‘شمسی توانائی کی جانب منتقل ہونے کا سامنا: پاکستان کے پاور سیکٹر میں مساوی توانائی تک رسائی کو یقینی بنانا ‘

‘شمسی توانائی کی جانب منتقل ہونے کا سامنا: پاکستان کے پاور سیکٹر میں مساوی توانائی تک رسائی کو یقینی بنانا ‘

روف ٹاپ سولر سسٹمز کےاستعمال میں اضافے کے  ساتھ صارفین کے لیے توانائی تک مساوی  رسائی پر زور

روف ٹاپ سولر سسٹمز کے استعمال میں بڑھتا ہوا  اضافہ جہاں  پاکستان کے توانائی کے منظر نامے کو تبدیل کر رہا ہے ،  وہیں اُن کم آمدنی والے بجلی کے صارفین کے لیے مشکلات بھی پیدا کر رہا ہے جو روایتی گرڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے، تمام صارفین کے لیے توانائی کی مساوی رسائی کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے۔

یہ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) ، اسلام  آباد کے  زیر اہتمام ‘شمسی توانائی کی جانب منتقل ہونے کا سامنا: پاکستان کے پاور سیکٹر میں مساوی توانائی تک رسائی کو یقینی بنانا ‘ کے عنوان سے  23 اکتوبر  2024 کو منعقدہ سیشن کا مرکزی نقطہ تھا۔ اس نشست سے خطاب کرنے والوں میں آئی پی ایس کے چیئرمین خالد رحمٰن، سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی مرزا حامد حسن ،سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور انرجی ایڈووکیٹ امینہ سہیل، امریلی اسٹیلز کے سربراہ  برائے  انرجی اینڈ سسٹین ایبیلیٹی ابوبکر اسماعیل، صدیق رینیوایبل انرجی کے سی ای او محمد مصدق، قابل تجدید توانائی کے ماہر اسد محمود اور دیگر مقررین شامل تھے۔

آئی پی ایس کے ریسرچ آفیسرولی فاروقی نے سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ شمسی توانائی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے صارفین نے اسے بڑے پیمانے پر اپنایا ہے، اس کا زیادہ تر فائدہ اشرافیہ کو ہو رہا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ تبدیلی  ایسے غیر منصفانہ توانائی کے نظام  کوتشکیل دے رہی ہے جس میں وہ لوگ جو شمسی توانائی کی استطاعت نہیں رکھتے  ،نقصان میں ہیں اور ان پر زیادہ بلوں کا بوجھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ ادائیگی کرنے کی صلاحیت رکھنے والے خود کو بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے بچا سکتے ہیں، لیکن کم آمدنی والے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خالد رحمٰن نے زور دیا کہ نیٹ میٹرنگ کی پالیسیوں میں بروقت اپ ڈیٹس کی کمی ان عدم مساوات کو بڑھا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید جامع پالیسی کے فروغ پر زور دیا جو اس بات کو یقینی بنائے کہ شمسی توانائی کو اپنانے والے اور گرڈ پر منحصر صارفین دونوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تبدیلیوں اور ان کے وسیع اثرات کا اندازہ کیے بغیر صارفین کی اکثریت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے  ۔

امینہ سہیل نے گرڈ آپریشنز پر شمسی توانائی کے غیر تشخیصی اضافے کے تناؤ سے خبردار کیا۔ انہوں نے گرڈ کے مالی اور آپریشنل استحکام کو خطرے میں ڈالے بغیر شمسی توانائی کے انضمام کو ترجیح دینے کے لیے پاکستان کی توانائی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی تجارتی طور پر قابل عمل ہے، لیکن ہمیں ایک ایسے ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے جو نظام کے استحکام کی حمایت کرتا ہو اور شمسی توانائی کو مساوی طور پر اپنانے کو فروغ دیتا ہو۔

اسد محمود نے ان صارفین کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو اجاگر کیا جو شمسی توانائی کی استطاعت رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں شمسی توانائی کو اپنانے والے نمایاں طور پر کم بلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، بہت سے صارفین کو بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے واضح ضوابط کی ضرورت پر اور اس بات کا تعین کرنے پر زور دیا کہ گرڈ کتنی شمسی توانائی کو سنبھال سکتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اس کی توسیع سے ان صارفین کو نقصان نہیں پہنچے گا جو توانائی کے روایتی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔

ابوبکراسماعیل نے شمسی توانائی کی منتقلی میں مساوی پالیسی سازی کی اہمیت پر زور دیا، جس میں شمسی عدم تسلسل سے درپیش چیلنجوں کو اجاگر کیا گیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جب کہ قابل تجدید توانائی اور ڈی کاربنائزیشن کو عالمی سطح پر تعاون حاصل ہے، توانائی کی قابل اعتماد فراہمی کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں تک کہ جب شمسی توانائی دستیاب نہ ہو۔ یہ انرجی ایکویٹی کے لیے چیلنجز پیدا کرتا ہے، کیونکہ یوٹیلیٹی کے وائر ڈنیٹ ورک کی نگہداشت پر اب بھی لاگت آتی ہے، جس میں شمسی صارفین مناسب طور پر حصہ نہیں ڈال رہے ہیں۔ مزید برآں، رات کے وقت گرڈ سے فریکوئنسی، وولٹیج اور سپلائی کو متوازن کرنے سے مزید اخراجات بڑھ جاتے ہیں جن کا مکمل حساب کتاب نہیں لیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پالیسی اور ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر، شمسی توانائی کی طرف بڑھتی ہوئی تبدیلی گرڈ کے استحکام میں عدم توازن کا باعث بن سکتی ہے، جو ممکنہ طور پر اگلے دو   سالوں میں "ڈک کرو” کا باعث بن سکتی ہے۔

محمد مصدق نے پاکستان میں شمسی توانائی کی کم رسائی کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہارکیا اوراس بات پر روشنی ڈالی کہ بجلی چوری ایک اہم چیلنج ہے جو اس شعبے کی ترقی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ انہوں نے فاسل ایندھن کی وجہ سے ہونے والے ماحولیاتی نقصان کو دور کرنے کی فوری ضرورت پر زور ڈالا اور کہا کہ الیکٹرک گاڑیاں اور شمسی توانائی کو اپنانا ناگزیر ہے جس کی طلب بڑھتی رہے گی اور ممکنہ طور پر موجودہ پاور پلانٹس کے لیے چیلنجز کا باعث بنے گا۔

اپنے اختتامی کلمات میں مرزا حامد حسن نے نیٹ میٹرنگ صارفین اور گرڈ پر انحصار کرنے والوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ملک کے توانائی کے مستقبل کے لیے شمسی توانائی کو اپنانا ضروری ہے، وہیں یہ یقینی بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ گرڈ کو برقرار رکھنے کے اخراجات کی منصفانہ تقسیم ہو۔ انہوں نے نیٹ میٹرنگ صارفین پر منصفانہ گرڈ لاگت منتقل کرنے کی وکالت کی، تاکہ گرڈ پر انحصار کرنے والوں پر نے انصافی بوجھ نہ پڑے۔

انہوں نے پالیسی سازوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ توانائی کا ایک مساوی فریم ورک بنائیں جو شمسی صارفین اور روایتی گرڈ صارفین دونوں کو سپورٹ کرے۔ سیمینار سب کے لیے پائیدار اور منصفانہ توانائی کی منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کے مطالبے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے