‘پاکستان میں غذائی سلامتی اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات (جی ایم او)’
ماہرین کا پاکستان میں جینیاتی تبدیل شدہ فصلیں (جی ایم او) متعارف کرانے سے پہلے مقامی ریگولیٹری فریم ورک پر زور
جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کی سیفٹی کے بارے میں سائنسی نتائج ابھی تک غیر یقینی ہیں، اس لیے پاکستان میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کو متعارف کرانے سے پہلے ایک اسٹریٹجک تشخیص ضروری ہے ، جو ایک مضبوط ریگولیٹری نظام کے زیر سایہ ہونی چاہیے۔ یہ طریقہ کار، مقامی تحقیق، اپنے وسائل کے استعمال، اور مخصوص حفاظتی معیارات پر مبنی ہونا چاہیے، جو پاکستان کی منفرد زرعی اور ماحولیاتی حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔ مزید برآں، اخلاقی، صحت، اور ماحولیاتی خدشات کا حل بھی نہایت اہم ہے۔ اس معاملے کی کھوج کرتے ہوئے پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا فریم ورک تیار کرے جو قومی مفادات، عوامی صحت اور ماحولیاتی توازن کو ترجیح دے۔
یہ خیالات ‘غذائی سلامتی اور جینیاتی طور پر تبدیل شدہ حیاتیات (جی ایم او)’کے عنوان پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد میں 29 اکتوبر 2024 کو منعقدہ ایک گول میز اجلاس کے دوران پیش کیے گئے۔ پینل میں چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، ہری پور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی ، ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف جینومکس اینڈ ایڈوانسڈ بائیو ٹیکنالوجی (این آئی جی اے بی) ڈاکٹر شوکت علی، اور بارانی زرعئ یونیورسٹی راولپنڈی کے پروفیسر ڈاکٹر زاہد اکرم شامل تھے ، جبکہ اس اجلاس میں تعلیمی اداروں، ماہرین، حکومت کے اہلکاروں، محققین، اور کسانوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
بحث میں یہ نوٹ کیا گیا کہ اگرچہ جینیاتی تبدیلی زراعت کی ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے لازمی بن گئی ہے، لیکن انسانی صحت اور ماحولیاتی استحکام پر اس کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں خدشات موجود ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ایسی اسٹریٹجک تشخیص اور مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے، جو مواد اور اس پر عمل درآمد ، دونوں میں مؤثر ہو اور خوراک کی سلامتی، عوامی صحت، اور ماحولیاتی پائیداری کے طویل مدتی فوائد کو ترجیح دے۔
مقررین نے نوٹ کیا کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کی تحقیق، جو بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کی اعلی پیداواری صلاحیتوں اور کیڑوں، جڑی بوٹیوں، اور نامساعد موسمی حالات کے خلاف مزاحمت پر مرکوز ہے، زیادہ تر عطیہ دہندگان کی طرف سے شروع کی گئی ہے۔ تاہم یہ عطیہ دہندگان کے اقدامات مقامی زرعی حقیقتوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز ، جیسے کسانوں اور صارفین کی ترجیحات کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں، شرکاء نے مقامی تحقیق کی حمایت کی اور ایک جامع، شمولیتی غذائی پالیسی کے قیام کی وکالت کی جو تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرے۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے کہ یہ قومی ترجیحات اور عوامی فلاح و بہبود کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
بحث کے دوران صحت اور ماحولیاتی تحفظ کلیدی خدشات کے طور پر سامنے آئے۔ شرکاء نے ایسے مطالعات کا حوالہ دیا جو جینیاتی طور پر تبدیل شدہ کھانے کی کھپت اور صحت کے مسائل کے درمیان روابط کی نشاندہی کرتے ہیں، جیسے الرجی، کینسر، اور جانوروں کی تولیدی صلاحیت میں کمی۔ بحث میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا بھی حوالہ دیا گیا، جس نے نوٹ کیا ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر استعمال ہونے والی بعض جڑی بوٹیوں کی دوائیں، جیسے گلائفوسیٹ، سرطان پیدا کرنے والی خصوصیات رکھتی ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ چیزوں کا صحت بخش ہونے پر سائنسی اتفاق رائے غیر نتیجہ خیز ہے، لہٰذا عوامی صحت کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مقررین نے اقتصادی اور اخلاقی پہلوؤں پر بھی بات چیت کی۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں کی زیادہ قیمت کسانوں کو اپنی فصلیں کاشت کرنے سے روک سکتی ہے، جس سے انہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں پر مالی طور پر زیادہ انحصار کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزید برآں، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر کیڑے مار دوا اور جڑی بوٹی مار دوا کا بار بار استعمال اگر احتیاط سے نہ کیا جائے تو اضافی ماحولیاتی اور صحت کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اختتامی کلمات میں خالد رحمٰن نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے زرعی نظام کا بنیادی چیلنج وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کا ضیاع اور بدانتظامی ہے۔ انہوں نے ریگولیٹرز اور پالیسی سازوں پر زور دیا کہ کسی بھی نئی زرعی پالیسی کو کارپوریٹ منافع کے بجائے فوڈ سیکیورٹی، صحت عامہ، اور ماحولیاتی پائیداری میں طویل مدتی بہتری کو ترجیح دینی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مؤثر زرعی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے، فیصلہ سازی کو شفاف، جامع اور پاکستان کے زرعی نظام، ماحولیات اور صحت عامہ کی فلاح و بہبود پر مرکوز ہونا چاہیے۔
جواب دیں