ ۱۹۸۱ء میں جدہ کی عبدالعزیز یونی ورسٹی میں استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی اور پھر وہاں انھوں نے پانچ سال خدمات انجام دیں جس کے بعد ۱۹۸۶ء میں وہ انگلستان منتقل ہوگئے جہاں تن، من دھن سے آزادیِ کشمیر کی جدوجہد میں شب و روز مشغول ہوگئے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میری ہی دعوت پر وہ انگلستان آئے، انٹرنیشنل سینٹر فار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا، پھر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے بانی صدر بنے، مرسی انٹرنیشنل (Mercy International) اور جسٹس فاؤنڈیشن انھی کی محنتوں کا ثمرہ تھے۔ انگلستان، یورپ اور پوری دنیامیں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں۔ خود مقبوضہ کشمیر میں تحریک کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
وہ عالمی سطح پر تحریک کے دماغ تھے اور دست و بازو بھی خود ہی فراہم کرتے تھے۔ برطانیہ میں سیاسی، سفارتی اور علمی حلقوں میں انھوں نے بے پناہ کام کیا اور بڑی عزت کا مقام بنایا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ امریکہ، یورپ اور عرب دنیا، ہر جگہ انھوں نے تحریک ِآزادیِ کشمیر کو متحرک کیا اور اس کی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔
ڈاکٹر ایوب ٹھاکرمرحوم بہت سلجھی ہوئی فکر کے حامل تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو انھوں نے اپنے مقصد کی خدمت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ادارہ سازی (Institution making) کا بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ مقصد کے لیے قربانی اور اَن تھک محنت ان کی شخصیت کے دل آویز پہلو تھے۔ تحریک ِاسلامی کے وفادار سپاہی تھے اور نازک سے نازک وقت پر بھی ان کی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئی۔
۵۵ سال کی عمر میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان کا رخصت ہو جانا ایک عظیم نقصان تھا۔ اللہ ربّ السماوات والارض سے دعا ہے کہ اپنے اس مخلص اور وفادار بندے کی خدمات کو قبول فرمائے، اسے جنت الفردوس میں جگہ دے، اور جس مظلوم قوم کی آزادی کی جدوجہد میں اس نے اپنی جان آفریں کے سپرد کی اس قوم کی اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے کہ اس کی خاطر لاکھوں جانیں تلف ہوگئی ہیں اور ہزاروں جوانیاں لُٹ گئی ہیں۔
جواب دیں