بہادری کا مطلب چیلنجز کے مدِ مقابل طاقت اور مقصد تلاش کرنا ہے: سعدیہ نثار
نوجوانوں کے پاس اس بات کی طاقت ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کے لیے آواز اٹھائیں جہاں ہر فرد کی انفرادیت کی قدر کی جائے۔ شمولیت کا آغاز ہم میں سے ہر ایک سے ہوتا ہے اور نوجوانوں کی آوازیں اس تحریک میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ بات شاعرہ، مصنفہ، معذوری کے حقوق کی علمبردار اور ٹیڈ ایکس اسپیکر سعدیہ نثار نے 1 نومبر 2024 کو آئی پی ایس (انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز) میں نوجوانوں کے ساتھ ایک انٹرایکٹو سیشن کے دوران کہی۔ یہ سیشن یوتھ ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔
سعدیہ کی پیدائش عضلاتی مایوپیتھی کے ساتھ ہوئی تھی، جو ایک ایسی بیماری ہے جو پٹھوں کو متاثر کرتی ہے۔ اپنی کتابوں "ہارٹس دیٹ ریمیمبر” اور "اسٹرنتھ فرام وِدھ اِن” کے ذریعے انہوں نے اپنی زندگی، دقیانوسی تصورات کو توڑنے اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے طاقت تلاش کرنے کے بارے میں بات کی ہے۔
یہ نشست سوال و جواب کی صورت میں منعقد کی گئی، جس میں طلباء اور نوجوانوں کو اسپیکر کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ سعدیہ نثار نے اپنے ذاتی تجرھبات، دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے لیے حکمتِ عملیوں ، اور ایک زیادہ شمولیت پسند دنیا کے بارے میں اپنے خیالات پیش کیے۔
سیشن کا آغاز تعارفی سوالات سے ہوا جنہوں نے سعدیہ نثار کی پس منظر اور اس راستے کو اجاگر کیا جس نے انہیں مصنفہ اور معذوری کے حقوق کا علمبردار بننے کی جانب راغب کیا۔ انہوں نے اپنی کتابوں کے پیچھے کی چھپے جذبے کو بیان کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ قارئین معذوری اور طاقت کے بارے میں نئی سمجھ کے ساتھ سیشن سے واپس جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ "لکھنا میرے لیے اپنی اندرونی طاقت کو ظاہر کرنے اور دوسروں کے ساتھ شئیر کرنے کا ایک طریقہ ہے- میں چاہتی ہوں کہ میرے قارئین خود کو بااختیار محسوس کریں اور اپنے زاویہِ نظر کو چیلنج کریں۔
اپنی طاقت اور دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے زندگی کی رکاوٹوں کا سامنا مثبت اور وقار کے ساتھ کرنے کے اپنے طریقے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صبر کبھی نہ لڑنے کا نام نہیں؛ یہ چیلنجز کے سامنے طاقت، مقصد اور کامیابی تلاش کرنے کا نام ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو خود آگہی، خود نگہداشت، اور فعال ذہنیت کے ذریعے خود میں بااختیاری پیدا کرنے کی ترغیب دی۔
حقوق کی حمایت کے بارے میں سوالات کے جواب میں انہوں نے معذوری کے حامل افراد کے لیے ایک زیادہ شمولیت پسند معاشرتی تبدیلی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نوجوان اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اپنے کمیونٹیز میں فعال حمایت، وکالت اور تفہیم کو فروغ دے کر تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اختتامی حصے میں، جو کمیونٹی اور تعلقات پر مرکوز تھا، سعدیہ نثار نے سامعین کو سماجی رکاوٹوں کو شکست دینے اور مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ معنی خیز روابط استوار کرنے کی ترغیب دی۔ اپنے ذاتی سفر پر غور کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی کہ معاون تعلقات اور کمیونٹی کا کردار ان کے مقاصد کو حاصل کرنے اور شمولیت برقرار رکھنے میں کتنا اہم رہا ہے۔ "ہم ان تعلقات سے بڑھتے ہیں جو ہم بناتے ہیں۔ میرے خاندان اور کمیونٹی میرے لیے طاقت کا منبع رہی ہے، اور وہ ہمیشہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ ہم کبھی بھی اپنے سفر میں اکیلے نہیں ہوتے”، انہوں نے کہا۔
جواب دیں