‘موسمیاتی تبدیلی اور دیگر ماحولیاتی معاملات کے حوالے سے بچّے اور ان کے تحفظ کے مسائل’
بچّوں کے تحفظ کی کوششوں کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی ارادہ اور مربوط حکمت عملی ضروری قرار
بچوں کے تحفظ اور ان کے حقوق سے متعلق ردِ عمل کو بہتر بنانے کے لیے اس معاملے میں سیاسی قیادت کی شمولیت ضروری ہے تاکہ متعلقہ حکام میں اس عزم کی کمی کو پورا کر کے بچوں کی فلاح و بہبودکے لیے بامعنی پیش رفت کی جا سکے۔
مزید برآں، اس کے لیے ایک ایسی جامع اور فعال حکمت عملی کی بھی ضرورت ہے جو تعلیم، ٹیکنالوجی، پالیسی، اورکمیونٹی سپورٹ کوایک ساتھ یکجا کرے۔ ان طریقوں کو استعمال کر کے ہم بچوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ تر ڈیجیٹل ماحول بنا سکتے ہیں ، اور یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ آج کی تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی دیجیٹل دنیا میں ان کے حقوق کا تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود مقدم رہے۔
ان خیالات کا اظہار ‘موسمیاتی تبدیلی اور دیگر ماحولیاتی معاملات کے حوالے سے بچے اور ان کے تحفظ کے مسائل’ پر ایک سیشن کے دوران ہوا، جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے تعاون سے بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں 21 مئی 2024 کو ہوا۔
اس نشست سے آئی پی ایس کے سینئیر ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت، ریسرچ ایسوسی ایٹ امینہ سہیل، سینئر ممبر نیشنل کمیشن آن رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) خالد نعیم ، نیشنل کوآرڈینیٹر برائے چائلڈ رائٹس موومنٹ سید اشتیاق گیلانی،ایگزیکٹو ڈائریکٹر ورسو کنسلٹنگ صفیہ آفتاب، اور اسسٹنٹ منیجرہاشو فاؤنڈیشن حارث علی شاہ نے خطاب کیا۔
ندیم فرحت نے کلیدی بین الاقوامی کنونشنوں، جیسے کنونشن آن رائٹس آف دی چائیلڈ، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن،، معذور افراد کے حقوق سے متعلق کنونشن، تشدد کے خلاف کنونشن، اورنسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمہ کے لیے بین الاقوامی کنونشن کے بارے میں آگاہ کیا۔
تحفظ کے لیے عالمی فریم ورک کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے قومی کوششوں کو بین الاقوامی معیارات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ یہ جامع نقطہ نظر نہ صرف بچوں کے تحفظ میں اضافہ کرے گا بلکہ تمام بچوں کے لیےسماجی انصاف، مساوات اور شمولیت کو بھی فروغ دے گا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خاندانی تحفظ کو یقینی بنانا، بچوں کی بہبود کو ترجیح دینا اور ہر انسان کو زندگی میں ایک صحت مند کردار ادا کرنے کے لیے تیار کرنا کسی بھی پالیسی، نقطہ نظر، اور بچوں سے متعلق کسی بھی نئے کام کا مقصد ہونا چاہیے۔
پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن اور اس کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق اور اس پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور بچوں کی مختلف جہتوں کا خیال رکھنے کے لیے درجنوں قوانین نافذ کیے ہوئے ہیں۔
امینہ سہیل نے کہا کہ "ہر بچہ اہمیت رکھتا ہے” اور ڈیجیٹل دور میں مربوط نقطہ نظر کے ذریعے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیجیٹل خواندگی اور تعلیم کو فروغ دینا، سائیبر سیکیورٹی اقدامات کے ذریعے آن لائن تحفظ اور حفاظت کو یقینی بنانا، اور مواد کی فلٹرنگ اور مانیٹرنگ ایسے اقدامات ہیں جو بچوں کو گیجیٹس ان کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ آنے والی نسل کی ذہنی اور جذباتی صحت کی ضمانت صرف ایسے اقدامات کے ذریعے دی جا سکتی ہے کہ اسکرین ٹائم کو متوازن رکھا جائے، سائبر ایذا رسانی سے نمٹا جائے اور مثبت آن لائن رویے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
مزید برآں، تعلیمی وسائل تک رسائی فراہم کرنا، مضبوط قانونی اور پالیسی فریم ورک قائم کرنا، اور کمیونٹی سپورٹ سسٹم کو فروغ دینا بھی ضروری ہے۔ "جہاں ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے، اسے انسانی جانوں اور قوم ، یا حتیٰ کہ انسانیت کے مستقبل پر بھی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی”، انہوں نے کہا۔
دیگر مقررین نے حکومتی اور غیر سرکاری سطح پر پاکستان کے آئین، بین الاقوامی اور ملکی قانون اور زمینی حقائق کے درمیان موجود فرق کو کم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کو متعارف کرایا۔
پاکستان اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق کرنے والا پہلا اسلامی ملک ہونے کے باوجود اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ابھی تک جدوجہد کر رہا ہے، اشتیاق گیلانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ پاکستان کے پاس بچوں کے حقوق کو یقینی بنانے، ، اور خاص طور پر بچوںکے تحفظ کی ضمانت کے لیےایک جامع قانونی اورانتظامی طریقہ کارموجود ہے، لیکن پالیسی اور اس پر عمل کے درمیان فرق بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ خاص طور پر دور دراز کے دیہاتوں میں مقررہ عمر کی حد سے پہلے شادی جیسے مسائل اکثر خراب سماجی و معاشی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
صفیہ آفتاب نے روشنی ڈالی کہ معاشی دباؤ کم عمری کی شادیوں کی بلند شرح میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیلاب جیسی تباہی والدین کو مجبور کرتی ہے کہ وہ چھوٹی عمر میں بھی شادی کر کے اپنی بیٹیوں کا مستقبل محفوظ کر لیں۔ نوجوان لڑکوں کی شادیوں کی حرکیات مختلف ہیں لیکن یہ بھی سماجی و اقتصادی عوامل سے منسلک ہیں۔
سیلاب اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ علاقوں میں ہاشو فاؤنڈیشن کی جانب سے بچوں کے تحفظ کے لیے متعدد منصوبوں کی تفصیلات کا ذکرکرتے ہوئے حارث شاہ نے کہا کہ ان کمیونٹیز کی مدد کرنے کے لیے علماء اور برادری سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے کے لیے تعاون کی طاقت کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے طریقے بچوں پر مرکوز ہونے چاہیے اور فوری ضرورتوں کو پورا کرنے اور دوبارہ ابھرنے کی طویل مدتی صلاحیت کے ساتھ مربوط ہونے چاہیے۔ ۔
خالد نعیم نے پالیسیوں کی جانچ اور جائزہ لینے اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے حوالے سے این سی آر سی کے مینڈیٹ پر زور دیا۔ ۔ انہوں نے کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی اور بچوں کے حقوق کے درمیان تعلق کو تسلیم کرنا اور بچوں کے حقوق کی وکالت کے منصوبوں کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسی موافقتی اقدامات کے لیے کوشش کرنا جو آب و ہوا سے متعلق خطرات کے خلاف بچوں میں دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت پیدا کریں اور موسمیاتی تبدیلی کے محرکات کو کم کر کے احتیاطی طریقہ کار اپنائیں، طویل مدتی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔
جواب دیں