پاکستان کے بحری وسائل پر مبنی معیشت ۔صلاحیت اور امکانات

maritime title 1

پاکستان کے بحری وسائل پر مبنی معیشت ۔صلاحیت اور امکانات

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایک جامع پروگرام کا عنوان ہے۔ ’’پاکستان: جغرافیائی سیاست اور جغرافیائی اسٹریٹیجک عوامل‘‘۔ اس پروگرام کا مطمح نظر ملک کو درپیش متنوع تزویراتی (اسٹریٹیجک) چیلنجوں کا جائزہ اور ان کے بہترین ممکنہ حل کی تلاش اور اس کے لیے مناسب حکمت عملی کی تشکیل ہے۔ اس مرکزی خیال کے تحت پاکستان کے بحری وسائل کا جائزہ ایک ایسا عنوان ہے جس پر آئی پی ایس نے توجہ مرکوز کی ہے۔
پاکستان میں بحری شعبے کے حالات و مسائل سے آگاہی کے سلسلہ میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے 29اکتوبر2013ء کو ایک سیمینار منعقد کیا جس کا عنوان تھا۔ ’’پاکستان میں بحری وسائل پر مبنی معیشت۔صلاحیت اور امکانات‘‘۔ یہ اس سلسلے کی دوسری نشست تھی۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں سابق وائس چیف آف نیول اسٹاف اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل نیشنل سنٹر فارمیری ٹائم پالیسی ریسرچ، مرکزی مقرر تھے جب کہ آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ کمانڈر (ر) اظہر احمد نے سیمینار میں نظامت کے فرائض سرانجام دیے۔
وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں نے بتایاکہ نیشنل میری ٹائم پالیسی کا ڈرافٹ ابھی تک حتمی پالیسی کی شکل اختیار نہیں کر پایا ہے حالانکہ یہ ساڑھے تین سال پہلے تیار کیا گیا تھا۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اٹھارویں دستوری ترمیم کی وجہ سے صوبے ، بالخصوص سندھ اور بلوچستان، تحفظات کا شکار ہیں۔ میری ٹائم پالیسی کو حتمی شکل نہ دینے کے باعث قوم ہر سال اربوں روپے کا نقصان اٹھا رہی ہے۔
انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں دستوری ترمیم کے باعث بحری امور کا شعبہ اب صوبوں کے دائرہ اختیار میں چلاگیا ہے جو ان امور کو سنبھالنے کا تجربہ اور صلاحیت نہ رکھنے کے باعث تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کے قابل نہیں ہو پائے۔ ان کی رائے تھی کہ بحری شعبے کو پھر سے وفاقی دائرہ کار میں لیا جانا چاہیے تاکہ اس انتہائی اہم تزویراتی شعبے کو ایک متحد کمانڈ اور مربوط پالیسی کے ذریعے بہتری کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ 

 

dsc 0491

 
انہوں نے کہاکہ میری ٹائم پالیسی وضع کرنے کا مقصد پاکستان کے بہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات لانا تھا تاکہ ملک میں تجارت اور سیکیورٹی کے مسائل سے بہتر طور پر نمٹاجاسکے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پالیسی کی منظوری میں تاخیر ملک میں تجارت، اقتصادی سرگرمیوں اور تزویراتی مفادات کو متاثر کررہی ہے۔ دوسری طرف اس سے ملک کو درپیش اقتصادی، ماحولیاتی اور سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بندرگاہ کے امور کسی ایک متحدہ کمان یا کم ازکم ایک مربوط کوشش کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے ملک کے بحری شعبے کو الگ الگ وزارتوں اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے نمٹایا جارہا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا مربوط طریقہ کار ہونا چاہیے کہ قومی سمندری علاقوں سے فوری اور طویل مدت کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت کو ایک ایسی غیرموثر میری ٹائم کوآرڈی نیشن کمیٹی کے بجائے،جس میں مختلف محکموں کی نمائندگی 18سیکرٹری کررہے ہوں، وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا چاہیے تاکہ بحری امور سے متعلق معاملات کو بہتر طور پر چلایا جاسکے۔
بندرگاہوں اور جہازرانی کے لیے ایک مربوط نقطۂ نظر اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک میں بحری وسائل میں ترقی کے امکانات روشن کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، صنعتی علاقے، ماہی گیری، سٹوریج کی سہولیات بندرگاہوں کے قریب واقع ہوں نیز ریل اور سٹرک کے ذریعے بندرگاہوں سے منسلک ہوں۔

 

dsc 0509

 

انہوں نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ جو 2008ء سے چالو ہے اور جس پر چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے محض مربوط لائحہ عمل کی کمی کے باعث ترقی کا عمل طے نہیں کر پارہی ہے۔ اندرونِ ملک ریل یا سٹرک کے ذریعے منسلک نہ ہونے کے باعث گوادر میں فی ٹن کارگو پر 30امریکی ڈالر اضافی اخراجات ہو رہے ہیں۔گوادر پر اب تک 5ملین ٹن کارگو کی سہولت فراہم ہوسکی ہے اور 2008ء سے صرف 145جہازوں کو یہاں پر لایاگیا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں جہاز رانی کی بندرگاہوں کو جدید خطوط پر ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں دونوں بندرگاہوں کے لیے ریل کی سہولت نہیں ہے۔ گوادر کو باقی ملک حتیٰ کہ کوئٹہ سے جوڑنے کے لیے بھی سڑکوں کی کمی ہے۔
آصف ہمایوں نے کہا کہ ایک طرف حکومت کو بندرگاہوں، جہازرانی اور رسدکی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری حاصل کرنی چاہیے تو دوسری طرف مستقبل کے لیے سمندری پیشہ ورانہ افرادی قوت اور ہنر مند کارکنوں کے لیے تربیت کی فراہمی کا اہتمام کرناچاہیے تاکہ ملک کی مضبوط جغرافیائی اور تزویراتی پوزیشن سے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔

 

dsc 0524

 

پاکستان کے پاس کھلے سمندر میں جہاز پر کام کرنے والے تقریباً بیس ہزار ’’جہازی‘‘ (Seafarers)ہیں جنہیں انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن نے قابل، مؤثر اور محنتی تسلیم کیا ہے۔ لیکن نائن الیون کے بعد بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوگئی ہے۔ اب صرف ایک تہائی پاکستانی جہازی ملازمت کررہے ہیں اور ملک کی معیشت میں سالانہ 25ملین ڈالرز کی رقم شامل کر رہے ہیں انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بین الاقوامی جہازوں پر ان کی تعداد بڑھانے کے لیے سفارتی کوششیں کرنی چاہییں۔
سیمینارکے اختتام پر ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور آئی پی ایس کی جانب سے اس عزم کو دہرایا کہ وہ حکومت اور متعلقہ حلقوں کو تمام اہم موضوعات پر پالیسی تجاویز فراہم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔

نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۳

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے